غزہ، رفح میں امریکا برطانیہ کی بغل دبی چھریاں

409

صدر جو بائیڈن نے اپنے اسرائیل کے پہلے دورے پر بڑے واضح اور دو ٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ ’میں یہودی نہیں، مگر صہیونی ہوں‘۔ لیکن حقیقت یہ ہے 7اکتوبر 2023ء سے ان کی جانب سے اسرائیل کی حمایت اور معصوم فلسطینیوں کے قتل عام میں امریکا کے حصے نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ صدر جو بائیڈن، امریکی سیکرٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن جو ایک یہودی ہیں سے بھی بڑے یہودی ہیں اس لیے کہ امریکی سیکرٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن بھی اب اسرائیل کو یہی مشورہ دے رہے ہیں حماس سے جنگ بند کر کے ’’دو قومی ریاست‘‘ کے لیے مذکرات لیے جائیں۔ بائیڈن اب آئندہ چند دنوں میں امریکی کی مکمل افواج کو اسرائیل میں اُتارنے والے ہیںجس کے لیے 15فروری 2024ء کو برسلز میں ہو نے والے ’’ناٹو‘‘ اجلاس میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ اس سے قبل ہی اسرائیل نے شمالی لبنان پر شدید بمباری شروع کر دی ہے۔ دوسری جانب شام ایران نے بھی جنگ کے لیے تیاری مکمل کر لی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیل جبالیہ، شجاعیہ، خان یونس اور اب رفح پر اس جنگی یلغار کے بعد اس منہ کو لگے خون کے ساتھ اسرائیل آگے کس سمت میں رخ کرے گا۔ 13فروری 2024ء کو رفح میں اسرائیلی بمباری کے باعث بے گھر افراد کی شہادتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

پانچ ماہ سے جاری غزہ جنگ میں اب تک شہیدوں کی تعداد 28ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس جنگ میں غزہ کے بہت سے مظاہر اور مناظر اب سامنے نہیں ہیں اور یہ سب ملبے کے ڈھیروں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ گویا غزہ کی شناخت کے بعض حوالے اب وہ نہیں ہیں جو اس جنگ سے قبل تھے۔ تباہی کے ان مناظر میں کچھ نئے علاقے سامنے آ رہے ہیں۔ جن کی وجہ سے نئے نئے خدشات بھی جنم لے رہے ہیں۔ ایک خطرہ جاری جنگی واقعات کے پیش منظر کے طور پر رفح میں وجود میں آ رہا ہے، مگر اس کے بعد کے تہہ در تہہ امکانی خدشات پر ابھی بہت کم لوگوں کی توجہ دے رہے ہیں۔ شہید فلسطینی شہری جان سے چلے گئے ہیں۔ ان میں غالب اکثریت فلسطینی خواتین اور بچوں کی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک جان سے جانے والے 28 ہزار فلسطینیوں میں سے 60 سے 70 فی صد بچے اور خواتین ہیں۔ یہ ایک کربناک منظر ہے۔ لیکن دنیا اور عالم اسلام کی آنکھوں پر پٹی بندی ہو ئی ہے۔ عام لوگوں میں صاحبِ دل اور صاحبِ اولاد انسان شاید ہی ایسا ہو جو اتنی بڑی تعداد میں فلسطینی بچوں اور عورتوں کی لاشوں پر تڑپ نہ جاتا ہو لیکن عالم اسلام کے حکمران اپنے خسارے اور منافع سے باہر نہیں آرہے۔

تقریباً 70 ہزار فلسطینی زخمیوں کے تڑپنے اور ان میں سے کئی کے جان کنی کے واقعات بھی اسی تکلیف دہ ماحول کا حصہ ہیں مگر اسرائیل اور اس کی فوج ہے کہ اس کے منہ کو 1967 میں عربوں کا جو خون لگا تھا، اب بھی وہ اسی نشے میں دھت نظر آرہے ہیں۔ اسی خون کے نشے کے نتیجے میں اسرائیلی فوج نے اب تک 23 لاکھ کے لگ بھگ فلسطینیوں کو بے گھر کر کے نقل مکانی پر مجبور کر دیا اور انہیں شمالی و وسطی غزہ سے جنوبی غزہ اور پھر جنوبی غزہ سے انتہائی جنوب میں واقع سرحدی شہر رفح میں دھکیل رہا ہے۔ ان بے گھر فلسطینیوں میں سے اب تک 13 لاکھ کے قریب رفح میں ہیں جہاں وہ بے بسی، کسمپرسی اور بے یارو مددگار زندگی گزارنے پر مجبور ہیں لیکن اسرائیل اور اسرائیلی فوج کو ابھی اطمینان قلب نہیں مل سکا ہے۔ اگلا ہدف ان بے گھر 13 لاکھ فلسطینیوں کو رفح سے بھی آگے مصر کی طرف دھکیلنا ہے تاکہ فلسطینیوں سے خالی غزہ کا منصوبہ، جسے اسرائیل حماس کا صفایا کرنے کی آڑ میں آگے بڑھاتا رہا ہے، اب بھی یہی کوشش کر رہا ہے اس غیر متوقع کھلی اور اندھی حمایت کے وجہ سے جو بائیڈن کو امریکا کے اندر اور باہر تنقید اور مذمت کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ صرف یہی نہیں، آنے والے صدارتی انتخاب میں ابتدائی طور پر انہیں حمایت کے حصول میں بھی نئی مشکلات سامنے آ رہی ہیں، لیکن اسرائیل کے ساتھ امریکا اور صدرِ امریکا کی وفاداری دنیا کے بلند ترین درجے میں ہے۔

پہلے شمالی غزہ، پھر وسطی غزہ بعد ازاں جنوبی غزہ اور اب رفح پر اسرائیلی فوج اپنے دانت گاڑنے کے ’قابل بھروسا منصوبے‘ کے ساتھ تیاری میں ہے۔ صدر جو بائیڈن نے بھی جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے، غیر رسمی اجازت دے دی ہے کہ رفح پر حملہ کرنا ہے تو ’قابل بھروسا منصوبے‘ کے ساتھ کیا جائے۔ گویا جنگی منصوبے میں کوئی کمی یا کمزوری نہیں رہنی چاہیے، غزہ میں پچھلے چار ماہ کے دوران بھی امریکا کی اسٹرٹیجک سپورٹ اسی نکتے پر مرکوز رہی ہے کہ اسرائیل زیادہ نتائج حاصل کرنے والی زیادہ مؤثر حکمت عملی اپنائے۔

رفح میں آنے والے فلسطینیوں کو مصر کی سرحدوں کے اندر صحرائے سینا میں دھکیلنا اسرائیل کا دیرینہ خواب ہے۔ اس کی غیر رسمی انداز میں امریکی صدر جو بائیڈن نے منظوری بھی دے دی ہے۔ بائیڈن نے پہلا دورہ اسرائیلی اور یہودی محبتوں کے ساتھ کیا تھا۔ اس سے یہ اندازہ ہونے لگا تھا کہ جو بائیڈن ڈیموکریٹ صدر ہونے کے باوجود اپنے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ سے کم ثابت نہیں ہوں گے۔ یہ بات انہوں نے جاری اسرائیلی جنگ میں بھی ثابت کی ہے۔ اسرائیل کی ایسی حمایت کی امریکی عوام، ڈیموکریٹک پارٹی، ڈیموکریٹک ارکان کانگریس اور خود امریکی وائٹ ہاؤس میں بھی توقع نہیں کی جا رہی تھی۔ رہی بات شہری اموات سے گریز کا مشورہ دیتے رہنے کی، تو اس کی مثال برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون کے تازہ نرم سے انتباہ اور بہترین مشورے کی دی جا سکتی ہے۔ کیمرون نے کہا ہے کہ اسرائیل نے رفح پر حملہ کرنا ہے تو پہلے سنجیدگی سے سوچ لینا ضروری ہے۔ ڈیوڈ کیمرون اسرائیلی حمایت میں ایک خاص حوالہ بھی رکھتے ہیں۔

ڈیوڈ کیمرون کو بھی بطور سابق وزیراعظم برطانیہ ایک ایسا وزیر خارجہ بن کر اسرائیل کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں، جس طرح ایک سو سات سال قبل تھیوڈور ہرزل کو بطور سابق وزیراعظم برطانیہ، ایک وزیر خارجہ کے طور پر کلیدی کردار ادا کرنے کا موقع ملا تھا۔ گویا برطانیہ کی طرف سے بھی اسرائیل کی کامیابی تمنا صاف نظر آرہی ہے۔ برطانیہ بھی ایسے ہی ہے جس طرح غزہ میں پچھلے چار ماہ سے زائد عرصے میں منہ میں رام رام کے انداز میں اہل مغرب فلسطینی شہریوں کے لیے میٹھی میٹھی، ٹھنڈی ٹھنڈی اور بے وقت قسم کی باتیں کر کے جبکہ اسرائیل کی عملی حمایت کر کے عملاً بغل میں چھری دبائے پھرتے رہے ہیں۔ وہی انداز اب رفح پر حملے کے حوالے سے ہے اور جرمنی کی وزیر خارجہ اینا لینا بیئرباک نے بھی اسرائیل کے پانچویں دورے پر پہنچنے سے پہلے اختیار کیا ہے۔ ایک خاتون وزیر خارجہ ہونے کے ناتے ان کا پیرایہ اظہار قدرے ہمدردانہ محسوس ہوتا ہے، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات والا ہے۔ ماشا اللہ امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن کی طرح اینا لینا بیئرباک اسرائیل کا پانچواں دورہ کرنے پہنچ رہی ہیں۔ ان کے پہنچنے تک امکان ہے کہ اسرائیل اس وقت رفح کے لیے اپنے دانت مزید تیز کر چکا ہوگا کہ اس کے منہ کو لگا ہوا خون اب اسے مزید آگے بڑھنے اور مزید خون کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔