تم ہی غالب رہو گے

350

1970 کے الیکشن میں جماعت اسلامی کی قومی اسمبلی میں چار نشستیں آئی تھیں پورے ایک سال بھر پور انتخابی مہم چلائی گئی تھی اور یہ مہم اتنی موثر اور جاندار تھی کہ اس نے ملک کے ہر طبقوں کو متاثر کیا۔ پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ افراد کی بہت بڑی تعداد نے نہ صرف جماعت اسلامی کو ووٹ دیا بلکہ ان ہی تعلیم یافتہ لوگوں کی معقول تعداد جماعت اسلامی کی تنظیم میں شامل ہوئی یہ وہ لوگ تھے جو دینی ذہن رکھنے کے ساتھ اس بات کے متمنی بھی تھے پاکستان میں اسلامی نظام کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ان میں سے کچھ افراد وہ تھے جو مختلف سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ سے نکل کر جماعت میں شامل ہوگئے تھے۔ اس انتخاب کے نتائج کو تسلیم نہ کرنے کے نتیجے میں ملک دو حصوں تقسیم ہو گیا بچے کھچے پاکستان میں بھٹو صاحب وزیر اعظم ہو گئے اتنی بڑی شکست کے باوجود جماعت نے اپنے آپ کو منظم کیا اور نئے عزم کے ساتھ کام کا آغاز کیا بھٹو دور میں ہم نے دیکھا کہ جماعت اسلامی کے اثرات طلبہ مزدور، صحافیوں اور دانشوروں میں بہت تیزی سے پھیلنا شروع ہوگئے پاکستان کی تمام جامعات اور تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ ہر سال کامیاب ہوتی، جماعت سے وابستہ مزدوروں کی تنظیم نیشنل لیبر فیڈریشن تھی جس میں ملک کے بڑے اداروں جیسے پی آئی اے، واپڈا، شپ یارڈ اور ریلوے میں این ایل ایف سے منسلک یونینیں کامیاب ہوتی رہیں اسی طرح جسارت کے توسط سے صحافیوں کے اندر بھی دینی شعور رکھنے والے لوگ منظم ہوتے رہے، جماعت نے ادیبوں اور شاعروں کو ایک پلیٹ فارم مجتمع کر کے ادارہ تعمیر ادب کے نام سے تنظیم قائم کی جس نے ملک میں کئی بڑے مشاعرے منعقد کروائے۔ اس تفصیل میں جانے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ الیکشن میں بظاہر تو ہم ہار گئے تھے لیکن اس انتخابی مہم کی وجہ سے اتنے بڑے پیمانے پر عوام سے رابطہ ہوا کہ ایک بہت بڑی افرادی قوت جماعت اسلامی کے اندر جذب ہوئی کہ ویسے تو پورے ملک میں لیکن بالخصوص کراچی میں جماعت کی تنظیم مضبوط بھی ہوئی اور اس نے وسعت بھی اختیار کی۔ اس الیکشن کے نتیجے میں جماعت کو افراد ملتے گئے تو برادر تنظیمیں بھی مضبوط ہوتی گئیں جب جماعت وسعت پذیر ہوتی ہے تو عوام میں سے ہر طرح کے لوگ جماعت کے قریب آتے ہیں ان کی تربیت کرنا اور نظریاتی اعتبار سے اپنے ساتھ جوڑے رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے پھر اس طرح جو لوگ براہ راست جماعت کے نظم میں ایڈجسٹ نہیں ہو پاتے انہیں برادر تنظیموں سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ اس طرح 1970 کے الیکشن کے نتیجے میں جماعت گھروں کی بیٹھکوں اور ڈرائنگ روموں سے نکل کر ہوٹلوں چوپالوں اور عوامی بیٹھکوں میں موضوع گفتگو بننے والی جماعت بن گئی۔

اس زمانے کے معروف صحافی اور دانشور آغا شورش کاشمیری جو چٹان رسالہ نکالتے تھے، اسی طرح مولانا کوثر نیازی جو پہلے کبھی جماعت اسلامی میں ہوتے تھے پھر جماعت کو خیرباد کہہ کر وہ پیپلزپارٹی میں شامل ہو گئے وہ شہاب کے نام سے رسالہ نکالتے تھے، ان دونوں حضرات کے درمیان اس زمانے میں بڑی لفظی جنگ ہوتی تھی آغا شورش کاشمیری اپنے رسالے چٹان میں کوثر نیازی کے خلاف کچھ لکھتے تھے تو مولانا کوثر نیازی اپنے رسالے شہاب میں خوب اپنے دل کی بھڑاس نکالتے کچھ چیزیں جملہ معترضہ کے طور آگئیں۔ ایکشن کے مایوس کن نتائج کے بعد آغا شورش کاشمیری نے مولانا مودودی کو ایک خط لکھا اور مولانا نے اس کا جواب بھی دیا تھا میں نے یہ دونوں خطوط پڑھ رکھے ہیں لیکن 50برس سے زیادہ پرانی بات ہو گئی اس لیے اس تحریر کی تفصیل تو یاد نہیں لیکن اس کے کچھ اہم نکات ذہن میں ہیں جو میں اپنے الفاظ میں لکھنے کی کوشش کررہا ہوں، آغا شورش کاشمیری نے لکھا کہ ہم نے اتنی محنت کی تمام باشندگان پاکستان تک اپنا پیغام پہنچایا لیکن پھر بھی ہم ناکام ہو گئے اب کیا ہوگا کیسے اسلامی انقلاب آئے گا؟ مولانا کے جواب کا مرکزی نکتہ یہ تھا ایک لاکھ سے زائد انبیاء نے اپنی اپنی امتوں اور قوموں کو اللہ کی بندگی کی طرف بلایا سیدنا نوحؑ نے تو ساڑھے نو سو سال تک اپنی امت کو دعوت دی کہ بتوں کی پوجا چھوڑ کر ایک اللہ کی بندگی کے دائرے میں آجائو لیکن قوم نے ان کی دعوت کو ٹھکرا دیا تو کیا ہم کہیں گے انبیاء اپنے مشن میں ناکام ہو گئے۔ نہیں۔۔ ہم کہیں گے کہ انبیاء تو اپنے مشن میں کامیاب رہے بلکہ وہ قومیں اور امتیں ناکام ہو گئیں جنہوں نے اپنے انبیاء کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔

سیدنا نوحؑ کی ساڑھ نو سو سال عمر، ان کا معجزہ تھا یعنی جس طرح ہر نبی کو کچھ معجزات دیے گئے سیدنا نوح کا معجزہ ان کی اتنی طویل عمر ہے ورنہ تو اس زمانے میں عام طور عمریں 200 سال 250 سال ہوتی تھی یا زیادہ سے زیادہ 300 سال ہوتی جیسے کہ آج کل اوسط عمر 60 یا 70 سال ہوتی ہے اس طرح سیدنا نوحؑ نے اپنی زندگی میں تین نسلوں کو اللہ کا پیغام پہنچایا تین سو سال میں ایک نسل ختم ہوئی تو دوسری نسل 600 سال تک چلتی اور پھر تیسری نسل اگلے 900 سال تک چلتی سیدنا نوحؑ جب اپنی قوم کو دین کی دعوت دیتے تو ان کی قوم کے لوگ ان پر اتنا تشدد کرتے کہ وہ بے ہوش ہوجاتے پھر جب ہوش میں آتے تو اپنی قوم کے حق میں دعا کرتے کہ: اے اللہ ان کو سمجھ اور شعور عطا فرما کہ تیرے دین کی طرف آجائیں۔ سیدنا نوحؑ کی دعوت کو ان کی قوم کی طرف سے ٹھکرانے کی یہ داستان دس بیس برس یا سو دو سو برس کی نہیں بلکہ 900 برس کی ہے۔ جماعت اسلامی بنیادی طور پر ایک علمی اور دینی تحریک ہے اس کا بنیادی کام اللہ کے بندوں کو اللہ کے دین کی طرف بلانا ہے۔ اب اس دعوتی کام کے کئی طریقے ہیں انفرادی طور سے بھی فرد سے رابطہ کرکے دعوت دی جاتی درس قرآن، اجتماع عام، جلسہ عام اور خدمت خلق کے تمام کام عام لوگوں سے رابطہ کرکے ان تک دعوت دین پہنچانے کے ذرائع ہیں اسی میں ایک راستہ انتخاب کا ہے انتخاب میں ایک ماحول بنتا ہے عام لوگوں تک پہنچ کر اپنی بات کہنے میں آسانی ہوتی ہے اب نتیجہ کچھ بھی ہو چاہے ہار ہو یا جیت ہماری بات تو عام لوگوں تک پہنچ جاتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ انتخاب جن میں پوری انتخابی مہم چلانے کی آزادی ملی عوام میں سے بہت بڑی تعداد جماعت کے قریب آئی۔ 1970 کے انتخاب کے ما بعد اثرات کی تفصیل ہم بتا چکے پھر اس انتخاب میں جماعت کے جو چار ارکان کامیاب ہوئے ان کی پارلیمانی کارکردگی کے الگ چیپٹر ہے دستور سازی کا مرحلہ ہو ختم نبوت کا مرحلہ ہو تمام مراحل میں جماعت کے ارکان کی کارکردگی سب سے زیادہ نمایاں رہیں۔ دوسرا انتخاب 1977 میں ہوا جماعت نے پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا پھر دوبارہ انتخاب کے لیے بھرپور تحریک کا حصہ بنی بعد میں یہ تحریک۔ تحریک نظام مصطفی میں تبدیل ہوگئی اس کے نتیجے میں بھی عوام کی ایک بڑی تعداد جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئی اس انتخاب میں 1970 کی طرح دیگر جماعتوں بالخصوص جمعیت علمائے پاکستان سے لوگ جماعت اسلامی میں شامل ہوئے پھر اس کا ایک اثریہ بھی ہوا کہ بعد کے ادوار میں جتنے بلدیاتی انتخابات ہوئے ان میں جماعت اسلامی کامیاب ہوئی کراچی میں 2ٹرم کراچی کی بلدیہ جماعت اسلامی کے پاس رہی۔

اب ہم موجودہ انتخاب کی بات کرتے ہیں پوری دنیا جانتی ہے کہ پچھلے پانچ برسوں سے کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے کراچی کے سلگتے ہوئے مسائل کو ایڈریس کیا ہے اس کی تفصیل ایک کالم میں نہیں آسکتی بس انہوں نہ دن دیکھا نہ رات وہ اس وقت اہل کراچی کی توانا آواز بن چکے ہیں وہ اپنی ذات میں تو مرجع خلائق ہیں ہی لیکن انہوں نے جماعت کے تمام کارکنان کو مرجع خلائق بنادیا یہی وجہ ہے کہ اہل کراچی نے پچھلے سال ہونے والے بلدیاتی انتخاب میں ان کی ٹیم یعنی جماعت اسلامی کے لوگوں کی بہت بڑی تعداد کو کونسلرز یو سی اور ٹائون چیئر مینوں کی حیثیت سے کامیاب کرایا۔ ملک کے اہل الرائے اور اصحاب الرائے لوگ جانتے ہیں کہ اگر دھاندلی سے کام نہ لیا جاتا تو کراچی میں جماعت اسلامی کا میئر بھی بن جاتا۔ ہم نے اپنی زندگی میں کئی انتخابی مہمات چلائی ہیں دہشت گردی کے دور بھی دیکھے ہیں تمام مشکلات کو انگیز کیا ہے لیکن موجودہ انتخابی مہم اتنی شاندار اور توقعات سے بھرپور تھی کہ ہر فرد یہ سمجھ رہا تھا کہ اس دفعہ جماعت ہی کامیاب ہوگی لیکن جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے اس لیے جماعت اسلامی تو فاتح ہے جس نے لوگوں کی رائے ہی نہیں ان کے دل بھی جیتے ہیں۔