جس کاکام اسی کو ساجے

388

بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل انیل چوہان نے کہا ہے کہ پاکستان ایک طرح کے مالی بحران کا شکار ہے لیکن عسکری طور پر اس کی صلاحیتوں میں کمی نہیں آئی اور اس کی مسلح افواج ہمارے لیے بدستور خطرہ بنی ہوئی ہیں۔ انڈیا ٹوڈے کانکلیو 2024 میں ’’اکیسویں صدی میں ہندوستان کے لیے سیکورٹی کے بڑے چیلنجز‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمینار میں ان کا کہنا تھا کہ ہندوستان کے دو پڑوسی چین اور پاکستان ہیں دونوں کے ساتھ اس کی مخاصمت ہے۔ دونوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی دوستی سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند ہے۔ مستقبل میں بھارت کو یہ چیلنج درپیش رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک معاشی بحران کا شکار ہے اور اب وہاں ایک مناسب حکومت بن گئی ہے مگر پاکستان کی دفاعی صلاحیت کم نہیں ہوئی اور بھارت کو یہ چیلنج درپیش رہے گا۔

بھارتی چیف آف ڈیفنس اسٹاف کی طرف سے پاکستان کی دفاعی قوت کے برقرار ہونے اور بھارت کے لیے ایک چیلنج بنے رہنے کا یہ اعتراف اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران میں گھر چکا ہے۔ اس کی معیشت کا صندوق خالی ہے اور اگر کچھ ہے بھی تو اس میں مخیر دوستوں کی کشادہ دلی کا دخل ہے۔ یہ الگ بات اس کشادہ دلی کی بھی کسی نہ کسی سطح پر قیمت وصول ہو رہی ہوگی کیونکہ بین الاقوامی تعلقات میں مفت اور بلامعاوضہ کے اصول کا گزر ہی نہیں ہوتا۔ پاکستان کو لاحق معاشی بحران میں عام آدمی کا ریاست کی صلاحیت پر اعتماد متزلزل ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف پاکستان کو اس بحران سے نکلنے کے لیے قسط دینے کی تیاریاں کر رہا ہے مگر قرض در قرض کے یہ سلسلے ہی پاکستان کو اس حال تک پہنچانے کا باعث بنے ہیں۔ آئی ایم ایف کی قسط سے حکمران طبقات کے ہاتھ کی تنگی دور ہوجائے گی اور وہ کھل کر خرچ کرنے کی پوزیشن میں آئیں گے اور یوں قرض کی ایک قسط کی جانب یہ سفر یونہی جا ری رہے گا۔ یہی بحران کیا کم تھا کہ حکمران طبقات نے اپنی نیم حکیمانہ روش سے ملک کو ایک بڑے سیاسی بحران کا شکار کر دیا ہے۔ ملک کے ساتھ تجربات کرنے اور سیاسی کیمیائی تعاملات کا نتیجہ دیکھنے کے شوق نے ملک کو سیاسی طور پر تقسیم کر دیا ہے۔ اس وقت کی سیدھی سادی تقسیم یہ ہے کہ عوام ایک طرف اور ہیئت مقتدرہ دوسری انتہا پر کھڑی ہے۔ درمیان میں نسلوں اور سوچوں کی ایک وسیع خلیج آن کھڑی ہے۔ یہ خلیج کسی مصنوعی بیانیے، کسی سیاسی انجینئرنگ کا نتیجہ نہیں۔ نہ ٹویٹر اور ٹک ٹاک یا اسمارٹ فون کا ہی نتیجہ ہے۔

سوشل میڈیا سے پہلے جب تیسری دنیا کے ممالک عوامی رائے کو کنٹرول کرنے کے لیے اور دبانے کے لیے مقامی ذرائع ابلاغ پر پابندیاں لگایا کرتے تھے تو پھر لوگ ابلاغ اور اطلاع کے لیے بی بی سی اور وائس آف امریکا جیسے بیرونی ذرائع ابلاغ کا سہار ا لیا کر تے تھے۔ اس لیے پھر حکومتیں ان مغربی ذرائع ابلاغ پر اپنے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کا الزام عائد کرتے تھے۔ آج پاکستان میں سماجی رابطوں کا پلیٹ فارم ایکس یا ٹویٹر بند ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ ملک میں جو فساد برپا ہے اس کی ساری ذمے داری ٹویٹر پر ہے۔ یہ سوچ بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ پاکستان میں ٹویٹر سے پہلے بھی تحریکیں چلتی رہی ہیں۔ ان تحریکوں میں عوامی شرکت کا گراف بھی اکثر بلند رہا ہے۔ آج کا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی بگڑی ہوئی معیشت اور شورش زدہ سیاست نے عام آدمی کو حالات سے مایوس کیا ہے اور وہ سوال پوچھنے اور تبصرہ کرنے کی صلاحیت کا حامل بھی ہے۔ معیشت اور سیاست کے اس خانہ ٔ خراب کے ساتھ ہی سیکورٹی کی صورت حال بھی اچھی نہیں۔ پاکستان چونکہ بڑی معیشتوں کی کشمکش کے کراس فائر میں پھنس چکا ہے اس لیے مسلح جتھوں کے چیلنجز کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔ اس ماحول میں بھارتی فوج کے اعلیٰ عہدیدار کا پاکستان کی دفاعی صلاحیت کے برقرار رہنے کا اعتراف مایوسی کے حبس زدہ ماحول میں تازہ ہوا کا خوش گوار جھونکا ہے۔ چلیں کوئی شعبہ تو ایسا ہے جہاں پاکستان اپنی صلاحیت کا لوہا منوائے ہوئے ہے۔ اس کا کریڈٹ پاکستان کی مسلح افواج کو ملنا چاہیے کہ انہوں نے دفاع کے شعبے میں اگر کچھ خرچ کیا تو وہ دفاعی قوت کی صورت میں زمین پر نظر بھی آرہا ہے۔

دوسری طرف آئی ایم ایف کے کتنے ہی قرض آئے اور ڈکارے گئے مگر ہر بجٹ میں عوام کو مہنگائی کا ہی تحفہ ملا۔ ملک میں ایک بار جو چیز مہنگی ہوئی دوبار ہ اس کی قیمت نیچے نہیں آئی اگر آئی بھی تو اس کا فائدہ عوام کو نہ ملا۔ اس کی ذمے داری جہاں سول حکومتوں پر عائد ہوتی ہے وہیں ہیئت مقتدرہ بھی اس سے بری الذمہ نہیں۔ اکثر سیاسی حکومتوں پر پہرہ داری کے لیے آئی ایم ایف اور ہیئت مقتدرہ کے مشترکہ نمائندے ہی مقرر ہوتے رہے ہیں۔ آج بھی پاکستان کے وزیر خزانہ غیر ملکی شہری ہیں اور پاکستانیوں کی معاشی حالت ٹھیک کرنے کے لیے درآمد ہوئے ہیں۔ ماضی میں اسی اسٹائل میں معین قریشی اور شوکت عزیز سمیت کئی نام درآمد ہوتے رہے ہیں۔ اب آئی ایم ایف پاکستانیوں سے مذاکرات نہیں کرتا بلکہ آئی ایم ایف پاکستان کے معاملات پر آئی ایم ایف کے ساتھ ہی مذاکرات کرتا ہے۔ اس صورت حال میں سیاسی بحران نے عوام کو بھی حالات سے نالاں کر رکھا ہے۔ وہ ایک بار اپنا فیصلہ سنا کر گھروں کو جا چکے ہیں مگر ان کی ناراضی ووٹ کے ڈبوں میں ہی دفن ہو گئی ہے۔ ڈبے کھلنے سے ان کے غصے کی بھاپ باہر نہیں نکل سکی۔ بڑے چیلنجوں کا مقابلہ عوام کی حمایت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا اور عوامی اعتماد کی طاقت سے سرشار حکومت ہی آئی ایم ایف جیسے اداروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتی ہے گوکہ پاکستان میں اب آئی ایم ایف فیصلہ سازی پر جس قدر حاوی ہو چکا ہے اس میں آنکھیں ملانا بھی بڑی بات ہوگی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا تو اب قصہ ٔ پارینہ بن چکا ہے۔ ایسے میں ہئیت مقتدرہ کو دفاع وطن کے اس کام پر فوکس کرنا چاہیے جس پر اس کی صلاحیت کا اعتراف دشمن بھی کرنے پر مجبور ہے۔ اسی کو کہا جاتا ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجے۔