دو ڈیلز کا اسقاط ؟

636

ایسے میں جب اسرائیل اور سعودی عرب مدر آف آل ڈیلز کی دہلیز پر پہنچ چکے تھے فلسطین کی حریت پسند تنظیم حماس نے اسرائیل پر اچانک یلغار کر کے ’’مدرآف آل سرپرائزز‘‘ دے دیا۔ جس کے بعد عرب رائے عامہ ایک بار پھر خواب خرگوش سے بیدار ہوئی اور انہیں اندازہ ہوا کہ اسرائیل اس خطے کی ایک تلخ حقیقت ہے جس کی تلخی اور گھائو کو وقت کا بھائو اور مرہم مندمل اور کم نہیں کر سکتا۔ ایسے مسائل تاریخ کے دوست تناظر میں رہ کر کیے جانے والے فیصلوں ہی سے حل ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ نے بہت تمکنت کے ساتھ اعلان کیا تھا کہ سعودی عرب اور اسرائیل معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں اور سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرتے ہی چھے سات مسلمان ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لیں گے۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ نے ان ملکوں کے نام ظاہر نہیں کیے تھے بلکہ صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا تھا ان میں سے کئی ملکوں کے ساتھ اسرائیل کی ابتدائی بات چیت ہوچکی ہے۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ کے اس اعلان کا مطلب یہ تھا کہ اب اسرائیل کو مسلمان دنیا سے تسلیم کروانے میں کوئی قابل ذکر رکاوٹ باقی نہیں رہی۔ سعودی عرب کے ساتھ بونس میں جانے چھے سات ملکوں میں پاکستان کا نام بھی لیا جانے لگا تھا۔ چند دن پہلے فلسطین کے صدر محمود عباس نے معنی خیز بات کی تھی کہ امریکا فلسطین پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ محمود عباس نے اسرائیل کے قبضے کی بات نہیں کی بلکہ امریکا کے قبضے کی بات کی تھی اور بہت سوچ سمجھ کر کی تھی۔ اس سے پہلے چین نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات میں سہولت کاری کی کوشش شروع کی تھی مگر یہ کوشش امریکا کی خطے کے لیے بنائی گئی اسکیم کے لیے خطرہ تھی اس لیے امریکا نے سعودی اسرائیل تعلقات میں گرم جوشی پیدا کرنے کی کوششوں میں تیزی پیدا کر دی۔ یہاں تک کہ تاریخ میں پہلی بار ایک اسرائیلی وزیر نے سعودی عرب کا اعلانیہ دور ہ گیا۔ اس طرح سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کے قیام کا اسٹیج تیار ہو چکا تھا اور سعودی عرب کے ساتھ ’’بائے ون گٹ سیون‘‘ کے انداز میں جانے والے ممالک میں کچھ سیاسی اتھل پتھل اسی انداز سے جاری تھا۔ ایسے میں حماس نے اسرائیل پر یلغار کرکے ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔

یہ اپنی نوعیت کی انوکھی لڑائی ہے جو اسرائیل کے قلب میں لڑی جا رہی ہے اس سے پہلے عرب اسرائیل جنگیں اسرائیل سے باہر گولان کی پہاڑیوں اور سنائے کے علاقوں میں لڑی جاتی رہی ہیں۔ گولان کی پہاڑیوں پر شام کے ساتھ جبکہ سنائے کے علاقے میں مصر کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی اور یہ دونوں علاقے اسرائیل کا باقاعدہ حصہ نہیں تھے۔ پہلی بار حماس نے اسرائیل کے اندر داخل ہوکر سارے رعب ودبدبے کو خاک میں ملادیا۔ حماس نے بہترین جنگی مہارت کا مظاہرہ کرکے اسرائیل کو سرپرائز دیا اور اسی انداز میں اسرائیل کے گرفتار فوجیوں کو پیش کیا جس طرح اسرائیلی پچھتر برس سے فلسطینیوں کو تذلیل اور تضحیک آمیز انداز سے پیش کرتا چلا آتا ہے۔ حماس کے حملے کے جواب میں اسرائیل نے فلسطینیوں پر قیامت برپا کی غزہ کی بلند وبالا عمارتوں اور بستیوں کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا گیا ہے۔ غزہ کا اسرائیل نے محاصرہ کر دیا ہے اور لاکھوں آبادی کو بھوک اور پیاس سے مارنے کا بندوبست کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس محاصرے کو ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔ اس حملے کے بعد سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نارملائزیشن کی ڈیل پر ہونے والی پیش رفت کوروک دیا ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن کو ڈیل کو آگے چلانے سے معذرت کی ہے۔ اسرائیل کے جبر وتشدد کے بعد اب عرب رائے عامہ غم وغصے سے بھر گئی ہے اور اس ماحول میں سعودی عرب کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نارملائزیشن کے ایجنڈے پر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ جس پر یہی کہا جا سکتا ہے کہ

قسمت دیکھیے کہ ٹوٹی کہاں کمند
دوچار ہاتھ جب لبِ بام رہ گیا

اب تو بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور سعودی شہزادے محمد بن سلمان کے درمیان ٹیلی فونک رابطے پر فلسطین کی صورت حال جا ئزہ لیا گیا۔ امریکا اور اسرائیل نے فلسطین میں طاقت کا توازن اور اسٹیٹس کو اس بنیاد پر قائم نہیں کیا کہ اسرائیل بہت طاقتور ہے بلکہ اس نے فلسطین کی تنہائی کو یقینی بنا کر ان پر اپنا دبدبہ اور قبضہ بحال رکھا ہے۔ فلسطینیوں کو تنہا کرنے کے اس عمل کا آغاز کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے ہوا تھا جس میں فلسطین کے سب سے اہم معاون ملک مصر کو میدان سے نکال باہر کیا گیا تھا۔ بعد میں فلسطینیوں کے دوسرے ہمسائے اُردن کے ساتھ معاہدہ کرکے میدان کو مزید خالی کر دیا گیا۔ لے دے کر شام اور لبنان ہی فلسطین کے ایسے ہمسائے رہ گئے تھے جو ان کی تحریک کی زبانی کلامی حمایت برقرار رکھے ہوئے تھے اور شام میں رجیم چینج کی کوشش عرب بہار میں کی گئی مگر یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور روس نے اپنے پرانے دوست فاطمی خاندان کے اقتدار کو بچالیا۔ مصر میں جونہی محمد مرسی کی صورت میں انہیں مستقبل کے خطرات کے سائے نظر آئے تو ایک سال کے اندر اندر محمد مرسی کا تختہ اُلٹ کر انہیں جیل میں ڈال کر آنے والوں کے لیے نشان ِ عبرت بنادیا۔

فلسطین کے ہمسایوں کا سرینڈر اور ذہنی پسپائی اسرائیل کی طاقت کا راز رہا ہے۔ اب سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے قیام کا ٹرمپ کارڈ کھیلنا باقی رہ گیا تھا اور اس کے بعد پاکستان سمیت کئی مسلمان ممالک پکے ہوئے پھل تعلقات کی جھولی میں جا گرنا تھے۔ حماس نے اس ساری بساط کو اُلٹ ڈالا ہے اور بے موت اور تنہا مارے جانے کے تصور کو بدل کر رکھ دیا۔ فلسطین اور کشمیر میں کئی روابط رہے ہیں کشمیر کی مزاحمت کا ہر دور فلسطینی مزاحمت کی چھاپ لیے ہوتا ہے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں کشمیری مزاحمت پر فلسطین کی چھاپ نمایاں اور گہری تھی۔ محمد مقبول بٹ اور ان کے ساتھ جہازوں کے اغوا کی منصوبہ بندی، گوریلا حملوں، جیلیں توڑ کر فرار ہونے کی منصوبہ بندی کرکے ابوندال لیلیٰ خالد اور غسان کنفانی کو آئیدیلائز کرتے رہے اور اسی کی دہائی میں حماس نے میدان سنبھال لیا تو کشمیر میں اسی طرز مزاحمت کو فروغ ملا۔ یہاں تک ایک وقت میں پتھر اور غلیل کشمیریوں نوجوانوں کے مقبول ہتھیار بن گئے۔ یہی مماثلت اور مطابقت اسرائیل اور بھارت کو اپنی اپنی تحریکوں سے نمٹنے میں تعاون کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ کشمیر پر بھی ایک ڈیل کا اسکرپٹ موجود ہے اور جس پر دستخط کرنے کا لمحہ آنے سے پہلے ہی کوئی دھماکہ ہوجاتا ہے اور یہ ڈیل رک جاتی ہے۔ کارگل اور وکلا تحریک کشمیر ڈیل کو اسی طرح اُڑاتے رہے ہیں جس طرح حماس نے اسرائیل کو مدر آف آل سرپرائزز دے کر مدر آف آل ڈیلز کو سردست ناکام بنا دیا ہے۔ حماس نے صرف سعودی اسرائیل ڈیل ہی کو نہیں پاکستان بھارت ڈیل کی منزل بھی دور کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی سیاسی حرکیات میں تبدیلی کے آثار بھی پیدا کر دیے ہیں۔