عقل و دل؍ علامہ اقبال

247

ہوں مفسر کتابِ ہستی کی
مظہرِ شانِ کبریا ہوں میں

معانی: کتابِ ہستی: مراد زندگی کی کتاب۔ مظہر: ظاہر ہونے کی جگہ۔ شانِ کبریا: خدا کی شان، عظمت۔
مطلب: اگر زندگی کو ایک صحیفہ تصور کر لیا جائے تو یہ جان لے کہ میں اس کی تفسیر کی اہلیت رکھتی ہوں۔ یہی نہیں بلکہ شان خداوندی کا اظہار بھی میرے ہی دم سے ہوتا ہے۔

بوند اک خون کی ہے تو لیکن
غیرتِ لعلِ بے بہا ہوں میں
معانی: لعلِ بے بہا: بہت قیمتی لعل۔

مطلب: تیری حیثیت تو اے دل بس اتنی ہی ہے کہ تو خون کی ایک بوند کی مانند ہے جب کہ میرا وجود ایک نایاب لعل کی طرح سے ہے جس کی قیمت کوئی ادا نہیں کر سکتا۔

دل نے سن کر کہا، یہ سب سچ ہے
پر مجھے بھی تو دیکھ کیا ہوں میں

مطلب: عقل کی زبان سے یہ الفاظ سن کر دل نے جواب میں کہا، تو نے جو کچھ کہا ہے بے شک درست ہے لیکن تو نے میری حقیقت کو جاننے کی بھی کوشش نہیں کی نہ ہی اس امر کا تجزیہ کر سکی کہ فی الواقع میں کیا شے ہوں۔

رازِ ہستی کو تو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں

مطلب: مانا کہ زندگی کے اسرار کا تجھ کو ادراک ہے لیکن یہ نہ بھول کہ میں تو ان کو خود اپنی آنکھوں کی بصیرت سے دیکھنے کا اہل ہوں۔

علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے
تو خدا جو، خدا نما ہوں میں

معانی: خدا جو: خدا کو تلاش کرنے والی۔ خدا نما: خدا کا پتا بتانے والا۔

مطلب: تیرا واسطہ تو محض ظاہری اشیا سے ہے جب کہ میں داخلی سطح پر ہر شے کے باطن سے شناسا رہتا ہوں۔ اس حقیقت کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ تیرا دائرہ کار علم ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ کائنات کے جملہ اسرار کی پہچان کا منبع میں ہوں۔ خدا کو شناخت کرنے کا عمل بھی تیری بجائے میری وجود سے وابستہ ہے۔

علم کی انتہا ہے بے تابی
اس مرض کی مگر دوا ہوں میں

معانی: مرض: بیماری، مراد حقیقت مطلقہ تک پہنچ نہ ہونا۔

مطلب: اے عقل! یہ بھی جان لے کہ علم جب اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو اس کا رد عمل اضطراب اور بے چینی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے لیکن یہ تو محض ایک عارضہ ہے۔ چنانچہ میری ذات ہی اس مرض کے لیے مسیحا کی حیثیت رکھتی ہے۔