اقتدار اعلیٰ سے محروم ریاست

364

جشن ِ آزادی کے یہ دو الفاظ بظاہر لازم وملزوم ہیں کیونکہ ہم جشن صرف آزادی کا مناتے ہیں۔ جھنڈیاں لگا کر قومی ترانے پر احترام کے ساتھ کھڑا ہو کر جھنڈے لہرا کر یا کسی ٹی وی پروگرام یا تقریب میں سامع یا مقرر کی حیثیت سے یہ جشن منانا ایک روایت بن چکی ہے۔ چودہ اگست ہو یا تیئس مارچ سب اس آزادی کے جشن ہی ہیں اور چند ہی دن پہلے تیئس مارچ یوم قرارداد پاکستان کے موقع پر صدر مملکت آصف علی زرداری ایک سجی سجائی بگھی میں پریڈ کا معائنہ کرتے اور ہاتھ لہراتے ہوئے منٹو پارک لاہور کی قرارداد کی یاد تازہ کررہے تھے۔ سجی سجائی بگھی اور صدر مملکت کا لہراتا ہاتھ دونوں ہماری آزادیوں کی نوید سنارہے تھے۔ نجانے اب کیا ہوگیا کہ پچھتر سال بعد بھی قوم کے ایک بڑے حصے میں یہ احساس جاگزیں ہوتا جا رہاہے کہ جشن اور آزادی دو الگ الفاظ ہیں۔ جشن ہمارے حصے میں آیا ہے اور آزادی کی نیلم پری کہیں قید ہو کر رہ گئی۔ جنرل حمید گل کا ویڈیو کلپ آج بھی کہیں سنائی دیتا ہے کہ جس میں وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ایک ملک تو دے دیا گیا مگر آزادی نہیں ملی یہ آزادی ہم کو حاصل کرنی ہے۔

آئی ایم ایف کی طرف سے یہ حکم ملا ہے کہ قرض کی ایک اور قسط اس شرط پر ملے گی کہ اس میں سے کچھ بھی سی پیک کے منصوبوں کا قرض ادا کرنے یا آگے بڑھانے کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ حکومت پاکستان کی اس یقین دہانی نے قرض کی قسط کی اجرائی کو یقینی بنایا۔ یوں آئی ایم ایف نے سی پیک کو پاکستان کی مجموعی معیشت سے الگ کر دیا ہے۔ گویا کہ سی پیک چلے یا نہ چلے اب یہ چین کا درد سر ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ سی پیک ہماری ریڈ لائن تھی۔ ہم سی پیک کی شان میں قصیدے پڑھ رہے تھے اور اسے گیم چینجر منصوبہ کہتے نہیں تھک رہے تھے۔ حد تو یہ کہ سی پیک کے منصوبوں میں شفافیت کو بھی اس عظیم منصوبے کی توہین قرار دیا جاتا تھا۔ آج حالت یہ ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کی ہدایت کو من وعن قبول کرکے سی پیک کو اپنے مجموعی اقتصادی پالیسی سے باہر نکالنے پر آمادہ ہو چکی ہے۔ جس کا مجموعی اثر پاکستان اور چین کے تعلقات پر بھی پڑے گا۔ پاکستان کے حکام جب امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے نام پر راز ونیاز کر رہے تھے تو چینیوں کا ماتھا اسی وقت ٹھنکا تھا اور انہوں نے متبادل کے طور پر ایران اور افغانستان کے ساتھ روابط مضبوط کرنا شروع کیے تھے۔ اسی مہم میں چینی وزیر خارجہ نے ایران میں ایک طنزیہ مگر گہرا جملہ کہا تھا کہ ایران کی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک ٹیلی فون کال پر اپنی پالیسی تبدیل نہیں کرتا۔ سی پیک کے بعد ایران گیس پائپ لائن پاکستان کے لیے توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے خاصی اہمیت کا حامل تھا۔ اس سے پاکستان کو کم قیمت پر گیس ملتی اور اس کی صنعت کا پہیہ دوبارہ رواں کرنے میں یہ منصوبہ خاصا مدد گار ثابت ہوتا مگر امریکا پاک ایران گیس پائپ لائن کا کھلا مخالف ہے اور امریکی دبائو پر پاکستان اس معاملے پر پیش رفت کرنے سے قاصر ہے۔ ایران اپنے حصے کا کام کرچکا ہے مگر پاکستان امریکا کی اجازت ملنے کا انتظار کر رہا ہے۔ امریکا نے دوٹوک انداز میں کہہ دیا ہے کہ اس منصوبے کو آگے بڑھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ امریکی انڈر سیکرٹری برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو جب کانگریشنل سماعت کے دوران پاکستان میں رجیم چینج کے حوالے سے دی جانے والی دھمکی کی تردید کر رہے تھے تو اگلے ہی لمحے وہ ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن منصوبہ آگے بڑھانے کے معاملے پر پاکستان کو سنگین نتائج کی دھمکی دے رہے تھے۔ ایک دھمکی کا انکار کرتے ہوئے بھی وہ ایک اور دھمکی سے باز نہیں آرہے تھے۔ امریکا کے اس انکار کے بعد اب حکومت پاکستان اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کرنے کا جائزہ لے رہی ہے۔ اس درخواست میں ایران پر پابندیوں کا حوالہ دے کر پاکستان کی بدترین اقتصادی حالت کی بنا پر رحم طلب کیا جائے گا مگر اس درخواست کا کیا حال ہوگا پہلے سے معلوم ہے۔ بقول غالب

قاصد کے آتے آتے خط ایک اور لکھ رکھوں
یہ جانتا ہوں وہ کیا لکھیں گے جواب میں

چونکہ پاکستان کے لیے بنائے گئے روڈ میپ میں خود انحصاری کا کوئی مقام اور مرحلہ آنا ہی نہیں اس لیے ایران کا ساتھ سستی توانائی کا یہ منصوبہ اس روڈ میپ میں اپنی جگہ نہیں پا سکے گا۔ چلیں ایران امریکی پابندیوں کا شکار ہے مگر ترکمانستان کے ساتھ گیس پائپ لائن کا معاہدہ بھی کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔ تاپی کے نام سے اس منصوبے میں ترکمانستان پاکستان اور بھارت شامل تھے مگر بھارت امریکی ایما پر اس منصوبے سے پیچھے ہٹ گیا اور تاپی سے منصوبہ تاپ ہو کر رہ گیا مگر اس کے باوجود یہ منصوبہ فائلوں سے باہر نہیں نکل سکا۔

آزاد قوموں کے مقدر کی لکیر قدرت نے بنائی ہوتی ہے مگر ایک لکیر کھرچ کر بنائی جاتی ہے۔ قدرت نے پاکستان کے مقدر کی شاندار لکیر بنائی تھی۔ بہترین اسٹرٹیجک لوکیشن، بے پناہ معدنیات، خوبصورت سیاحتی مراکز، عہد قدیم کی تہذیبوں کے آثار، چار موسم غرض یہ کہ پاکستان کے لیے پر لگا کر اُڑنے کے تمام مواقع اور امکانات موجود تھے مگر اس کے ہاتھ کی مصنوعی لکیر میں اس رینگ رینگ کر اور گھسٹ کر آگے بڑھنا لکھ دیا ہے۔ اسے آزاد اُڑانوں سے روکنے کے لیے فیٹف اور آئی ایم ایف کی قینچیوں سے پر کترنے کا کام لیا جاتا ہے۔ امریکی مصنف ڈینیل مارکی کی کتاب ’’نو ایگزٹ فرام پاکستان‘‘ میں اس کہانی کو لگی لپٹی رکھے بغیر بیان کیا گیا ہے۔ اب تو ڈونلڈ لو نے بھی ایران گیس پائپ لائن کی مخالفت کرکے پاکستان کی آزادی اور اقتدار اعلیٰ کی حدود کا تعین کیا ہے۔ ڈونلڈ لو کے اس بیان پر ترجمان دفتر خارجہ پاکستان کی طرف سے خودمختاری پر سمجھوتا نہ کرنے کا قصہ لے بیٹھیں مگر المیہ یہ ہے کہ اب پاکستان کی نئی نسل ان باتوں کو سلطان راہی کے ڈائیلاگ سے زیادہ اہمیت نہیں دے رہی۔ نئی نسل کے ریاست اور حکمران طبقات کے اوپر اعتماد ختم ہونے کی وجہ ملک کی حالت زار ہے۔ جو چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ اس کے ساتھ کیا وارداتیں ہو تی رہی ہیںا ور ان کا مرکزی کردار کون رہا ہے؟۔ پاکستان ایک ہزار سال بھی آئی ایم ایف اور مغرب کے ساتھ تعلقات کی موجودہ تعلق کی نہج پر رہتے ہوئے معاشی طور پر خودکفیل نہیں ہوسکتا۔ اس کا واحد راستہ آئی ایم ایف سے ہٹ کر متبادل اور متوازی منصوبوں کی تیاری ہے مگر اس متبادل راہ پر چلنے کی اجازت نہیں۔ ہاں صرف بھارت کے ساتھ تجارت اور تعلق ایک ایسا آپشن ہے جس پر کسی کو اعتراض نہیںہو سکتا کیونکہ بھارت کو اس خطے میں چین کا مدمقابل سمجھا جاتا ہے اور اس نظریۂ ضرورت کے تحت اسے سات خون معاف ہیں۔ جس روسی تیل کی خریداری کی کوشش اور روس کی مذمت نہ کرنے پر پاکستان کو نہ ختم ہونے والے سیاسی بحران کا شکار کر دیا گیا وہ اسی روس سے تیل خریدنے اور روس کی مذمت نہ کرنے پر بھارت بدستور لاڈلا بنا بیٹھا ہے۔ بھارت کا وزیر خارجہ ایس جے شنکر لائیو پریس کانفرنس میں کھری کھری سناکر کہتا ہے کہ یورپ اپنے مسئلے کو دنیا بھر کا مسئلہ سمجھتا ہے مگر دوسروں کے مسئلے کو صرف انہی کا مسئلہ سمجھتا ہے اور ان کے مغربی ہم منصب منہ تکنے کے سوا کچھ کہہ نہیں پاتے۔ اس تلخ نوائی پر ڈونلڈ لو واشنگٹن میں تعینات بھارتی سفیر کو بلا کر سرزنش کرنے کی ہمت نہیں کرتا۔ ایسے میں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جشن ہمارے ہاتھ میں ہے اور آزادی کسی اور کے پاس گروی ہے۔