بائیڈن شی جن پنگ ملاقات

575

بائیڈن شی جن پنگ سے ملاقات کے لیے سان فرانسسکو جانے کے لیے ائر فورس ون میں سوار ہوئے، وائٹ ہاؤس میں قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے صحافیوں کو بتایا کہ بائیڈن اور شی جن پنگ ممکنہ طور پر غزہ میں اسرائیل اور حماس کے تنازعے پر تفصیل سے بات کریں گے، اس کے علاوہ روس کے خلاف جنگ میں یوکرین کی حمایت کے لیے امریکی کوششوں، شمالی کوریا کے میزائل تجربات اور دیگر جغرافیائی سیاسی مسائل کے بارے میں بھی بات کریں گے۔ کربی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’جہاں کہیں بھی معاملات پر شدید اختلافات ہیں، یا جن امور پر ہم آنکھ سے آنکھ تک نہیں ملاتے ان سب پر بائیڈن مقابلے سے گھبرانے والے نہیں ہیں‘‘۔ اس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آرہی ہے کہ ’’بائیڈن شی جن پنگ ملاقات‘‘ میں فوری یا طویل عرصے تک چین اور امریکا کے اختلافات کا خاتمہ ممکن نہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل حماس کی جنگ کا ایک پہلو یہ بھی ہے امریکا ایشیاء میں بھارت اور مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل کو دنیا کے دیگر ممالک کے حکمرانوں کا حاکم بنانا چاہتا ہے اور یہ بات اب کہیں ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دنیا نے بھی اسرائیل حماس جنگ سے باہر نکلتے ہوئے یہ بات طے کر رکھی ہے دنیا کو صرف اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ حماس اسرائیل جنگ کو عالمی سطح پر امریکی اسٹیبلشمنٹ معاشی جنگ کے دائرے میں گھمانے کی کوشش بھی کرتی رہی ہے۔ ستمبر 2023 صدر بائیڈن نے اس سلسلے میں دہلی میں منعقدہ دنیا کی بڑی معیشتوں والے 20 ممالک کی تنظیم جی-20 کے سربراہ اجلاس کے دوران بھارت، امریکا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، یورپی یونین، اٹلی، فرانس اور جرمنی نے ’’انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور‘‘ کی تعمیر کا معاہدہ کیا ہے۔ انڈیا کو یورپ سے جوڑنے والی اس اقتصادی راہداری کے راستے میں ترکی بھی آتا ہے، لیکن اسے اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ معاہدے کے دو دن بعد ترک صدر رجب طیب اردوان نے اس منصوبے میں اپنے ملک کی عدم شمولیت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ راہداری اْن کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتی۔ اس پورے منصوبے پر چین کو اعتراض تھا لیکن اس نے براہ راست اس پر کوئی بیان نہیں دیا اور نہ ہی اس بات کا علم ہے کہ بائیڈن شی جن پنگ ملاقات میں اس پر کوئی بات ہوگی لیکن یہ ایک حقیت ہے کہ جی 20 کے سربراہ اجلاس کے دوران بھارت، امریکا، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، یورپی یونین، اٹلی، فرانس اور جرمنی نے ’انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کوریڈور‘ کی تعمیر کا معاہدہ کیا تھا حماس اسرائیل جنگ نے اس منصوبے اگر ختم نہیں کیا تو کچھ عرصے اس منصوبے کی پیش قدمی پر بریک لگا دیا ہے۔

چین کے صدر شی جن پنگ اپنے امریکی ہم منصب جوبائیڈن کی دعوت پر امریکا پہنچ گئے ہیں۔ چینی صدر سان فرانسسکو میں 30 ویں ایشیا پیسیفک اکنامک کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ اپنے دورۂ امریکا کے دوران صدر شی جن پنگ امریکی صدر جوبائیڈن سے ملاقات کے دوران چین اور امریکا تعلقات پر تبادلہ خیال کریں گے۔ دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے رہنما بدھ کے روز ہی سان فرانسسکو میں آمنے سامنے بیٹھ کر کئی اہم امور پر تبادلہ خیال کرنے والے ہیں۔

چینی صدر شی جن پنگ 2017 کے بعد پہلی بار امریکا پہنچے ہیں، جہاں صدر بائیڈن ان سے ملاقات کے خواہاں ہیں امریکی وزیر خزانہ جینٹ ایلین نے کیلی فورنیا پہنچنے پر چینی صدر کا شاندار استقبال کیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور چین کے صدر شی جن پنگ امریکی ریاست کیلی فورنیا کے سان فرانسسکو میں ہیں، جہاں دونوں رہنما آمنے سامنے بیٹھ کر بات چیت کر رہے ہیں۔ سان فرانسسکو میں اس ہفتے سالانہ ’ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن سمٹ‘ (اے پی ای سی) ہو رہی ہے جس کے دوران ہی دنیا کی دو مضبوط ترین معیشتوں کے صدور ملاقات کرنے والے ہیں۔ امریکا کا کہنا ہے کہ چین سے جدائی نہیں بلکہ تعلقات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دنوں رہنماؤں کے درمیان یہ بات چیت امریکا اور چین کے درمیان موجودہ سرد تعلقات کے درمیان ہو رہی ہے، کیونکہ چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے کے ساتھ ہی اب خارجہ پالیسی کے متعدد ان مسائل کے حوالے سے بھی زیادہ زور دار ہوتا جا رہا ہے، جہاں اس کا امریکا یا اس کے اتحادیوں سے اختلاف ہے۔ پہلے جب مغربی ممالک نے چین سے ’’ڈی کپلنگ‘‘ یعنی راہیں جدا کرنے کی بات شروع کی تو اس کے ابتدائی حوالوں سے بیجنگ کافی ناراض ہو گیا تھا، جس کے بعد سے مغربی ممالک اس کے لیے مزید غیر جانبدار شرائط تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جسے خطرہ کم کرنے کے لیے مذکرات کا نام دیا جا رہا ہے۔

بائیڈن نے منگل 14نومبر کو سان فرانسسکو کے لیے روانگی سے قبل نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ: ’’ہم چین سے الگ ہونے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس امریکا یہ کوشش کر رہا ہے کہ بہتری کے لیے تعلقات کو تبدیل کرنے کی بات کی جائے‘‘۔ چین سے مذاکرات میں کامیابی کا مطلب یہ ہو گا: ’’چین معمول کے راستے پر واپس آجائے، لیکن کم از کم اتنا تو ہو کہ بحران کے دوران فون اُٹھانے اور ایک دوسرے سے بات کرنے کے قابل ہو جائیں، امریکا کی کوشش ہے کہ وہ بات چیت کے نتیجے میں اس بات کو یقینی بنا لے کہ ہماری فوجوں کے درمیان اب بھی ایک دوسرے سے رابطے ہیں جیسا کہ ماضی میں رہا ہے‘‘۔

اس موقع پر امریکا، جنوبی کوریا اور جاپان کی شمالی کوریا کے لیے وارننگ بھی جاری کی گئی ہے کہ وہ اپنی حد میں رہیں اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں وہ مداخلت نہ کر ے اسی لیے سان فرانسسکو میں 14 نومبرکی شام کو امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے جنوبی کوریا اور جاپانی ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت کی ہے۔ اس بعد جنوبی کوریا کی حکومت نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ تینوں ممالک نے روس اور شمالی کوریا کے درمیان بڑھتے ہوئے فوجی عدم تعاون کے بجائے تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا اور اسے بین الاقوامی امن کے لیے ’’سنگین خطرہ‘‘ قرار دیا۔ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اْن نے ستمبر میں روس کے اپنے دورے کے دوران ملک میں دفاع اور خلا سے متعلق مقامات کا دورہ کیا تھا اور صدر ولادیمیر پیوٹن سے بات چیت کی تھی۔ اس حوالے سے یہ بتاتا چلوں کہ رواں ہفتے سان فرانسسکو میں ہونے والے اے پی ای سی کے اجلاس میں روس بھی شرکت کر رہا ہے اور روس کے نائب وزیر اعظم الیکسی اوورچک اور وہ دیگر روسی حکام جو امریکی پابندیوں کے تابع نہیں ہیں، اجلاس میں ماسکو کی نمائندگی کریں گے۔ اس بات کا علم امریکا کو بھی ہوگا وہ اب روس اور چین دونوں کو دھونس دھمکی اور ان دیکھے ہتھیاروں سے پتھروں کے دور میں پہنچانے کی باتوں دور ختم ہو چکا ہے۔ امریکا افغانستان اور حماس سے مقابلے کی طاقت بھی نہیں رکھتا ہے۔