جذباتی ہجوم میں کچھ سنجیدہ لوگ

400

ایک ہلکے پھلکے لطیفے نما واقعہ آپ نے بارہا سن رکھا ہوگا کہ دو عربی آپس میں لڑرہے تھے، قریب سے کچھ پاکستانی خواتین گزر رہی تھیں انہوں یہ کہتے ہوئے فوراً سر پہ دوپٹا رکھ لیا کہ یہ لوگ قرآن شریف پڑھ رہے ہیں۔ قیام پاکستان کے بعد جب قومی زبان کا مسئلہ چل رہا تھا اس وقت کچھ حلقوں کی طرف سے یہ تجویز آئی تھی کہ پاکستان چونکہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے اس لیے اس کی قومی زبان عربی ہونی چاہیے اگر یہ بات مان لی جاتی تو مشرقی پاکستان میں زبان کے مسئلے پر ہنگاموں میں کچھ بنگالی ہلاک ہوتے نہ اچھرہ لاہور کا واقعہ پیش آتا۔ اردو تو ہماری مادری زبان تھی ہی اگر عربی قومی زبان بن جاتی تو اس فیصلے کے نفاذ کے بعد ہم اتنی عربی تو سیکھ لیتے کہ ہمارے بچے بوڑھے سب قرآن کے معنی سمجھ لیتے اور انہیں یہ معلوم ہو جاتا کہ ان کے ربّ نے ان کے لیے کیا پیغام بھیجا ہے اور کچھ کچھ احادیث بھی سمجھ لیتے اس لیے کہ حدیث کی عربی بہ نسبت قرآنی عربی کچھ مشکل ہے۔ علماء حضرات عربی زبان سیکھنے کی تین اہم وجوہات بتاتے ہیں پہلی تو یہ کہ ہماری مقدس کتاب قرآن مجید جس پر ہم سب کا ایمان ہے عربی زبان میں ہے دوسری وجہ یہ کہ ہمارے پیارے نبیؐ جن سے ہم عشق کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی زبان عربی تھی اور تیسری وجہ یہ کہ جنت کی زبان عربی ہوگی۔ ہمارے یہاں اکثر نوجوان کسی عرب ملک میں جانے کی تگ و دو کرتے ہیں کچھ کا تقرر ہو بھی جاتا ہے تو وہ عربی زبان کی کلاسوں میں شرکت کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ہمیں بھی اگر قرآن سے، اپنے نبی مہربان سے اور جنت سے محبت ہے تو ہمیں خود بھی اور اپنے بچوں کو عربی زبان سیکھنا اور سکھانا چاہیے۔ ویسے بھی عربی زبان میں اسلامی لٹریچر کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ دوہزار سال گزرجانے کے باوجود عربی زبان کے اسٹرکچر میں کوئی فرق نہیں آیا ورنہ دنیا کی دیگر زبانیں ایک ہزار سال میں بدل جاتی ہیں یا ختم ہوجاتی ہیں۔ چونکہ قرآن مجید و فرقان حمید کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہوا ہے اور اسی لیے عربی زبان پر قدرت کا یہ احسان ہے کہ اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں آیا۔ آپ پانچ سو سال پرانا کوئی قرآن اٹھالیں اور آج کے دور کا پرنٹ کیا ہوا کوئی قرآن لے لیں آپ کو اس میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔ عربی زبا ن کے کچھ ضمنی فوائد بھی ہیں، جو لوگوں کو ملتے رہتے ہیں۔ ضمنی فوائد کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ ہے۔

ہمارے ایک دوست کا چھوٹا بھائی تھا جس کی عمر 14سال ہوگی۔ وہ ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں بطور ہیلپر لگ گیا اس بچے کو میں نے بھی دیکھا ہوا تھا اچھا خوش اخلاق اور ادب احترام والا تھا اور کسی برے فعل میں بھی نہیں تھا۔ ہوٹل میں کچھ لوگوں سے اس کا رابطہ ہوا انہوں نے کہا ہماری ایک کمپنی ہے جو لوگوں کو باہر بھیجتی ہے، تم باہر جانا چاہو گے، سہانے مستقبل کے شوق میں وہ فوراً تیار ہوگیا اسی گروپ نے اس کا پاسپورٹ بنوایا اور سعودی عرب کا ٹکٹ بنوا کر اسے روانہ کرتے وقت کہا کہ جدہ ائر پورٹ پر کمپنی کے کچھ لوگ آئیں گے جو تمہاری ملازمت کا انتظام کریں گے اور یہ ایک کیرم بورڈ ہے ان کو دے دینا۔ کراچی ائر پورٹ سے ضروری کارروائی کرکے اسے جہاز پر سوار کروادیا جدہ ائر پورٹ پر اس کے سامان کی چیکنگ ہوئی تو معلوم ہوا کہ کیرم بورڈ کے چاروں طرف کی لکڑی میں چرس بھری ہوئی اس زمانے میں ہیروئن متعارف نہیں ہوئی تھی اس کو گرفتار کرلیا گیا عدالت میں مقدمہ چلا اس جرم میں تو وہاں سزائے موت ہوتی ہے لیکن کم عمری کی وجہ سے اسے 14سال کی سزا ہوئی۔

جیل میں اس نے عربی زبان لکھنا پڑھنا سیکھی یہاں اس کے گھر والے بہت پریشان ہوئے اس کے بڑے بھائی جو میرے دوست تھے میرے پاس آئے کہ جماعت اسلامی کے ذریعے سے کوئی مدد ہوسکے تو کچھ کروادیں اس کی جان بچ جائے میں نے کہا کہ یہ ایک غیر ملک کے قانون اور عدالت کا مسئلہ ہے ملک کے اندر کی کوئی بات ہوتی تو کچھ کیا جاسکتا تھا بہرحال دعا کیجیے۔ کچھ دن کے بعد دوست ملے تو بتایا کہ وہ تو جیل سے پیسہ بھیج رہا ہے۔ تفصیل بتائی کہ جیل میں اس کے اچھے رویے کی وجہ سے جیل حکام کا رویہ بہت نرم ہے اور یہ کہ جو کام اس سے جیل میں لیا جاتا ہے اس کی ہفتہ وار جو ادائیگی ہوتی ہے وہ جمع کرکے کچھ دن بعد گھر بھیج دیتا ہے۔ اسی طرح جیل میں جو ناخواندہ قیدی ہیں وہ اس سے اپنے گھروں کے لیے خط لکھواتے ہیں تو اس کے کچھ پیسے بھی انعام کے طور پر اس کو دیتے ہیں۔ اس کے اچھے رویے کی وجہ سے اس کی سزا کو دن رات میں الگ الگ گنا گیا اس طرح 14سال کی سزا 7سال ہوگئی کچھ اس کو جیلر کی طرف سے رعائتیں ملیں اس طرح وہ پانچ سال بعد رہا ہوگیا۔ عربی زبان کا فائدہ یہ ہوا کہ اسے وہاں جلد ہی ملازمت مل گئی۔ اب وہ وہیں رہتا ہے پاکستان آتا جاتا رہتا ہے یہ ہے عربی زبان کا ایک ضمنی فائدہ۔

اچھرہ والے واقع میں ہمیں افسوس ہے کہ ہمارے بعض آزاد خیال دانشور، بعض بائیں بازو کے صحافی حضرات اور کچھ مذہب بیزار صاحبان قلم اس سانحے کی آڑ میں اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں میں نے وہ مضامین بھی پڑھے ہیں اور سوشل میڈیا میں دکان داروں کے پولیس افسران کے اور کچھ علمائے کرام کے تاثرات دیکھنے کا موقع ملا اس سے مجموعی تاثر یہ بنتا ہوا نظر آیا کہ جہاں کچھ نادان لوگوں نے اسے ایک مذہبی جذباتی مسئلہ بنایا وہیں اس چار پانچ سو کے ہجوم میں کچھ ایسے سنجیدہ لوگ بھی تھے جنہوں نے ہجوم کے بپھرے ہوئے جذبات کو کنٹرول کرنے، ٹھنڈا کرنے اور ڈی فیوز کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا اس میں کچھ دکاندار بالخصوص وہ شوارمے والا جس نے اپنی دکان میں دونوں میاں بیوی کو چھپایا ہوا تھا، پھر مارکیٹ ایسوسی ایشن کی عہدیداران، مقامی تھانے کے ایس ایچ او، خاتون اے ایس پی اور ایس پی صاحبان کے علاوہ سب سے اہم کردار مقامی مسجد کے خطیب و پیش امام علیم الدین شاکر مفتی ثاقب اور دیگر علماء حضرات کا ہے۔ ان حضرات کو جیسے ہی اس واقع کا علم ہوا وہ سنت رسول پر عمل کرتے ہوئے اپنی ساری مصروفیات کو چھوڑ کر وہاں پہنچ گئے۔ تاریخ اسلام کا آپ نے وہ مشہور واقعہ تو سن رکھا ہوگا ایک غزوہ سے واپسی پر ایک جگہ قافلہ آرام کے لیے رک گیا۔ نبی مہربانؐ بھی اپنے خیمے میں آرام فرما رہے تھے اتنے میں پانی کے مسئلے پر ایک انصار اور مہاجر اصحاب رسول میں کچھ بحث و تکرار ہو گئی انصار صحابی نے اپنے انصاری ساتھیوں کو اور مہاجر صحابی نے مہاجر بھائیوں کو پکارا کسی نے آپؐ کے خیمے میں آکر اس کیفیت کی اطلاع دی تو آپ شدید تھکاوٹ کے باوجود فوراً اُٹھ کر گئے اور معاملے کو رفع دفع کرادیا۔ اس واقع سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمارے متعلقہ ذمہ داران کو ایسے کسی جذباتی قسم کے سانحے کی اطلاع ملے تو اسے فوراً اس جگہ پر پہنچ جانا چاہیے۔

اس واقع میں وہاں کی پولیس کی کارکردگی بھی قابل تعریف ہے بالخصوص اس خاتون پولیس آفیسر کی کہ وہ اس متاثرہ خاتون کے پاس فوری پہنچ گئیں جو پہلے ہی سے بہت خوفزدہ تھی اس پولیس والی کو دیکھ کر اس کی کچھ جان میں جان آئی۔ اس خاتون نے بعد میں یہ بیان دیا کہ اگر پولیس بروقت نہ آتی پانچ منٹ کی بھی تاخیر ہوتی تو مجھے تو لوگ شاید مار ہی دیتے۔ باہر مولانا شاکر، مفتی ثاقب، مارکیٹ کے عہدیداران اور پولیس افسران بپھرے ہوئے جذباتی ہجوم کو کول ڈاؤن کرنے کی کوشش کررہے تھے۔ پولیس آفیسر نے یہ اچھا فیصلہ کیا کہ اس خاتون کو ایک عبایہ پہنایا عربی رسم الخط میں لکھے ہوئے لباس کو اچھی طرح چھپا دیا اور چہرے کو اچھی طرح سے چھپاکر مجمع کے درمیان سے لے کر گئیں اور دوسرا فیصلہ یہ اچھا کیا کو شوہر کو ساتھ میں نہیں لیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجمع کے لوگ اس پر اپنا غصہ نکالنا شروع کردیں انہوں نے اپنے ایس ایچ او کو وہیں دکان میں چھوڑدیا کہ پندرہ منٹ بعد جب مجمع کچھ چھٹ جائے تو اس کو دوسرے دروازے سے لے کر تھانے لے آنا پھر ایسا ہی ہوا۔ تھانے میں علمائے کرام نے کپڑا دیکھا اور کہا کہ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ اس کی ایف آئی آر کٹوائی جائے بعد میں مولانا شاکر کہتے ہیں کہ میں نے خود اس متاثرہ خاتون سے پورے مجمع کی طرف سے معذرت کی۔ اس میں دو باتیں بڑی افسوسناک ہے جس کا پروپیگنڈہ کیا جارہاہے کہ خاتون سے معافی منگوائی گئی دکانداروں نے اور پولیس نے انکار کیا ہے کہ ہم نے معافی کے لیے نہیں کہا اصل میں ہوتا یہ ہے کہ ایسی ناگہانی مصیبت میں کوئی بھی پھنس جائے تو وہ از خود معافی مانگنے لگتا ہے یہی اس خاتون نے بھی کیا دوسری بات یہ کہ جب خاتون کے خلاف ایف آئی آر نہیں کاٹی گئی تو بعد میں اس واقع کی نامعلوم افراد کے خلاف بھی ایف آئی نہیں کٹنا چاہیے تھی اور تیسری بات یہ کہ اس خاتون پولیس آفیسر نے جس جرأت بہادری کا مظاہرہ کیا، ایوارڈ دیا گیا آرمی چیف نے بھی بلاکر انعام اور شاباشی دی سعودی سفارتخانے نے شاہی پروٹوکول کے ساتھ عمرے کا اہتمام کیا یہ سب ٹھیک ہے ایسا ہی ہونا چاہیے تھا لیکن اس دکاندار کو بھی تو کچھ انعام دینا چاہیے جس نے اپنی جان اور مال خطرے میں ڈال کر ایک گھنٹے سے زیادہ اس خاتون اور اس کے شوہر کو اپنی دکان میں پناہ دیے رکھی پھر کچھ تعریفی خطوط دیگر پولیس افسران،مارکیٹ کے عہدیداران، علماء حضرات بالخصوص علیم الدین شاکر اور مجمع میں دیگر ان سنجیدہ لوگوں کو حکومت کی طرف سے کوئی ستائشی سرٹیفکیٹ ملنے چاہیے جنہوں مجمع کو کنٹرول کرکے رکھا۔