غیر اسلامی معاشی نظام اور مرکزی بینک کی کارروائیاں

453

آخری حصہ

ماڈرن مانیٹری سسٹم کے اندر یہ جو صلاحیت یا دھوکہ دہی کی صفت ہے جس کا آغاز معروف طور پر قرون وسطیٰ میں یہودی سناروں سے ہوا اور پھر یہی دھوکہ دہی کی پریکٹس پورے یورپ، امریکا اور پھر پوری دنیا میں بینک کے نام سے پھیل گئی، یہ اسی پریکٹس کا نقطۂ کمال ہے کہ مال یا کرنسی Out of no where پیدا کردیا جائے، (Money Creation) کے ذریعے سرمایہ پیدا کردیا جائے۔ موجودہ عالمی نظام میں نیا مال یا کرنسی پیدا کرنے کی قوت ہر ملک کے مرکزی بینک کی طرح اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس بھی ہے اس لیے اسٹیٹ بینک حکومت کی درخواست پر ٹریلین پر ٹریلین روپے پیدا کر سکتی ہے۔ سودی قرض پر ملک و قوم کے مستقبل کی متوقع آمدنی کا بھی سودا ہوجاتا ہے۔ اس ملعون سودی نظام میں سود کی شرح اس لیے بڑھائی جاتی ہے تاکہ روپے کی گردش(Currency in Circulation) کم کی جاسکے۔ اکانومی میں افراط زر کم ہوگا تو نظریاتی طور پر مہنگائی کم ہوگی۔ لیکن مہنگائی کم ہونے کے لیے دو چیزیں اور بھی ضروری ہیں اور وہ یہ کہ تمام صنعتیں اپنی پیداوار کم نہ کریں۔ اشیاء کی پروڈکشن کم نہ ہو ورنہ مہنگائی میں کمی واقع نہیں ہوگی۔ اب یہ ہمارے کارخانے اور مل والوں، بزنس و تجارت کرنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ پیداوار کو قائم رکھ کر خود بھی منافع کمائیں اور صارفین کو سستا مال بیچیں۔ نہ کہ پیداوار کم کرکے اسی قیمت پر اشیا، بیچتے رہیں۔ ویسے پاکستان جیسے ملک میں قیمتوں کے کم ہونے میں نیت اور ناجائز منافع خوری کے علاوہ کئی دوسرے عوامل کا صحیح سمت میں رہنا ضروری ہے۔

دوسرے حکومت اسٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر وہ حرکتیں نہ کرے جس کا تذکرہ اوپر آیا ورنہ جو افراط زر اسٹیٹ بینک کم کرنا چاہ رہا ہے وہ خود خاموشی سے حکومت کے جائز اور ناجائز اخراجات پورے کرنے کے لیے وہ اقدامات کرتا ہے جس سے افراط زر پھر بڑھ جاتا ہے۔ دو دھاری چاقو سے نہیں کئی دھاری خنجر سے عوام کی قوت خرید اور ان کی معاش کا قتل کیا جاتا ہے۔ تبھی تو عوام دشمن سارے اقدامات کرنے کے باوجود وزارت ِ خزانہ کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق کنزیومر پرائس مہنگائی (Consumer Price Inflation) نومبر 2023 میں 29.2فی صد ریکارڈ کی گئی۔ جبکہ نومبر 2022 میں یہ 23.8فی صد تھی۔ جو توقعات کے بالکل برخلاف ہے۔

یہ ہے وہ شیطانی دائرہ ہے، وہ زہر قاتل ہے جو وحی الٰہی اور اسلامی احکامات سے دوری کا نتیجہ ہے۔ یہودیوں اور انگریزوں کے نظام کو من و عن قبول کرنے کا نتیجہ ہے۔ جو عوام کے لیے ہی صرف نقصان دہ ہے۔ ایک فی صد اشرافیہ اس دجالی نظام کا فائدہ اٹھا کر پتلی گلی سے نکل جاتے ہیں اور سارا کا سارا ملبہ عوام پہ گرتا ہے۔ مہنگائی بھی برداشت کرو، سود بھی بھرو اورفلاحی سہولتوں سے بھی محروم رہو۔ دنیا اور عاقبت دونوں تباہ کرو۔ اسٹیٹ بینک کی یہ طاقت شرعی ہے کہ نہیں، اس کو سمجھنے کے لیے کوئی راکٹ سائنس درکار نہیں لیکن احقر اس پرکوئی بھی رائے دینے کا اہل نہیں۔ لیکن بغیر کسی ٹھوس آمدنی صرف روپیہ تخلیق کرکے اور سودی قرض کی اکائونٹنگ کرکے حکومت کو اخراجات کے لیے قرض دینا جس سے پتا ہو کہ روپے کی قدر میں کمی ہوگی نہ صرف شریعت میں سود کے خلاف احکامات کے خلاف ہے بلکہ قرآن کی اس آیت کے بھی خلاف ہے۔ جس میں سیدنا شعیب ؑ اپنی قوم کو اللہ کا حکم بتا رہے ہیں۔ ’’اور اے میری قوم! انصاف کے ساتھ ناپ اور تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ اللہ کا دیا ہوا جو بچ جائے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں تم پر کوئی نگہبان نہیں‘‘۔ (سورہ ھود: آیت 86)