یوکرین!! بھارت امریکا ہنی مون کا خاتمہ؟

750

یوکرین کی جنگ میں پہل تو روس کی طرف سے ہوئی مگر اس سے پہلے روس کو مشتعل کرنے اور خطرات اور خدشات کا شکار بنانے کے لیے مغربی اور ناٹو کی طرف سے مسلسل اقدامات اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔ اس کھیل میں یوکرین میں رجیم چینج کے ذریعے فریقین میں ایک سیاسی معرکہ آرائی بھی جاری رہی جس کا ڈراپ سین ایک مکمل فوجی تصادم کی صورت میں برآمد ہوا۔ روس نے یوکرین پر حملہ کرکے مغرب کو کھلے بندوں للکارا اور مغرب نے یوکرین کو عسکری مدد کے ذریعے اسلحہ آزمانے اور استعمال کرنے کی نئی تجربہ گاہ بنالیا۔ دوسال کا عرصہ ہورہا ہے مگر یوکرین میں کوئی فریق فاتح نہیں بن سکا۔ روس اورناٹو کے وسائل برمودہ ٹرائی اینگل میں لگ رہے ہیں مگر فتح کی منزل سے سب کوسوں دور ہیں۔ اب امریکی اخبار وال اسٹریٹ جرنل نے ایک مضمون میں یہ انکشاف کیا ہے کہ یوکرین میں استعمال ہونے والا ناٹو کا اسلحہ یوکرین کے لیے بنا ہی نہیں اس لیے یہ اسلحہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہا۔ مضمون نگار کے مطابق ناٹو کا اسلحہ کنونشنل وار فیئر کے لیے تیار کیا گیا ہے جبکہ روس اس وقت یوکرین میں ہائبرڈ وار فیئر حربے استعمال کر رہا ہے۔ ہائبرڈ وار فیئر میں روایتی جنگ بے قاعدہ جنگ اور سائبر حملے شامل ہوتے ہیں۔ ناٹو کا اسلحہ اس طرز جنگ کے مقابلے کے لیے قطعی موزوں نہیں۔ ناٹو کا اسلحہ مغربی یورپ میں لڑنے کے بنایا گیا ہے جبکہ روس یوکرین میں لڑ رہا ہے اور یہ دونوں مختلف نوعیت اور ماحول کے علاقے ہیں۔ روسی اپنا اسلحہ یوکرین کے جنگلوں میں استعمال کرتے ہیں جہاں ناٹو کا اسلحہ غیر موثر ہوجاتا ہے۔ ناٹو کا اسلحہ روسی اسلحہ کا ہم پلہ نہیں۔ روس کم اور غیر جدید قسم کی فوج رکھتا ہے۔ ایسے میں ناٹو کو یوکرین میں روس کا فوجی مقابلہ کرنے کے لیے ایسا اسلحہ تیار کرنا چاہیے جو ہائبرڈ وار فیئر کا مقابلہ کر سکے۔ وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق ناٹو اپنی فوج کی ٹریننگ کا میعار بہتر بنائے اور ہائبرڈ وار کے مقابلے کے لیے فوجی ڈاکٹرائن کو بہتر بنائے۔
امریکی اخبار کی یہ رپورٹ بتا رہی ہے کہ ناٹو اور امریکا نے جو حکمت عملی یوکرین میں اپنائی تھی ابھی تک اپنا رنگ نہیں جماسکی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ یوکرین کو روس کا افغانستان بنا دیں گے اور جہاں سے وہ اپنا بہت کچھ گنوا کر ہی باہر جائے گا۔ دوسرا یہ کہ یوکرین آپریشن بہت قلیل المیعاد ہوگا اور اقتصادی پابندیاں روس کو یوکرین کو چھوڑ چھاڑ کر جانے پر مجبور کریں گی۔ یوں لگتا ہے دو سال کی اس جنگ میں مغرب اپنی پوری قوت کے باوجود یہ مقاصد حاصل نہیں کر سکا اور روس خطے کے چند اہم ممالک ایران، بھارت، چین اور وسط ایشیائی ریاستوں کے ذریعے اقتصادی پابندیوں کو غیر موثر بنائے ہوئے ہے۔ تیل کی قیمتوں کے معاملے میں سعودی عرب نے بھی مغرب کی ڈکٹیشن قبول نہ کرکے عملی طور پر مشکل لمحوں میں روس کی مدد کی۔ اس کے ساتھ ہی روس اس جنگ کی جو کوریج کر رہا ہے اس میں یوکرینی فوج کا نقصان زیادہ دکھایا جا رہا ہے۔ روسی ڈرون یوکرین میں ٹینکوں اور زمینی فورسز کو بری طرح نشانہ بنا رہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ کا مسلمانوں کو یہ فائدہ تو ہوا کہ اب ان پر لگا ہوا دہشت گردی کا لیبل کچھ دھندلا ہو گیا ہے اور انہیں عالمی کٹہرے میں شد ومد سے کھڑا رکھنے کی مہم کچھ کمزور پڑ گئی ہے مگر اس جنگ نے مسلمان ملکوں کے لیے تقسیم اور کشمکش کی ایک نئی لکیر پیدا کر دی ہے اور انہیں روس چین یا امریکا ناٹو میں سے کسی ایک کے ساتھ اعلانیہ کھڑا ہونے کا چیلنج درپیش ہے۔ اس سے کھینچا تانی میں دنیا کے کئی ممالک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستان تو اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے مگر اب یہ سائے بھارت سمیت کئی اور ملکوں کی طرف دراز ہوتے نظر آرہے ہیں۔
یوکرین کی جنگ سے دامن بچانے کی کوشش میں نریندر مودی اب تک کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں مگر اب امریکا اور پاکستان کے بڑھتے اور گہرے ہوتے ہوئے یارانے اور جسٹن ٹروڈو کی طرف سے بھارت پر کھلے بندوں تنقید سے بھارت میں یہ احساس ہورہا ہے کہ امریکا ان کے ساتھ ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ پاکستان میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی آزاد کشمیر کے بعد گلگت بلتستان آمدنے بھی بھارت کے کان کھڑے کر دیے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ یہ وہ علاقے ہیں جن پر بھارت کا دعویٰ ہے اور امریکی سفیر ان علاقوں میں فوٹو سیشن کرکے حقیقت میں ان کو کوئی پیغام دے رہے ہیں۔ وہ اپنے دورے کے دوران ٹویٹر پیغام میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے بجائے آزاد کشمیر کی اصطلاح استعمال کرکے بھارت کی دُم پر پائوں رکھ چکے ہیں۔ گوکہ عمومی تاثر یہی ہے کہ امریکی سفیر چین کو احساس شکست سے دوچار کرنے کے لیے یہ سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے مگر یوں لگتا ہے کہ بھارت انہیں اپنے لیے امریکی پیغام سمجھ رہا ہے اور مغربی ملکوں میں خالصتان کا معاملہ اُٹھنا بھی ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔
خیال یہی ہے کہ اگر امریکی چاہتے تو جسٹن ٹروڈو کو سکھ راہنما کے قتل کے معاملے کو ایک عالمی مسئلہ بنانے سے گریز کرنے پر آمادہ کر سکتے تھے مگر امریکا کا اسٹائل یہ ہے کہ کبھی کبھار وہ اپنے دوستوں کو اپنے بجائے اپنے کسی دوسرے دوست کے ذریعے ہی زچ کرتا ہے۔ پاکستان پر ایک بار یہ لمحہ اس وقت آیا تھا جب برطانوی وزیر اعظم نے دورہ بھارت میں پاکستان کو دہشت گردوں کا سرپرست اور دہشت گردی برآمد کرنے والا ملک کہہ کر زچ کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکا اور ناٹو افغانستان کی جنگ میں ہار رہے تھے اور امریکی نجی محفلوں میں پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام عائد کررہے تھے۔ اب یہی کچھ بھارت کے ساتھ ہو رہا ہے اور امریکا کا قریبی اتحادی ملک کینیڈا اسے عالمی فورم پر زچ کر رہا ہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے یہ میعار اور پیمانے یوکرین کی جنگ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے نئے ’’نظریہ ٔ ضرورت‘‘ کا شاخسانہ ہیں۔