مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور حامد میر کے انکشافات(4)

391

چوتھی قسط

ایک بڑی مشہور تصویر ہے جنرل نیازی اور جنرل جگ جیت سنگھ اروڑا ایک دستاویز پر دستخط کررہے ہیں۔ آپ کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ 1971 میں جی ایچ کیو راولپنڈی سے پاکستانی فوج کے ڈھاکہ میں جو سربراہ تھے جنرل امین عبداللہ خان نیازی ان کو سرینڈر کا حکم نہیں دیا گیا تھا ان کو صرف سیز فائر کا حکم دیا گیا تھا۔ لیکن اس نے سرینڈر کردیا۔ اس کے بہت سے شواہد موجود ہیں بریگیڈیئر صدیق سالک صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جنرل نیازی اتنا ڈرپوک آدمی تھا کہ یہ ہچکیاں لے لے کر روتا تھا گورنر مالک کے سامنے جاکر۔ اس کے علاوہ یہی بات جنرل رائو فرمان علی جو وہاں گورنر ایسٹ پاکستان کے ایڈوائزر تھے جن کی کتاب ہے How Pakistan got divided اس میں بھی یہی بات لکھی ہے لیکن اس میں انہوں نے ایک اور بھی چیز لکھی ہے جو آج کے پاکستان کے حالات ہیں ان کے حوالے سے بہت اہم ہے کہ ایسٹ پاکستان یعنی جو آج کا بنگلا دیش ہے وہاں پر جب پاکستانی فوج نے آپریشن شروع کیا تو انہوں نے اپنے پرائیویٹ قید خانے بنالیے۔ وہ لوگوں کو اٹھا لیتے تھے عدالت میں پیش نہیں کرتے تھے بلکہ انہیں خود ہی سزائیں دیتے تھے۔ اس کتاب کا ایک صفحہ ہے 223 اس پر جنرل رائو فرمان علی نے لکھا ہے

 

I had tried to save the civilians and had lodge complaints against certain access by a handful of indivieuals who possesed waste authority, The governor had no control over the army who had established their own prisons and courts. I have secured the release of Ataur Rehman, Maseeh ur Rhman, Zahoor ul Islam and number of other leaders to create any able conditions for negotiations.

 

لیکن بہت سے لوگوں کو یہ نہیں ریلیز کرواسکے ان میں بہت سے دانشور تھے اور صحافی تھے ان کو ماردیا گیا۔ یہ ایک ثبوت ہے لیکن جو جنرل نیازی ہے اس نے ان تمام دعوئوں کو مسترد کیا ہے اور اس نے اپنی ایک کتاب لکھی جو اس کا موقف ہے The Betrayal of East Pakistan یہ جنرل نیازی کی کتاب ہے جس میں انہوں نے رائو فرمان علی اور بریگیڈیئر صدیق سالک کا جو موقف ہے اس کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ یہ کتابیں جی ایچ کیو نے میرے خلاف لکھوائی ہیں جبکہ ان موصوف کو 1965 کی جنگ میں بھی ستارۂ جرأت ملا تھا اور انہیں 1971 کی جنگ جس میں انہوں نے سرینڈر کیا اس میں بھی انہیں بہت سے تمغہ ملے ہیں بشمول ہلال جرأت اور اس کے باوجو د یہ الزام لگارہے ہیں کہ ایسٹ پاکستان میں جو سرینڈر ہوا ہے اور پاکستان کو دو لخت کیا گیا ہے یہ دراصل ایک سیاسی سازش تھی اور یہ کہتے ہیں کہ اس سازش کا ذوالفقار علی بھٹو بھی شامل تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ مجھے پر جھوٹے الزامات لگائے گئے ہیں مگر ان کے ایک ماتحت تھے جنرل خادم حسین راجا صاحب کی ایک کتاب ہے A Stranger in My Own Country اس کتاب میں انہوں نے جنرل نیازی کا جو مکروہ چہرہ کو ایسے بے نقاب کیا ہے کہ ایک دن نیازی ایڈمنسٹریٹر سے کہہ رہا تھا کہ ’’میں اس حرام زادی قوم کی نسل بدل دوں گایہ مجھے کیا سمجھتے ہیں‘‘ یہ ڈھاکہ میں بنگالی افسروں کو بلا کر ان کو کہا اور یہ بھی کہا کہ مجھے اپنی گرل فرینڈز کے نمبر دو۔ تو وہاں پر ایک بنگالی افسر تھے جنرل مشتاق صاحب وہ خاموشی سے باتھ روم میں گئے۔ اور انہوں نے اپنے سروس ریوالر سے کن پٹی پر گولی مار کر خود کشی کرلی۔ یہ کردار تھا جنرل نیازی صاحب کا لیکن یہ کہتے تھے کہ میں بہت بہادر آدمی ہوں۔

میجر جنرل ابوبکر عثمان یہ بھی پاکستانی فوج نے ایک بڑے افسر ہیں انہوں نے اسپیشل سروسز گروپ کے بانی بھی ہیں انہوں نے بھی اپنی کتاب یہ لکھا ہے کہ ایک روز تین لوگ مجھ سے ملاقات کے لیے جن میں خوتین بھی تھیں کسی نے کہا کہ اس کے شوہر کو غائب کردیا گیا ہے، کسی کا باپ، کسی کا بیٹا اغواء ہوگیا تھا اور کچھ پتا نہیں تھا کہ وہ کدھر گئے ہیں تو جب انہوں نے ملٹری انٹیلی جنس کے باقی لوگوں سے شکایت کی تو کچھ بھی نہیں ہوا آج بھی پاکستان میں یہی کچھ ہورہا ہے۔ عرض صرف یہ کرنی ہے کہ یہ جو مسنگ پرسنز کا ایشو ہے یہ 1971 میں ایسٹ پاکستان میں بھی ایک بہت بڑا مسئلہ تھا لیکن اس وقت میڈیا کو اتنی آزادی نہیں تھی تو یہ منظر عام پر نہیں آتا تھا تو اس وجہ سے یہ سارا معاملہ بہت زیادہ پھیل گیا۔ اب ہوا کیا اس کے بعد بنگلا دیش بن گیا اور پاکستانی فوج کے 93 ہزار کے قریب فوجی جنگی قیدی بن گئے اور صرف ہم نے ایسٹ پاکستان کو نہیں ہارا بلکہ ویسٹ پاکستان میں بھی ہم نے ہزاروں کلو میٹر کا علاقہ انڈیا کو دے دیا، انڈیا نے اس پر قبضہ جما لیا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو صاحب پہلے بنے صدر پاکستان اور ساتھ میں وہ سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بن گئے پھر اس کے بعد وہ وزیر اعظم بن گئے تو انہوں نے انڈیا کے ساتھ بات چیت کی۔ شملہ معاہدہ کیا، اس کے بعد انہوں نے دلی معاہدہ کیا۔ اس دلی معاہدہ میں پاکستان بنگلا دیش اور انڈیا تینوں شامل تھے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کے جو جنگی قیدی ہیں ان کو آزاد کرایا جائے اور پاکستان کے ہزاروں کلو میٹر کا علاقہ ویسٹ پاکستان میں جس پر انڈیا نے قبضہ کیا تھا اس کو واگزار کرایا جائے اور اس کے بدلے میں بنگلا دیش کا مطالبہ تھا کہ آپ ہمیں تسلیم کرلیں اور اس میں یہ بھی ایک وعدہ کیا گیا کہ پاکستانی حکومت بنگلا دیش کے عوام سے معافی بھی مانگے گی کہ جو کچھ ہم نے کیا انسانی حقوق کی پامالی ہوئی اس پر ہم معافی مانگتے ہیں۔ اچھا انسانی حقوق کی پامالی تو دونوں طرف سے ہوئی تھیں لیکن پاکستان آرمی پر الزام اس لیے زیادہ آیا کہ وہ ایک ملک کی حفاظت کررہی تھی اور اس کا کام تھا غیر ملکی دشمنوں سے لڑنا لیکن اس نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف بھی لڑنا شروع کردیا حالات اس طرح کے پیدا ہوگئے اور بہاری جو فوج کا ساتھ دے رہے تھے، جماعت اسلامی کے لوگ جو فوج کا ساتھ دے رہے تھے ان کے خلاف بھی مکتی باہنی نے اور انڈین آرمی نے بہت سی اعتراضات اٹھائے لیکن اس میں ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ جو اعداد و شمار ہیں وہ متنازع ہیں ۔