پاسباں مِل گئے ’’بیت المقدس‘‘ کو صنَم خانے سے؟

810

نہیں معلوم یہ ممالک دنیا میں رہتے ہیں یا کسی اور دنیا کے باسی ہیں کہ ان میں اتنی ہمت کہاں سے آگئی کہ اسرائیل، امریکا اور یورپی یونین کی مرضی کے خلاف کھل کر فیصلہ کر رہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے ان ممالک کے حکمرانوں میں سوچنے سمجھنے اور غور کرنے کی صلاحیت یکسر ختم ہو گئی ہے لیکن یہ ممالک ’’کچھ بھی ہو اہتمام ِ گلستاںکر رہے ہیں اور تپتے ہوئے روشنی کے چراغ کو ہاتھوں سے سنبھال کر رکھا ہوا ہے‘‘۔ اور دنیا میں اعلان بھی کر ر ہے ہیں کہ!
دو عالم سے کرتی بے گانہ ہے دل کو
عجب چیز ہے لذتِ آشنائی
یہ بات اب بہت پرانی ہو گئی ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں فاتح ممالک نے اقوام متحدہ کا چارٹر لکھا اور دنیا میں امن و استحکام کے محافظ اور بانیوں کے طور پر پانچ ممالک کو اہم مسائل پر ویٹو کا حق دے دیا اور انہیں سلامتی کونسل کا مستقل رکن نامزد کیا گیا۔ 24 اکتوبر 1945 کو 50 ممالک نے اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کیے اور اس کے قیام پر اتفاق کیا اور یہ بات طے کی گئی کہ دنیا کا امن تباہ کرنے والوں سے طاقت کے زور پر نمٹا جائے گا۔ لیکن آج اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کرنے والے ممالک شہید فلسطینی بچیوں اور بچوں کی قبروں کو اسرائیلی، امریکی، فرانسیسی، برطانوی اور کینیڈین کمانڈوز اپنے بوٹوں اور ٹینکوں تلے روند رہے ہیں اور تمام اسلامی اور غیر اسلامی ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں لیکن اس گھپ اندھیرے میں مملکت ِ بولیویا کی آواز نے سناٹے کا سکوت توڑتے ہوئے اعلان کر دیا کہ ’یہ نہ سمجھنا یہ اندھیرے ہی راج کرتے رہے رہیں گے‘ ہرگز نہیں۔ بولیویا کی غیرت کے سمندر میں ڈوبی وزیر خارجہ ماریا نیلا پراڈا نے صحافیوں کو بتایا، ’’ہم غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملوں کو بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں، جن میں اب تک ہزاروں شہری جاں بحق ہو چکے ہیں، اور فلسطینیوں کو جبری نقل مکانی کا سامنا کرنا پڑا ہے‘‘۔ بولیویا کے نائب وزیر خارجہ فریڈی مامانی ماچاکا نے کہا کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا فیصلہ غزہ میں جارحانہ اسرائیلی فوجی کارروائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے اس کے خطرے کی تردید اور مذمت کی عکاسی کرتا ہے۔ بولیویا کی جانب سے یہ اعلان سابق صدر ایوو مورالس کی جانب سے فلسطینی عوام کو درپیش خوفناک صورتحال کے پیش نظر اپنے ملک سے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کے مطالبے کے بعد سامنے آیا ہے۔
بولیویا کے سابق صدر ایوو مورالس نے رواں ماہ کے اوائل میں مطالبہ کیا تھا کہ اسرائیل کو ’دہشت گرد ریاست‘ قرار دیا جائے اور اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اور ان کے ساتھیوں کو نسل کشی اور جنگی جرائم پر بین الاقوامی فوجداری عدالت میں سزا دی جائے۔ بولیویا کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد ہی چلی اور کولمبیا کی حکومتوں نے بھی اپنے سفیروں کو اسرائیل سے واپس بلا لیا ہے، جب کہ برازیل کے صدر نے بھی غزہ پر جاری فضائی حملوں پر تنقید کی۔ کولمبیا کے بائیں بازو کے صدر گستاوو پیٹرو نے بھی گزشتہ روز اعلان کیا کہ انہوں نے اسرائیل کی جانب سے فلسطینی عوام کے قتل عام پر اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔ کولمبین صدر گستاوو پیٹرو نے اس سے قبل بھی حالیہ دنوں میں اسرائیل کے اقدامات کا موازنہ ایڈولف ہٹلر کے نازیوں سے کیا تھا۔ جس پر اسرائیل کی وزارت خارجہ کی جانب سے ان پر تنقید کی گئی تھی۔
دوسری جانب چلی کے صدر گیبریل بوریک نے بھی اعلان کیا کہ انہوں نے تل ابیب سے اپنے ملک کے سفیر کو واپس بلا لیا ہے، تاکہ ’’بین الاقوامی انسانی قوانین کی ناقابل قبول خلاف ورزیوں‘‘ پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ چلی کے صدر کا کہنا تھا کہ اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بننے والے 5000 سے زائد شہری جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں، نے یہ ظاہر کیا ہے کہ فوجی آپریشن ’’غزہ میں فلسطینی شہری آبادی کی اجتماعی سزا‘‘ کے طور پر کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ بڑی طاقتیں مل کر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔
برازیل کے صدر لوئیز اناسیو ڈی سلوا نے گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم کی جانب سے غزہ کی پٹی کو تباہ کرنے کے اعلان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی یہ بھول گئے ہیں کہ وہاں صرف حماس کے فوجی ہی نہیں بلکہ خواتین اور بچے بھی ہیں، جو اس جنگ کا سب سے بڑا شکار ہیں۔ برازیلین صدر نے ایک اور انٹرویو میں کہا کہ حماس نے اسرائیل کے خلاف سخت کارروائی کی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسرائیل لاکھوں بے گناہ عوام کو قتل کرے۔ اس سے قبل کہ میں ترکیہ، بحرین اور متحدہ عرب امارات کی بارے میں کچھ لکھ سکوں!
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مِل گئے کعبے کو صنَم خانے سے
اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ عالم اسلام میں ترکیہ کو اہم مقام حاصل ہے اور لیکن وہاںصدر رجب طیب اردوان تمام فریقوں کو اسرائیل اور حماس کے درمیان کشیدگی کے حوالے سے تحمل سے کام لینے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’طوفانِ اقصیٰ‘‘ آپریشن اور اسرائیل کے اس کے خلاف اعلان جنگ ہے اور اس کے بعد سے صدر رجب طیب اردوان تحمل کے سانچے میں بند ہیں۔ یہی صورتحال بحرین اور متحدہ عرب امارات کی ہے وہاں بھی معاشی ترقی کا ڈنکا بجایا جارہا ہے۔ پاکستان بھی باقی دنیا کی طرح فلسطینیوں کی حمایت کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطینیوں کی تباہی اور جنگ میں اسرائیل کی فتح کا انتظار ہے۔ سلامتی کونسل کے بعض اراکین کو جو ویٹو کا حق حاصل ہے یہ اب بین الاقوامی سلامتی اور امن کے لیے مفید نہیں رہا، کیونکہ وہ اپنے اپنے ممالک کے قومی مفادات کی بنیاد پر اس کونسل میں ووٹ دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طاقت کا اس طرح کا غلط استعمال دنیا کو بڑی اور ناگزیر جنگوں کی طرف لے گیا تھا اور آئندہ بھی لے جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 193 دیگر اراکین سلامتی کونسل کے مستقل رکن پانچ ممالک کے سامنے کوئی اہمیت نہیں ہے۔
غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے شہید ہوتے بچے اور جلتے گھر اور فلسطینیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے وہ امن اور عالمی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے ثالثی اور فوری کارروائی کے لیے کسی مضبوط بین الاقوامی ادارے کا فقدان ہے۔ دنیا کے تین اہم اور طاقتور ارکان یعنی امریکا، فرانس اور برطانیہ اور مغرب کے دیگر بڑے ممالک یعنی جرمنی اور اٹلی بھی اس تنازعے میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے اور فلسطینیوں کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے خود کو اس تنازعے کا فریق بنا لیا ہے اور بحران کے حل اور غیر جانبدارانہ ثالثی کا راستہ بند کر دیا ہے۔ لیکن اس بات کو گزرے 50 برسوں میں عالم ِ اسلام کے خلاف جنگ کو روکنے کے عالم اسلام کے ممالک خود کچھ اور مسلمانوں کے بجائے کسی نہ صورت امریکا اور اس اتحادیوں کے ساتھ نظر آتے اور اس سلسلے میں یہی کہتے سنے جاتے ہیں صدام حسین، یاسر عرفات، احمد یٰسین، افغان طالبان اُسامہ بن لادن، مصر، شام، اردن، سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور دیگر اسلامی ممالک کی پالیسی ٹھیک نہیں ہے اس کے برعکس کو جب بھی موقع ملتا ہے عالم کفر متحد ہو کر مسلمانوں پر بے دردی سے کارپیٹ بمباری کرتے اور پورا عالم ِ اسلام صرف ٹک ٹک دیدم بنا رہتا ہے۔ گزشتہ 30برسوں میں اس طرح کی بمباری سے اندازے کے مطابق 6کروڑ مسلما ن شہید ہو چکے ہیں۔