رویوں کا دستور

345

انسانی تمدن کی بنیاد جس قانون پر قائم ہے اس کی سب سے پہلی دفعہ یہ ہے کہ انسان کی جان اور اس کا خون محترم ہے‘ انسان کے تمدنی حقوق میں سب سے پہلا اور بڑا حق اس کے زندہ رہنے کا حق ہے‘ اس کے تمدنی فرائض میں پہلا اور اولین فرض زندہ رہنے دینے کا فرض ہے۔ دنیا کی جتنی بھی شریعتیں اور مہذب قوانین ہیں ان سب میں احترام نفس کا یہ اخلاقی اصول موجود ہے۔ ہمارے ملک کا آئین بھی یہی کہتا ہے اور یہی درس دیتا ہے اس کی تمہید دیکھ لیں، پڑھ لیں اس میں بھی یہی ضمانت دی گئی ہے‘ لیکن یہ اس بات کا عملی مظاہرہ ہم اپنے معاشرے میں دیکھ پاتے ہیں؟ ہر نہتہ آدمی ہمارے اس معاشرے میں پریشان ہے‘ آئین کہتا ہے کہ کسی بھی شہری کا استحصال نہیں ہوگا‘ کیا یہ منظر ہم اپنے معاشرے میں دیکھ پاتے ہیں؟ ہمارے معاشرے میں بہت کم انسان ملتے ہیں جو معاشرے میں، حکومت میں بااختیار ہیں اور ان کے ہاتھوں کسی کا استحصال نہیں ہوا ہے‘ ایسے خوش نصیب بہت کم ملتے ہیں۔

آئین کہتا ہے ہماری ریاست کے تین ستون ہیں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ… پارلیمنٹ میں قانون سازی ہوتی ہے‘ انتظامیہ قانون سازی پر عمل درآمد کرانے کی ذمہ دار ہے اور عدلیہ آئین اور قانون کے مطابق اور جج عدلتوں میں اللہ کے نائب بن کر عدل کے ساتھ فیصلہ دینے کے پابند ہیں۔ جسٹس منیر سے لے آج تک کتنے ایسے فیصلے ہیں جو اس معیار پر پورا اترتے ہوں‘ دنیا پناہ مانگتی ہے اور لوگ دعائیں دیتے ہیں کہ یا اللہ کسی کو کورٹ کچہری کی ہوا نہ لگے‘ اگر ملک میں عدل کا نظام قائم ہو تو کیا کوئی پولیس اور کچہری سے خوف کھائے؟ پچھلے ہفتے ہی ملک کی 16 ویں قومی اسمبلی وجود میں آئی ارکان اسمبلی نے حلف لیا اور یہ اسمبلی اب عوام کی خواہش کے مطابق کام کرے گی‘ عوام کی خواہش کیا ہے؟

عزت اور آبرو کے ساتھ زندگی اور دو وقت کی روٹی‘ اس سے زیادہ اور کیا خواہش ہے؟ کتنی اسمبلیاں آئیں اور گزر گئیں‘ کوئی اپنی مدت مکمل کرنے میں کامیاب ہوئیں اور کوئی وقت سے پہلے مسل دی گئیں‘ عوام نے ایک بار پھرعزت اور آبرو کے ساتھ زندگی اور دو وقت کی روٹی کے لیے اسمبلی منتخب کی ہے اور خوہش مند ہیں کہ یہ اسمبلی اپنی آئینی مدت پوری کرے، ملک کو ترقی دے، وطن میںخوشحالی لائے، اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے اور انتظامیہ کا عدل کے ساتھ، قانون اور آئین کے مطابق محاسبہ بھی کرتی رہے تاکہ ملک میں عدل کا نظام قائم ہو اور ہر ایک شہری کو میرٹ پر روزگار بھی ملے اور زندگی گزارنے کا با عزت موقع بھی۔ یہ اسمبلی کوئی ایسا کام کرجائے جس کے نتیجے میں ملک سے باہر جانے والی تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کھیپ جو بیرون ملک جا بسی ہے وہ اپنے ملک میں واپس آجائے اور یہاں ترقی اور خوشحالی میں اپنا حصہ ڈالے‘ یہ کام کیسے اور کس کے ہاتھوں ہوگا؟

76سال ہوگئے ہیں اور ہم ایک ایسے پاکستان کو تلاش کر رہے ہیں جس کا خواب ہمارے اقبال اور جناح نے دیکھا تھا‘ اگر ہماری عدلیہ ہی اقبال اور جناح کے خواب کی تکمیل کا عہد کرلیتی تو آج ہماری مقننہ اور انتظامیہ بھی اوج ثریا کو چھو رہی ہوتیں۔ اصل سوال ہمارے رویوں میں چھپا ہوا ہے کہ ہم صرف میں میں کی بحث سے باہر ہی نہیں نکل رہے‘ ہر شہری یہ چاہتا ہے کہ اسے اس کا حق مل جائے مگر بطور شہری اس کا فرض کیا ہے اسے ادا کرنے اور سمجھنے کو تیار نہیں‘ یہی وجہ ہے کہ ہماری مساجد میں جمعہ اور عید کی نماز بندوق کے سائے میں ادا ہورہی ہیں اور ہماری پارلیمنٹ پر بھی یہی سائے ہیں‘ ہماری حکومتیں اپوزیشن کو دبانے میں لگی رہتی ہیں اور اپوزیشن غیبی امداد کے سہارے کے بغیر اسمبلی میں عدم اعتماد تحریک جیسے آئینی حق کو بھی استعمال کرنے سے قاصر ہے‘ ایک عرصہ ہوگیا ہے ہم اسمبلی میں ایک رویہ دیکھ رہے ہیں‘ مار پیٹ بھی دیکھ رہے ہیں‘ یہاں اب بینرز لہرائے جاتے ہیں‘ مہمانوں کی گیلریوں سے نعرے بازی ہوتی ہے‘ حتیٰ کہ ایسے کتبے لائے جاتے ہیں جن پر سیاسی نعرے لکھے ہوتے یا القاب‘ یہ سارے کام پارلیمنٹ سے باہر کرنے کے ہیں‘ ہمارا دستور کہتا ہے اور مکمل ضمانت بھی دیتا ہے کہ پارلیمنٹ میں ہر رکن آئین میں دی گئی حد میں رہتے ہوئے اظہار رائے کی مکمل آزادی کے ساتھ اظہار خیال کرے گا اور یہاں صرف قانون سازی ہوگی اور ہونی چاہیے‘ لیکن لگ یہ رہا کہ یہ اسمبلی فارم 45 اور فارم47 کی بحث میں ہی الجھی رہے گی‘ یہ سب کچھ انتخابی ٹربیونل میں طے ہونے والی باتیں ہیں‘ جس روز اسمبلی کا پہلا افتتاحی اجلاس ہوا‘ وہ منظر بھی دیکھنے والا تھا‘ پارلیمنٹ ہائوس پر پولیس کے لمبے لمبے سائے تھے‘ خاردار تاروں نے نومنتخب ارکان اور مہمانوں کا استقبال کیا‘ ان سب انتظامات کا مقصد اور مجبوری دونوں ہی سمجھ میں آرہی تھی‘ کاش ہمارے ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی قائم ہو جائے کہ ہر کسی کو اس کا حق کسی سفارش کے بغیر مل جائے اور ہر شہری خود اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے ذمہ دار بن جائے‘ کاش ہماری ذاتی اور قومی زندگی میں ایسا دن آجائے۔ ہمارے پاس دستور بھی موجود ہے‘ قانون بھی ہے مگر اس کے مطابق ہمارے رویے ان کے تابع نہیں ہیں۔