تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے

339

ریاست پاکستان کی سیاست کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو یہ ذات بات پات میں تقسیم نظر آتی ہے جو ہندو نظریہ تواہِ کا پر تو ہے۔ ہندوازم کی طے شدہ تقسیم میں جس طرح برہمن کو اعلیٰ طبقہ قرار دے کر ہر اعلیٰ ترین عہدے کا حقدار بنایا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ راج پات صرف ان ہی کا حق ہے اور وہ ہی اقتدار کے رموز سمجھ سکتے ہیں ملک سے لے کر مذہب تک ان کی اجارہ داری کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اب یہ نظریہ کہ ہم حکمرانی ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں ملک میں اقتداری کھیل میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ پاکستان کہ یہ سیاسی برہمن اس کھیل کو سینے سے چمٹائے راج بھاگ بنائے ہوئے اور ملک پر حکمرانی کو خود اپنا اور اپنی اولاد اور پھر اگر گنجائش ہے تو خاندان کا اپنا حق سمجھ رہے ہیں۔ یہ سیاست کے برہمن جونک ہیں جو ملک کا لہو چوس رہے ہیں مگر سیاسی برہمن ہونے کے ناتے، کسی کی مجال نہیں کہ ان سے پوچھ گچھ کی جسارت کرسکے، سزاوار ٹھیرانا تو بہت دور کی بات ہے اور وہی خوف ہے جو بھارت کے برہمن پر انگلی اٹھانے سے بھشٹ ہونے کا ذہنوں میں بٹھایا ہوا ہے۔ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی چپ کا روزہ مقتدر برہمنوں نے بھی رکھ رکھا ہے۔

برہمنوں کے بعد ہندوئوں میں دوسرا نمبر کشتری کا آتا ہے جس کا مطلب برہمن کے اشارے پر رموز حکومت سمجھ کر ملک کے نظام کو چلانا ہوتا ہے اس کو ہم بیوروکریٹ کا نام دیتے ہیں یہ بھی مملکت خداداد میں خاندانی ہیں جو نسل در نسل ملک کے نظام کو چلانے کے مستری بنے ہوئے ہیں انہیں بھلے آتا جاتا کچھ نہ ہو مگر وہ خاندانی ہیں۔ اس میں وزرا سے لے کر اعلیٰ ترین سرکاری عہدوں کا حقدار قرار دے رکھا ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ تم شودر کیا جانو یہ خاندانی تجربہ کے حامل ہیں، بھلے ان کے بڑوں نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا مگر برہمنوں کو سو خون معاف ہیں تو انہیں بھی کچھ قصور معاف ہیں۔

برہمن حکمراں اور کشتری سرکار میں میرٹ کا کیا سوال یہ ہی کیا کم ہے کہ وہ ریکارڈ کے حامل ہیں اور فیورٹ ہیں۔ پاکستان میں بھی ان ہی دو کا راج ہے اور ملک ان ہی کے ہاتھوں تاراج ہے۔ حکمرانوں کی ذاتیں بھی برہمن اور کشتری کی صورت میں نوکریوں سے لے کر ٹھیکوں تک، لوٹ سے لے کر بھتے کے اول حقدار بنے ہوئے ہیں اور ہر فوائد کی ان میں بندربانٹ ہے جس طرح ہندو کلچر میں ایک طبقہ کو شودر قرار دے کر خدمت گار بتایا گیا ہے ان کا کام یہ ہے کہ وہ وہی کام کرے گا جس سے برہمن اور کشتری گھن کھائے گا۔ ملک پاکستان میں تقسیم کار پر آپ نظر دوڑائیں تو یہ طبقاتی تقسیم کا راج ہے، بے چارے اعلیٰ تعلیم یافتہ باصلاحیت دھکے کھا رہے ہیں جوتیاں چٹخا رہے ہیں بلبلا رہے ہیں، ہونٹ چبا رہے ہیں، کوسنے دے رہے ہیں مگر وہ شودر قرار دیے ہوئے ہیں کہ وہ ان کے سیاسی خاندان کے نہیں ہیں جو معیار ملازمت ہے اور اولین میرٹ ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ ہندو کلچر کا کھیل برس ہا برس سے جاری ہے اور یہ کلنک کا ٹیکہ اور ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ جمہوریت کے گندے پانی سے اس کو پروان چڑھایا جاتا ہے اور اس کے کڑوے پھل عوام کا نصیب دے کر بزور کھانے پر مجبور کیا جاتا رہا ہے۔

اسلام تو عدل ہی کا نام ہے وہ معیار اور میرٹ کا اصول بتاتا ہے، وہ ملوکیت اور ذات برادری کی نفی کرتا ہے مگر یہ پاکستان میں فلسفہ لاگو ہی نہیں بس اسلام کا نام لے لیا اور ہندوازم کی صورت ریاست میں قائم کر ڈالی تو پھر یہ تباہی اور بربادی تو ہوگی گھی کی پھانس پائی کی پٹی سے کب ختم ہوئی ہے گرم بھپکارہ ہی علاج ہے اس نظام نے یہ دن دکھائے ہیں کہ گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے۔

سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بت ہو گئے پرانے