بلنکن کا ناکام دورۂ مشرق وسطیٰ

603

امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے گزرے ہفتے کے دوران مشرقِ وسطیٰ کا طوفانی دورہ کیا اور ان کے پاس دھوکے کا منجن بھی تھا جس میں وہ ماضی کی طرح یہی کہہ رہے تھے کہ ’’وہ اپنے عرب ہم منصبوں کو فلسطینیوں کے طویل المدتی مستقبل پر غور کرنے اور خطے میں دیرپا امن کی راہ تلاش کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں لیکن اس میں زیادہ کامیابی حاصل ہوتی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اْردن کے وزیر خارجہ صفادی کا کہنا ہے کہ ’ہم کسی بھی چیز کے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں جب ہم نہیں جانتے کہ جنگ کے بعد غزہ میں کیا صورتحال ہو گی‘۔ انٹونی بلنکن سے اس بارے میں کسی نے بھی کچھ نہیں کہا وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں کہ نہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ترکیہ نے ’’ناٹو‘‘ کا رکن ہونے کے باوجود امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کو بتایا کے وہ اسرائیل کے حامی نہیں ہیں۔ انٹونی بلنکن جب ترکیہ پہنچے تو ان ائر پورٹ پر ایک سرکاری افسر موجود تھا، انٹونی بلنکن وہاں سے ترکیہ کے وزیرِ خارجہ حاقان فیدان کے دفتر گئے لیکن حسب ِ عادت، انٹونی بلنکن اپنی گاڑی میں بیٹھے رہے جس کی وجہ سے دفتر کے باہر استقبال کے لیے ترک وزیر خارجہ حاقان فیدان کھڑے رہے لیکن جب انٹونی بلنکن گاڑی سے باہر نہ نکلے تو تک وزیر ِ خارجہ واپسی کے لیے دفتر کے اندر جانے لگے تو بلنکن ان کے پیچھے ہو لیے اور دفتر کے اند داخل ہوئے تو سامنے والی دیوار پر حماس کے عسکری ونگ کے ’’سربراہ ابو عبیدہ‘‘ کی بڑی تصویر لگی ہوئی تھی اور ساتھ والی ٹیبل پر مسجد اقصٰی کا ماڈل رکھا تھا۔ گفتگو کا آغاز ترک وزیر خارجہ حاقان فیدان نے اس سوال سے کیا کہ ’’امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن سے میں ملاقات کررہا ہوں کہ ایک اسرائیلی یہودی سے میری ملاقات ہو ر ہی ہے جس پر بلنکن نے پرانا چورن مذاکرات کی میز رکھتے ہوئے کہا کہ میں انسانیت کی بقا کی بات کر رہا ہوں۔ پھر کیا بات ہوئی ہوگی اس بارے میں یہ بتاتا چلوں کے وہاں سے سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن سیدھے ائر پورٹ آئے اور صحافیوں کو بتایا گیا پریس کانفرنس نہیں ہوگی۔

عالمی اخبارات یہ بھی اطلاع دے رہے ہیں دنیا بھر میں ہونے والے اسرائیل کے خلاف مظاہرے 10 ممالک کی جانب سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کے اعلان، امریکی عوام اور سینیٹ کی جانب سے جاری دباؤ سے امریکا میں اسرائیل بمباری رکنے کا دور دور تک پتا نہیں تھا۔ اسرائیل کی جانب سے امریکی اسلحہ امداد میں ایٹم بم کا اضافہ اور اسلامی ممالک کی جانب سے شہید ہوتے فلسطینی بچوں پر مکمل خاموشی پر امریکا نے اسرائیل کو مزید بمباری اجازت دے دی تھی۔

امریکی سیکرٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے مقبوضہ مغربی کنارے کا اچانک دورہ کیا اور فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی اور ایک مرتبہ حماس کی مذمت کرنے پر اسرار کیا۔ لیکن ایک ماہ سے جاری اس جنگ میں اسرائیل کا پلہ اس وقت بھاری ہوا جب بریکس ممالک کے سب اہم رکن بھارت کے وزیراعظم مودی کو ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اچانک فون کرکے ان سے کہا کہ وہ فوری طور پر جنگ بندی میں اپنا اثر رسوخ استعمال کر یں۔ یہ اطلاعات خود ایرانی میڈیا نے دنیا کو دی لیکن اس کے برعکس یہ معلوم ہوا ہے کہ مودی سے قبل امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ کا مغربی کنارے کا اچانک دورے اور اس بعد اردن کے وزیر اعظم سے ملاقات کے فوری بعد عراق کے صدر سے ملاقات ہوئی اور عراقی صدر وقت ضائع کیے بغیر فوری ایرانی صدرابراہیم رئیسی سے ملنے ایران چلے گئے جس بعد ایرانی صدر نے اس جنگ کو رکوانے کے لیے بھارت سے مدد حاصل کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ بھارتی اخبارات اور چینل یہ خبر دے رہے ہیں کہ انٹونی بلنکن نے عراقی صدر کو ایٹمی آبدوز کی تصویر دکھائی جس میں ایٹمی آبدوز ایران کے ساحلوں کے قریب گشت کر رہی تھی۔

امریکی وزیر خارجہ کی تین روزہ مشرق وسطیٰ کے دورے پر کوشش ہے کہ غزہ، اسرائیل جنگ کے تناظر میں پیدا ہونے والے حالات کو سنبھالا جائے، جو کسی بھی وقت قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ وہ جہاں بھی گئے وہاں انہیں طرح طرح کے چیلنجز اور ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا۔ بلنکن کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ درمیانی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن فی الحال کوئی اس پر چلنے کو تیار نہیں جس میں اسرائیل سرِ فہرست ہے۔ بلنکن نے اسرائیل کے پڑوسی عرب ممالک کے نمائندوں سے ملاقات کی جہاں ہر کوئی فوری جنگ بندی چاہتا ہے۔ اْردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے کہا کہ اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے اور اس کی وجہ سے سیکرٹری آف اسٹیٹ وہاں زیادہ دیر نہ رک سکے۔

اس سب کے درمیان جب امریکا میں صدر جو بائیڈن سے پوچھا گیا کہ کیا انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کوئی پیش رفت ہوئی ہے تو انہوں نے کہا کہ اس میں ’اچھی‘ پیش رفت ہوئی ہے۔ بائیڈن انسانی بنیادوں پر جنگ میں توقف کے امکانات کے بارے میں پْرامید ہیں، لیکن مشرق وسطیٰ میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں کس قدر تناؤ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کو بلنکن جہاں بھی گئے، انہوں نے ان ملاقاتوں اور دوروں کو انتہائی رازداری میں رکھا۔ وہ فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے ملاقات کے لیے بکتر بند گاڑیوں کے قافلے میں رم اللہ پہنچے۔ سڑک کی حفاظت فلسطینی پیلس گارڈز نے سنبھالی تھی۔ جب وہ عراق گئے تو رات کے اندھیرے میں گئے۔ بلنکن اور ان کے ساتھ موجود سفارت کار بغداد ائرپورٹ سے امریکی سیفٹی ہیلمنٹ میں ایون ِ صدر پہنچے تھے۔

العربیہ اور الحدث کے نامہ نگار نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے کہا ہے کہ ’’یرغمالیوں کی واپسی کے بغیر انسانی بنیادوں پر کوئی جنگ بندی نہیں ہو سکتی‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ان کی افواج اب غزہ شہر کے مرکز میں ہیں۔ اب اسرائیل حماس کو غزہ میں حکومت کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔ انہوں نے کہا کہ جنگ کے بعد غزہ میں نہ اسرائیل اور نہ حماس کوئی بھی حکومت نہیں کرے گا۔ ٹی وی پر نشر ہونے والی تقریر میں نیتن یاہو نے کہا کہ حماس کی طرف سے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی سے قبل غزہ میں کوئی جنگ بندی یا ایندھن کی ترسیل نہیں ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم حملے جاری رکھیں گے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے 8 اور 9 نومبر کی شب اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی فوج حماس کے خلاف ایک ماہ سے جاری کارروائی کو جاری رکھتے ہوئے غزہ شہر کو گھیرے میں لے کر اس کے اندر کارروائیاں کر رہی ہے۔ لیکن حماس نے اس کی سختی سے تردید کی ہے اور بہادری سے اسرائیل افواج کے ارکان کو واصل ِ جہنم کرنے میں مصروف ہے۔