ـ23 مارچ ایک عہد (پہلا حصہ)

383

قوموںکی تاریخ میں بعض دن، مہینے اور سال خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ 23مارچ 1940 ایک ایسا ہی دن مہینہ اور سال ہے جب ہم نے ایک نئی مملکت کی تشکیل کے لیے ایک نظریہ پیش کیا تھا۔ ہرسال یہ دن انتہائی جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ مختلف جماعتیں اس حوالے سے جلسے جلوسوں کا انعقاد کرتی ہیں۔ ٹی وی چینلوں پر بھی خصوصی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔ کئی برسوں سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ 23مارچ کے حوالے سے بیش تر ٹی وی چینلوں کے پروگراموں میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ کسی بھی حوالے سے کسی کے لبوں پر اسلام کا نام نہ آنے پا ئے۔ کوئی بیان، کوئی تقریر، کسی کمنٹیٹر، کسی پروگرام کے میزبان (اینکر پرسن) کی گفتگو میں اسلام پر بات نہیں کی جاتی۔ واقعہ یہ ہے کہ رفتہ رفتہ ہم اس نظریے سے بچھڑتے جارہے ہیں جو پاکستان کی بنیاد ہے۔ ہمارے حکمران مغرب کے مقابل اسلام سے کنارہ کش رہنے میں ہی اپنے اقتدارکی بقا محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان ہم نے اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے لیے اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ سے مانگا تھا، یہ ایک میثاق اور ایک عہد تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صاف الفاظ میں بیان فرما دیا ہے کہ اگر تم نے اس میثاق کو قائم رکھا تو اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے شامل حا ل ہوگی۔ لیکن آج ہمارا انتخاب بدل گیا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی کوشش ہے کہ ہم اس خیال اس نظریے کو بھول جائیں فراموش کردیں جس طرح ہم نے اپنے عظیم ماضی کو فراموش کردیا ہے۔ 23تاریخ کے حوالے سے مارچ کا مہینہ اس عظیم ماضی کا ایک حوالہ ہے جس کی چند یادیں پیش خدمت ہیں۔

یہ 3 مارچ 1924 تھا جب ایک ہزار تین سو برس پر محیط اسلام کی شان وشوکت، عظمت اور اتحاد کا خاتمہ ہوا۔ مسلمان پوری دنیا میں عزت اور احترام سے محروم کردیے گئے۔ جب خلافت کا خاتمہ ہوا۔ تب سے اسلام کو ایک پسماندہ نظام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ امت مسلمہ پھر سے یکجا نہ ہوسکے۔ امت مسلمہ کی یکجائی کا ذکر اس طرح کیا جاتا ہے جیسے یہ پتھر کے دور کی بات ہے۔ مسلمان حکمرانوں کا حوالہ محض اور محض عیاشی کی زندگی کو قرار دے دیا گیا ہے۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ حکمرانوں کی ذاتی زندگی سے آگے نہیں بڑھتا اور کسی بھی طور اس عہد کے لوگوں کی معاشی حالت، زیرو افراط زر، بے روزگاری کا نہ ہونا، بنیادی ضروریات کا انتہائی آسانی سے پورا ہونا، اتنی خوشحالی کہ زکواۃ لینے والے محال، فرقہ پرستی کا نہ ہونا اور تہذیبی اور ثقافتی ترقی کا تذکرہ نہیں ہونے دیا جاتا۔ ان عظیم حکمرانوں نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سیکڑوں خطہ ہائے زمین کو اسلام اور عربی زبان کی طاقت سے متحد کیا جب کہ آج کے روشن خیال، دانش ور اور ترقی پسند مسلم حکمرانوں سے چھوٹے چھوٹے علاقے نہیں سنبھالے جارہے۔

اس وقت جب کہ مغل سلطنت زوال کا شکار تھی، لارڈ میکالے نے 2فروری 1835 کو برطانوی پارلیمنٹ میں کہا تھا ’’میں نے انڈیا کے طول وعرض میں سفر کیا، میں نے ایک بھی ایسا شخص نہیں دیکھا جو بھکاری یا چور ہو۔ ایسی زبردست دولت میں نے اس ملک میں دیکھی ہے، ایسی بلند اخلاقی صفات اور ایسے زبردست لوگ کہ میں سوچتا ہوں کہ ہم اس ملک پر قبضہ نہیں کرسکتے جب تک کہ ہم اس قوم کی اصل طاقت کو ختم نہ کردیں اور وہ ہے اسلام‘‘۔ ہندوستان اس وقت کی دنیا کی معاشی سپر پاور تھا۔ معاشی حوالے سے ہندوستان بالعموم مسلم ادوار اور بالخصوص مغلیہ دور (اکبر – عالمگیر) میں دنیا کے کل جی ڈی پی میں اوسطاً 25 فی صد حصہ رکھتا تھا۔ درآمدات انتہائی کم اور برآمدات انتہائی زیادہ تھیں اور آج ماہر معاشیات جانتے ہیں کہ کامیاب ملک وہ ہے جس کی برآمدات زیادہ اور درآمدات کم ہوں۔ سترہویں صدی میں فرانسیسی سیاح فرانکیوس برنئیر ہندوستان آیا اور کہتا ہے کہ ہندوستان کے ہر کونے میں سونے اور چاندی کے ڈھیر ہیں۔ اسی لیے سلطنت مغلیہ ہند کو سونے کی چڑیا کہا جاتا تھا۔

اسلام کی 1300 برس پرپھیلی حکومت کی پوری تاریخ میں سود کبھی بھی اس کے معاشی نظام کا حصہ نہیں رہا۔ نہ ہی ایسے شواہد ملتے ہیں کہ غربت کے خاتمے کے لیے کبھی کوئی پروگرام ترتیب دیا گیا ہو کیونکہ ایسی غربت تھی ہی نہیںکہ آدمی دو وقت کی روٹی کا محتاج ہو۔ جہالت پر مبنی یہ جملہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا جب انگریز آکسفورڈ اور کیمبرج بنارہے تھے اس وقت مسلم حکمران ہندوستان میں تاج محل بنارہے تھے۔ اس طرح کے اعتراض کرتے ہوئے یہ بات فراموش کردی جاتی ہے کہ مسلم دور کی شاندار عمارات جس عظیم تخلیقی صلاحیت سے تعمیر کی گئی، وہ دو چیزوں کے بغیر ناممکن تھیں۔ پہلی فن تعمیر کی تفصیلی مہارت، جس میں جیومیٹری، فزکس، کیمسٹری اور ڈھانچے کے خدوخال وضع کرنے تک کے علوم شامل ہوتے ہیں۔ دوسری کسی ملک کی مضبوط معاشی اور اقتصادی حالت، اس قدر مضبوط کے وہاں کے حکمران شاندار عمارات تعمیر کرنے کا خرچ برداشت کر سکیں۔ آج تاج محل کو جدید مشین اور جدید سائنس کو استعمال کرتے ہوئے بنایا جائے تو 1000 ملین ڈالر لگنے کے باوجود ویسی عمارت بننا تقریباً ناممکن ہے۔

فن تعمیر کی جو تفصیلات تاج محل، شیش محل، شالامار باغ، مقبرہ ہمایوں، دیوان خاص وغیرہ وغیرہ میں نظر آتی ہے، اس سے لگتا ہے کہ ان کے معمار جیومیٹری کے علم کی انتہاؤں کو پہنچے ہوئے تھے۔ تاج محل کے چاروں مینار صرف آدھا انچ باہر کی جانب جھکائے گئے تاکہ زلزلے کی صورت میں گریں تو گنبد تباہ نہ ہوں۔ یہ صرف مستری کے اینٹیں لگانے کا معاملہ نہیں ہے، اس میں حساب کی باریکیاں شامل ہیں۔ پورا تاج محل 90 فٹ گہری بنیادوں پر کھڑا ہے۔ اس کے نیچے 30 فٹ ریت ڈالی گئی کہ اگر زلزلہ آئے تو پوری عمارت ریت میں گھوم سی جائے اور محفوظ رہے لیکن اس سے بھی حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنا بڑا شاہکار دریا کے کنارے تعمیر کیا گیا ہے اور دریا کنارے اتنی بڑی تعمیر اپنے آپ میں ایک چیلنج تھی، جس کے لیے پہلی بار ویل فاونڈیشن (well foundation) متعارف کرائی گئی یعنی دریا سے بھی نیچے بنیادیں کھود کر ان کو پتھروں اور مصالحہ سے بھر دیا گیا، اور یہ بنیادیں سیکڑوں کی تعداد میں بنائی گئی گویا تاج محل کے نیچے پتھروں کا پہاڑ اور گہری بنیادوں کا وسیع جال ہے، اس طرح تاج محل کو دریا کے نقصانات سے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا گیا۔ عمارت کے اندر داخل ہوتے ہوئے اس کا نظارہ فریب نظر یعنی (Optical illusion) سے بھرپور ہے۔ یہ عمارت بیک وقت اسلامی، فارسی، عثمانی، ترکی اور ہندی فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ یہ فیصلہ کرنے کے لیے حساب اور جیومیٹری کی باریک تفصیل درکار ہے۔ پروفیسر ایبا کوچ (یونیورسٹی آف وینیا) نے حال میں ہی تاج محل کے اسلامی اعتبار سے روحانی پہلو واضح (decode) کیے ہیں۔ اور بھی کئی راز مستقبل میں سامنے آ سکتے ہیں۔ انگریز نے تعمیرات میں (well foundation) کا آغاز انیسویں صدی اور (optical illusions) کا آغاز بیسویں صدی میں کیا۔ جب کے تاج محل ان طریقہ تعمیر کو استعمال کر کے سترہویں صدی کے وسط میں مکمل ہو گیا تھا۔

’’ٹائل موزیک‘‘ وہ فن ہے، جس میں چھوٹی چھوٹی رنگین ٹائلوں سے دیوار پر تصویریں بنائی جاتی اور دیوار کو منقش کیا جاتا ہے۔ یہ فن لاہور کے شاہی قلعے کی ایک کلومیٹر لمبی منقش دیوار اور مسجد وزیرخان میں نظر آتا ہے۔ ان میں جو رنگ استعمال ہوئے، ان کو بنانے کے لیے آپ کو موجودہ دور میں پڑھائی جانے والی کیمسٹری کا وسیع علم ہونا چاہیے۔ یہی حال فریسکو پینٹنگ کا ہے، جن کے رنگ چار سو سال گزرنے کے باوجود آج تک مدہم نہیں ہوئے۔
(جاری ہے)