پوپ فرانسس کا فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی؟

515

پوپ فرانسس کی اپیل سے تو یہی ظاہر ہورہا ہے کہ وہ مسلمانوں سے ہمدردر کا اظہار کر رہے ہیں لیکن اس میں چھپی یہودیوں سے محبت بھی صاف عیاں ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 11ستمبر 2001ء میں اُس وقت کے پاپائے روم کا بیان بھی کچھ اسی طرح کا تھا کہ طالبان کو ختم ہونا چاہیے لیکن افغانیوں کو نقصان نہیں ہونا چاہیے اور آج بھی ان کا یہی کہنا ہے غزہ میں پھیلی برائی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن عوام پر ظلم نہیں ہونا چاہیے آج سے 20برس قبل اور آج بھی یہ فارمولا ناقابل عمل ہے کہ بمباری بھی ہو اور اس سے عوام محفوظ رہیں۔ سات روزہ جنگ بندی کے بعد اسرائیل کی جانب سے ہر بمباری کے بعد یہ اعلان ہو رہا ہے حملے میں حماس ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے لیکن ہر حملے کے بعد غیر جانبدار ذارئع بتاتے ہیں درجنوں فلسطینی شہید ہو چکے۔

ویٹی کن سٹی سے جاری بیان میں پوپ فرانسس نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اسرائیل اور حماس کے مابین جلد از جلد سیزفائر ڈیل ہو جائے لیکن سوال یہی ہے کہ فرانسس اپنے ہی عقیدت مندوں امریکا، فرانس، جرمنی اور بہت حد تک برطانیہ سے بھی اسرائیل اور حماس کے مابین جلد از جلد سیزفائر ڈیل ہو جائے کی خواہش پوری نہیں کرواسکتے ہیں یا کروانا نہیں چاہتے؟ اس سلسلے میں بتانا چاہتا ہوں کہ رومن کیتھولک کلیسا کا سب سے بڑا پادری جسے یسوع مسیح کے رسول مقدس پطرس کا سلسلہ وار جانشین سمجھا جاتا ہے۔ اس کی رہائش روم کے وسط میں واقع ایک خود مختار ریاست میں ہے۔ جس کا نام ویٹی کن سٹی ہے۔ شروع میں پوپ مسیحیوں کا نہ صرف مذہبی رہنما بلکہ ان کا سیاسی حاکم اعلیٰ تصور کیا جاتا تھا اور اب یہی اختیار پاپائے روم کو دوبارہ یروشلم میں چاہیے جس کا اظہار اعلانیہ نہیں کیا جاتا لیکن حقیقت یہی ہے۔ پاپائے روم نے مزید کہا کہ غزہ میں بہت زیادہ ظلم بڑھ چکا ہے اور وہاں فوری طور پر امدادی سامان کی ترسیل کی ضرورت ہے لیکن وہ جنگ بندی کے لیے اسرائیل پر قطعی دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں کر رہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ویٹی کن سٹی کا عقیدہ یہ ہے کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا رہے وہ یسوع مسیح کی آمد کے لیے کر رہا ہے۔ جس کے بعد یروشلم عیسائوں کی حکومت ہو گی اور وہاں کا سربراہ ’’پاپائے روم‘‘ کہلائے گا۔

موجودہ حالات کی طرح 2001ء ستمبر 9/11 سانحے میں بھی یہ بات صاف نظر آرہی تھی کہ اسلامی حکومتوں کے حکمران اسلام سے محبت اور اس کے نفاذ کی جدو جُہد کے لیے کام کرنے بجائے افغانستان پر امریکا کی بمباری اور مسلمانوں کے قتل ِ عام میں اسلامی حکومتیں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش میں مصروف تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی اور ہے کہ دنیا بھر کی اسلامی حکومتیں ناپائیدار، ناکام، ضعیف اور کمزور حکومتیں ہیں جن کو امریکا نے یہ بات سمجھا دی ہے کہ وہ اگر اپنی جگہ سے جنبش بھی کرنے کی کوشش کریں گی تو ان کا وجود مکمل طور سے ختم ہو جائے گا اور ان کی پوری حکومت کو پتھروں کی دنیا میں تبدیل کر دیا جائے۔ کمزور اسلامی حکومتیں اپنے اپنے ملک کو ناپائیدار رکھنے کے لیے بہت اہم و موثر کردار ادا کر رہی ہیں۔ اس وقت بھی دنیا میں جہاںجہاں بد امنی اور گھٹن ہے اس کی وجہ ناکام اور کمزور حکومتیں ہی ہیں۔ اس کے برعکس دنیا میں جہاں مضبوط حکومتیں ہیں وہاں پائیداری اور امن و ترقی صاف نظر آتی ہے۔ پورے عالم ِ اسلام سے اس وقت غیر مسلم زیادہ فائدہ اْٹھا رہے ہیں۔ عالم اسلام میں بحران کی وجہ سے سیاسی طور پر امریکا اسلامی ممالک سے سب سے زیادہ فائدہ اْٹھا رہا ہے۔ اسلامی ممالک جن میں افغان، ایران، شام، لبنان، لیبیا، عراق میں 20برسوں امریکا کارپیٹ بمباری کر رہا ہے۔ یہی سلسلہ آج غزہ میں ہو رہا ہے۔

دنیا بھر کے حکمران اب اسرائیلی افواج کو حملہ آور کے بجائے عالمی اخبارات کے ذریعے ’’دفاعی اسرائیلی فوج‘‘ بتا رہے ہیں۔ غزہ کے جنوبی علاقوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے خان یونس سے فلسطینیوں کے انخلا کو تیز تر بنانے کا حکم دے دیا ہے۔ دریں اثناء برطانیہ اسرائیلی یرغمالیوں کی تلاش میں مدد کے لیے نگران پروازیں شروع کرے گا۔ ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے گزرے ہفتے کی رات اور اتوار کے دن غزہ میں حماس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے بہانے فلسطینیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ رائٹرز کے مطابق اسرائیلی دفاعی افواج نے اتوار کے روز بتایا کہ غزہ میں ’’دہشت گردوں کے انفرا اسٹرکچر‘‘ کو نشانہ بنانے کی خاطر جنگی جیٹ اور ہیلی کاپٹر تعینات کر دیے ہیں۔ لیکن غیر جانبدار اخبارات یہ بتا رہے ہیں کہ اسرائیل اپنی اس پالیسی پر مکمل طور سے عمل کر رہا ہے کہ ’’غزہ پر قبضے کے لیے ہر صورت وہاں سے فلسطینیوں کو بھگا دیا جائے یا ان کو دفن کر دیا جائے‘‘۔

فنانشل ٹائمزکے مطابق زمینی دستوں کے زیر کنٹرول ایک مسلح ڈرون نے حماس کے پانچ اہم ٹھکانوں کو تباہ کر دیا۔ گزشتہ روز اسرائیلی بحریہ نے بھی غزہ پر حملے کیے تھے۔ غزہ میں حماس کے زیرانتظام حکومت نے پیر اور منگل کی صبح تک مزید 340 ہلاکتوں کی اطلاع دی ہیں۔

’مارو اور رونے بھی نہ دو‘ کے مصداق امریکی نائب صدر کملا ہیرس اور وزیر دفاع لائڈ آسٹن نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی شہریوں کی ہلاکتوں کو محدود کرنے کے لیے مزید کوشش کرے۔ امریکی نائب صدر کملا ہیرس نے کہا ہے کہ غزہ میں بہت سے معصوم فلسطینی مارے جا چکے ہیں جبکہ امریکی وزیر دفاع لائڈ آسٹن کے بقول اسرائیل کی ’اخلاقی ذمے داری‘ ہے کہ وہ فلسطینی شہریوں کا تحفظ یقینی بنائے۔ لیکن وزیر دفاع لائڈ آسٹن نے یہ نہیں بتایا کہ اسرائیل 75برسوں سے کون سی ’اخلاقی ذمے داری‘ پوری کر رہا اور امریکا بھی ہر صورت اسرائیل ہی کا مدد گار بنا ہوا ہے۔ عرب نیوز کے مطابق غزہ میں حماس کے طبی ذرائع کے مطابق اسرائیل کے جوابی حملوں میں کم از کم پندرہ ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر شہری ہی تھے۔ جنگ کو پھیلنے سے روکنے لیے عالمی کوششوں کے باوجود اسرائیلی افواج نے کہا ہے کہ شامی سرزمین سے اسرائیل پر حملے کی ایک کوشش کو ناکام بنا دیا گیا ہے۔