کوئی قانون سے بالاتر نہیں

311

پاکستان کا آئین صدر مملکت اور صوبائی گورنروں کو ملک کی کسی بھی عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ قرار دیتا ہے جس کی وجہ سے برسر منصب ہونے کی مدت میں ان کیخلاف کسی بھی الزام میں عدالتی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ جناب آصف زرداری نے دوسری بار صدارت کے عہدے پر براجمان ہونے کے بعد ایک نیب ریفرنس میں اس رعایت سے مستفید ہونے کے لیے احتساب عدالت میں درخواست دے دی ہے۔ لیکن کیا صدر اور گورنروں کو حاصل یہ استثنیٰ عدل اور انصاف کے بنیادی تقاضوں کے سراسر منافی نہیں؟ صدر اور گورنر کیا درجۂ معصومیت پر فائز ہوجاتے ہیں کہ وہ کسی کیخلاف ظلم، زیادتی اور حق تلفی کے مرتکب ہو ہی نہ سکتے ہوں؟ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ان کے ظلم کا نشانہ بنے تو وہ کس سے فریاد کرے اور اپنا حق لینے کس دروازے پر جائے؟ اگر دنیا کے تمام ملکوں کے دساتیر بھی اپنے اعلیٰ ترین حکام کو یہ تحفظ دیتے ہیں تب بھی عدل کے بنیادی تقاضوں کی رو سے اس کا جواز کیا ہے؟ اگر جدید دنیا کے چلن ہی کی بات کی جائے تب بھی ایسا نہیں کہ برسر منصب سربراہان مملکت کو عدالت میں طلب کیے جانے کی کوئی مثال ہی نہ ہو۔ پھر پاکستان تو آئین کی رو سے اسلامی نظریاتی ریاست ہے لہٰذا آئینی شقوں کی وضاحت اسلامی اصولوں کی روشنی میں لازمی ہے۔ جب ایسا ہے تو صدر اور گورنر کو قانون اور عدالت سے مستثنیٰ رکھنے کی آئینی شق کیا اس ارشاد نبوی سے براہ راست متصادم نہیں کہ ’’تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ اسی لیے تو تباہ ہوئیں کہ وہ لوگ کمتر درجے کے مجرموں کو قانون کے مطابق سزا دیتے تھے اور اونچے درجے والوں کو چھوڑ دیتے تھے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، اگر محمدؐ کی بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرتی تو میں ضرور اس کا ہاتھ کاٹ دیتا‘‘۔ (بخاری۔ کتاب الحدود)۔ اللہ کے نبیؐ نے اپنے آپ کو بھی قانون سے بالاتر نہیں رکھا، سیرت کی کتابوں میں اس کی متعدد مثالیں درج ہیں۔ خلافت راشدہ میں بھی سربراہ مملکت کبھی عدالت اور قانون سے بالاتر نہیں رہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک بار سیدنا عمرؓ اور سیدنا ابی بن کعبؓ کا ایک معاملے پر اختلاف ہوگیا اور دونوں نے سیدنا زید بن ثابتؓ کو منصف بنایا۔ فریقین ان کے سامنے حاضر ہوئے۔ سیدنا زیدؓ نے اٹھ کر خلیفہ وقت کو اپنی جگہ بٹھانا چاہا مگر انہوں نے اسے اصول عدل کے منافی قرار دیا اور دوسرے فریق کے ساتھ بیٹھ گئے۔ سیدنا ابیؓ نے اپنا دعویٰ پیش کیا اور سیدنا عمرؓ نے اسے درست ماننے سے انکار کیا۔ قاعدے کے مطابق سیدنا زیدؓ کو سیدنا عمرؓ سے قسم لینی چاہیے تھی مگر انہوں نے اس میں تآمل کیا۔ اس پر سیدنا عمرؓ نے خود قسم کھائی اور مجلس کے خاتمے پر کہا کہ ’’زیدؓ قاضی ہونے کے قابل نہیں ہوسکتے جب تک کہ عمر اور ایک عام مسلمان ان کے نزدیک برابر نہ ہو‘‘۔ (بیہقی، السنن الکبریٰ)۔ اس مثال کی روشنی میں کیا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ماہرین قانون کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا آئین قانونی مساوات قائم کر رہا ہے؟ اس حوالے سے سیدنا علیؓ کے دور خلافت کا بھی ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ ہوا یہ کہ سیدنا علیؓ نے کوفے کے بازار میں ایک نصرانی کو اپنی گم شدہ زرہ بیچتے دیکھا تو اس سے کہا کہ یہ زرہ میری ہے مگر اس نے خلیفہ وقت کا دعویٰ ماننے سے انکار کردیا۔ اس پر اسلامی ریاست و حکومت کے سربراہ نے مملکت کے چیف جسٹس قاضی شریح کی عدالت میں اپنا مقدمہ پیش کیا۔ انہوں نے سیدنا علیؓ سے شہادت طلب کی۔ سیدنا علیؓ نے اپنے فرزند سیدنا حسنؓ اور اپنے غلام قنبر کو گواہ کے طور پیش کیا لیکن قاضی نے ان دونوں کی گواہی کو مدعی کا بیٹا اور غلام ہونے کی وجہ سے تسلیم کرنے سے انکار کردیا کیونکہ مدعی کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے ان کی گواہی اصولاً قابل قبول نہیں تھی۔ سیدنا علیؓ نے قاضی سے کہا کہ کیا آپ کے نزدیک حسن قابل اعتبار نہیں ہیں؟ قاضی صاحب نے جواب دیا کہ امیرالمومنین، بات شخصیات کے اعتبار پر فیصلے کی ہوتی تو آپ کا دعویٰ ہی کافی تھا مگر معاملہ عدل کے اصول کا ہے، اس لیے ان دونوں کی گواہی قبول نہیں کی جاسکتی۔ چنانچہ فیصلہ نصرانی کے حق میں سنایا گیا اور سربراہ مملکت کا دعویٰ مسترد کردیا گیا۔ سیدنا علیؓ نے اس فیصلے کو کھلے دل سے قبول کرتے ہوئے فرمایا ’’آپ نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا‘‘۔ مگر نصرانی اس فیصلے پر حیرت زدہ رہ گیا اور بولا ’’یہ تو پیغمبرانہ عدل ہے کہ امیرالمومنین کو بھی عدالت میں آنا اور اپنے خلاف فیصلہ سننا پڑتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ زرہ امیرالمومنین ہی کی ہے۔ یہ ان کے اونٹ پر سے گر گئی تھی اور میں نے اٹھالی تھی۔ (تہذیب تاریخ، ابن عساکر)۔ اسی طرح خلافت اسلامی کے گورنروں کیخلاف شکایات سننے اور مظلوموں کو ان کا حق دلوانے کے لیے بھی مستقل بندوبست تھا۔ چنانچہ ایک بار سیدنا عمرؓ نے حسب معمول جب اپنے تمام گورنروں کو حج کے موقع پر طلب کیا اور مجمع عام میں کھڑے ہوکر کہا کہ ان لوگوں کیخلاف اگر کسی شخص کو ظلم کی شکایت ہو تو وہ پیش کرے۔ مجمع میں سے ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ آپ کے گورنر عمرو بن العاصؓ نے مجھے ناروا طور پر سو کوڑے لگوائے ہیں۔ خلیفہ وقت نے کہا کہ اٹھو اور ان سے اپنا بدلہ لے لو۔ عمرو بن العاصؓ نے التجا کی کہ آپ گورنروں کے خلاف یہ راستہ نہ کھولیں۔ مگر سیدنا عمرؓ نے فیصلہ سنایا کہ ’’میں نے رسول اللہؐ کو خود اپنے آپ سے بدلہ لیتے دیکھا ہے، اے شخص اٹھ اور اپنا بدلہ لے لے‘‘۔ آخرکار عمرو بن العاصؓ کو ہر کوڑے کے بدلے دو اشرفیاں دیکر اپنی پیٹھ بچانی پڑی۔ (کتاب الخراج، امام ابویوسف)۔ ان نظائر اور شواہد کی روشنی میں پوری قوم کو سوچنا چاہیے کہ کیا ہمارے آئین کی وہ شق جو صدر اور گورنروں کو عدالت میں حاضری سے مستثنیٰ قرار دیتی ہے، عدل کے منافی نہیں، اور کیا اس کی اس طرح اصلاح ضروری نہیں کہ اس ملک میں چھوٹا اور بڑا، کمزور اور طاقتور سب قانون کی نگاہ میں واقعی برابر ہوجائیں۔ (بشکریہ: روزنامہ جنگ)