غربت اور صلاحیت: شاہنواز فاروقی

1102

ملک کے معروف صحافی نذیر ناجی نے ایک بار اپنے ایک کالم میں اس بات پر پاکستانیوں کا مذاق اڑایا تھا کہ وہ بھارت کی کرکٹ ٹیم پر اپنی ٹیم کی فتح کا خواب دیکھتے ہیں۔ نذیر ناجی نے لکھا تھا کہ کرکٹ پر بھارت کا قبضہ ہوگیا ہے۔ کرکٹ میں بھارت کا سرمایہ غالب آگیا ہے۔ کرکٹ کے تمام بڑے چینلوں کو بھارتی کمپنیوں سے سب سے زیادہ اشتہارات ملتے ہیں۔ چنانچہ یہ چینل بھارت کی زبان بولتے ہیں۔ دنیا کی سب سے بڑی کرکٹ منڈی آئی پی ایل بھارت میں لگتی ہے۔ اس منڈی میں کھلاڑی 2 کروڑ سے 20 کروڑ میں فروخت ہوتے ہیں۔ بھارت میں ملٹی نیشنل کمپنیاں ہر ابھرتے ہوئے بھارتی کرکٹر کو اپنے یہاں ملازم رکھ لیتی ہیں اور اسے ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ دیتی ہیں۔ کھلاڑی ذرا سا مشہور ہوجائے تو اشتہارات میں آجاتا ہے اور کروڑوں کماتا ہے۔ دوسری بار عالمی کپ جیتنے پر بھارتی ٹیم کے ہر کھلاڑیوں کو مجموعی طور پر 50 کروڑ سے ایک ارب روپے تک کی رقم ہاتھ آئی۔ اس کے مقابلے میں اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے فتح کی صورت میں ہر کھلاڑی کو پانچ لاکھ روپے اور ایک مربع زمین دینے کا اعلان کیا تھا۔ بھارت کے کھلاڑی یہ سن کر یقینا ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے ہوں گے کہ اس پر بھی شہباز شریف کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ نذیر ناجی کے طویل کالم کی تخلیص ہے۔ لیکن کالم کے آخر میں نذیر ناجی نے جو لکھا ہے اس کا ’’لطف‘‘ انہی کے الفاظ میں حاصل کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’اس پس منظر میں جب ہم اپنے کھلاڑیوں کو بھارتی ٹیم سے جیتنے کے لیے کہتے ہیں تو یہ ممولے کو شہباز سے لڑانے کے سوا کیا ہے۔ ایک دکاندار ایک بڑی کمپنی کے مالک، ایک چھوٹا افسر بڑے افسر اور ایک غریب آدمی ایک امیر آدمی کے سامنے ہر کوشش کے باوجود نفسیاتی برابری نہیں کرسکتا۔ ہمارے بھوک، غریبی اور پیسے کی کمی کے مارے ہوئے کھلاڑی کھیل سے ارب پتی بننے والے کھلاڑیوں کے سامنے نفسیاتی برتری کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔ بھارت اپنی دولت اور طاقت میں ہم سے بہت آگے جاچکا ہے۔ کرکٹ کے کھیل پر تو وہ چھا گیا ہے۔ آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسے ملکوں کی کرکٹ بھی بھارت کے سامنے ماند پڑتی جارہی ہے۔ خالی پیٹ حب الوطنی کسی کام نہیں آتی۔ حب الوطنی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے بھوک ختم ہوتی ہے‘‘۔
گفتگو کی ایک مشکل یہ ہے کہ گفتگو کرنے والا جتنی باتیں دوسروں کے بارے میں بتاتا ہے اس سے زیادہ باتیں وہ اپنے بارے میں بتاتا ہے۔ وہ اپنی گفتگو سے دوسرے کو جتنا نمایاں کرتا ہے اس سے زیادہ گفتگو خود گفتگو کرنے والے کو نمایاں کردیتی ہے۔ نذیر ناجی کے کالم کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اس کالم سے معلوم ہوتا ہے کہ نذیر ناجی کے لیے زندگی کی واحد حقیقت پیسہ تھا۔ ان کی فکر پیسے سے شروع ہوتی تھی۔ پیسے میں آگے بڑھتی تھی اور پیسے پر ختم ہوجاتی تھی۔ انہیں زندگی کے ہر مظہر میں پیسہ کام کرتا دکھائی دیتا تھا۔ یہاں تک کہ انہیں اہلیت اور صلاحیت بھی پیسے کی مرہون منت نظر آتی تھی۔ لیکن یہ نذیر ناجی کا شخصی مسئلہ نہیں ہے پیسے کی پوجا ایک ذہنیت کا نام ہے اور یہ ذہنیت ہر معاشرے اور ہر زمانے میں موجود رہی ہے۔ لیکن ہمارے زمانے اور ہمارے معاشرے میں اس ذہنیت کا زور کچھ زیادہ ہوگیا ہے۔ لیکن یہ ذہنیت جتنی عام ہے اس سے زیادہ غلط اور بے بنیاد ہے اور اس کی حمایت میں تاریخ سے ایک دلیل بھی فراہم نہیں کی جاسکتی۔
مسلمانوں کی تاریخ کا ابتدائی زمانہ غربت اور عسرت کا زمانہ تھا چناں چہ جب معرکہ بدر ہوا تو ایک طرف ایک ہزار کا لشکر جرار تھا اور دوسری طرف صرف 313 افراد۔ زیر بحث موضوع کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ ایک ہزار کا لشکر جرار امرا کا لشکر جرار تھا۔ ان کے پاس سیکڑوں اونٹ تھے۔ سیکڑوں گھوڑے تھے۔ اس لشکر کے ہر آدمی کے ہاتھ میں تلوار تھی، ڈھال تھی اور نیزہ تھا۔ لیکن مسلمانوں کے پاس صرف ایک گھوڑا تھا، چند اونٹ تھے، مسلمان فوجیوں کی اکثریت کے پاس تلوار تھی نہ زرہ بکتر۔ ان کے پاس ڈھال تھی نہ تیروں کا خزانہ۔ لیکن اس عسرت اور تنگ دستی کے باوجود 313 مسلمان ایک ہزار کے لشکر یہ غالب آگئے۔ سیدنا عمرؓ کے زمانے میں مسلمانوں کا مقابلہ وقت کی دو سپر پاورز یعنی قیصر و کسریٰ سے ہوا۔ ان طاقتوں کے پاس مال و زر کی فراوانی تھی۔ ان کے مقابلے پر مسلمان عسرت زدہ تو نہیں تھی مگر وہ مال و زر کی فراوانی میں قیصر و کسریٰ کے ہم پلہ ہر گز نہ تھے۔ اس کے باوجود مسلمانوں نے وقت کی دو سپر پاورز کو منہ کے بل گرا دیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بابر نے صرف آٹھ ہزار فوجیوں کی مدد سے ہندوستان فتح کیا۔ محمد بن قاسم سندھ آئے تو ان کے پاس 17 ہزار فوجی تھے اور ان کا مقابلہ راجا داہر کے ایک لاکھ نفوس پر مشتمل لشکر کے ساتھ تھا مگر محمد بن قاسم کے 17 ہزار فوجی ایک لاکھ کے لشکر پر غالب رہے۔ طارق بن زیاد نے اسپین فتح کیا تھا تو ان کے پاس صرف 18 ہزار فوجی تھے اور ان کے مقابلے پر ایک لاکھ کا لشکر تھا۔ چناں چہ طارق بن زیاد نے اپنے فوجیوں کی کشتیاں جلا دیں تا کہ کسی کو میدان جنگ سے فرار ہونے کا خیال نہ آئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اٹھارہ ہزار نے ایک لاکھ کے لشکر کو زیر کرلیا۔ قائداعظم نے جب پاکستان بنایا تو کیا مسلمانوں کی مالی طاقت انگریزوں اور ہندوئوں سے زیادہ تھی؟ نہیں۔ مسلمانوں کی مالی قوت انگریزوں اور ہندوئوں کی طاقت کا پاسنگ بھی نہیں تھی۔ مگر مسلمان حق پر تھے اور انہیں قائداعظم جیسا رہنما میسر تھا۔ چناں چہ مسلمان پاکستان بنا کر رہے۔ اور یہ تو کل کی بات ہے کہ افغانیوں نے وقت کی دو سپر پاورز یعنی سوویت یونین اور امریکا کو افغانستان میں منہ کے بل گرا دیا۔ سوویت یونین اور امریکا کی مالی و مادی طاقت بے پناہ تھی، مگر مجاہدین حق پر تھے۔ ان کے لیے آزادی جان سے زیادہ اہم تھی۔ وہ اپنی آزادی کے دفاع کے لیے جان کی قربانیاں دے سکتے تھے اور ان پر صبر کرسکتے تھے چناں چہ اس کے نتیجے میں نصرت الٰہی کا نزول ہو کر رہا۔
نذیر ناجی کی اصطلاح میں پاکستان ایک غریب ملک ہے، لیکن پاکستان کئی دہائیوں تک اسکواش کے عالمی منظر پر چھایا رہا۔ ہم نے اس کھیل میں ایک کے بعد دیگرے چار بڑے کھلاڑی پیدا کیے، ہاشم خان، قمر الزماں، جہانگیر خان اور جان شیر خان۔ ان چاروں کا معاشی پس منظر معمولی تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ پاکستان میں اسکواش کی سہولتیں بھی ناپید تھیں۔ پی آئی اے کا اسکواش کمپلیکس 1980ء کی دہائی میں تعمیر ہوا۔ پاکستان کے مقابلے پر برطانیہ امیر ملک ہے، انگلینڈ میں آج سے 13 سال پہلے اسکواش کے 40 ہزار کورٹس تھے مگر برطانیہ نے اسکواش کا ایک عالمی چمپئن بھی پیدا نہیں کیا۔ آسٹریلیا امارت اور آبادی میں برطانیہ سے بہت کم ہے مگر اس نے جیف ہنٹ جیسا اسکواش کا کھلاڑی پیدا کیا۔ جو سات سال تک لگاتار عالمی چمپئن شپ جیتتا رہا۔ جہانگیر خان نے پاکستان کی تمام تر غربت کے باوجود مسلسل آٹھ سال تک عالمی چمپئن شپ جیت کر جیف ہنٹ کا ریکارڈ توڑ ڈالا۔
ہاکی کی گزشتہ 70 سال کی تاریخ دیکھی جائے تو اس پر پاکستان اور بھارت کا غلبہ نظر آتا ہے۔ اور یہ وہ عرصہ ہے کہ جب بھارت بھی ایک غریب ملک تھا اور پاکستان بھی۔ ہاکی کا سب سے بڑا کھلاڑی بھارت کے گیان چند کوکہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ گیند پر ان کا غیر معمولی کنٹرول تھا۔ گیان چند میدان میں دوڑتے تو گیند ان کی ہاکی سے چپک کر رہ جاتی۔ یہاں تک کہ کئی بار ان کی ہاکی کا معائنہ کیا گیا کہ کہیں اس میں گیند کو چپکانے والی کوئی چیز تو نہیں لگائی ہوئی۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ گیان چند کا ’’جادو‘‘ کارپوریٹ انڈیا کی تخلیق نہیں تھا، گیان چند غریب ہندوستان کی پیداوار تھا، پاکستان کے شہناز شیخ، اصلاح الدین، سمیع اللہ، حنیف خان، حسن سردار ہاکی کے عظیم کھلاڑیوں میں سے ہیں اور یہ تمام ہی متوسط طبقے سے آئے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کارنامے پاکستان کی امارت‘‘ میں نہیں ’’غربت‘‘ میں انجام دیے۔
یہ صرف کھیل کا معاملہ نہیں۔ دوسرے شعبوں کا بھی یہی قصہ ہے۔ برصغیر میں گزشتہ ایک ہزار سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے علما، صوفیا اور شاعروں ادیبوں کی عظیم اکثریت غریب زیریں متوسط طبقے یا متوسط طبقے سے آئی۔ بلاشبہ دربار اور نوابوں کے طبقے نے علما اور شاعروں ادیبوں کی سرپرستی کی لیکن یہ لوگ اپنی اہلیت ہی کی وجہ سے سرپرستی کے مستحق قرار پائے۔ یعنی دربار اور نوابوں کی سرپرستی نے ان میں اہلیت پیدا نہیں کی بلکہ ان کی اہلیت نے انہیں درباروں اور نوابوں کے یہاں جگہ دلوائی۔ مغربی دنیا میں اب سائنس کارپوریٹ کلچر کا حصہ بن گئی ہے لیکن مغرب میں سائنس کی ترقی گزشتہ ڈھائی سو سال کے دوران وسائل کی قلت میں ہونے والی ترقی تھی۔ مغرب کے عظیم سائنس دانوں اور موجدوں میں دوچار کے سوا کوئی نہ امیر تھا نہ اس کی صلاحیت کے سلسلے میں امارت کوئی کردار ادا کررہی تھی۔
انسان کی پوری تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو فکر و خیال اور تخلیق کے محرکات کے سلسلے میں دولت کی سرے سے کوئی حیثیت ہی نہیں۔ مغرب کی تاریخ میں فلسفے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور مغرب کا کلاسیکی فلسفہ فلسفے کو ’’صداقت کی محبت‘‘ کا حاصل قرار دیتا ہے۔ سقراط کے زمانے میں صداقت کی محبت کا یہ عالم تھا کہ پیسے لے کر فلسفے پڑھانے والوں کو طنزاً سو فسطائی یا ’’پیشہ ور‘‘ قرار دیا جاتا تھا۔ صداقت کی محبت کی اس روایت نے یونان میں سقراط افلاطون اور ارسطو جیسے لوگ پیدا کیے جنہوں نے پوری انسانی فکر پر اثرات مرتب کیے۔
پیسے کی محبت میں مبتلا لوگوں کو اندازہ بھی نہیں ہوسکتا کہ تخلیق کار کے لیے تخلیق کے وفور یا تخلیق کی مسرت کیا اہمیت رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک سچے شاعر کو جیسی مسرت ایک اچھی غزل لکھ کر ہوتی ہے ویسی خوشی اسے ایک کروڑ روپے کما کر بھی نہیں ہوسکتی۔ یہ صرف شاعروں کا معاملہ نہیں ہر فن کی یہی کہانی ہے۔ شاعری کے مقابلے پر کرکٹ معمولی درجے کا فن ہے لیکن ایک بولر کو جیسی خوشی اچھی بولنگ اور ایک بیٹسمین کو جیسی خوشی اچھی بیٹنگ سے حاصل ہوتی ہے وہ کسی مالی انعام سے نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک ’’اچھے کھلاڑی‘‘ کی پہچان ہے۔
اسلامی تناظر میں حب الوطنی ایک معمولی چیز ہے۔ لیکن دولت سے تو حب الوطنی ایک کروڑ گنا بڑی شے ہے اور انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا میں بڑے بڑے کارنامے حب الوطنی کے جذبے کے تحت وجود میں آئے ہیں۔ پاکستان کا ایٹم بم اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ لیکن نزیر ناجی نے حب الوطنی کو بھی بھوک سے منسلک کردیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر حب الوطنی کا تعلق بھی پیسے سے ہے تو پھر حب الوطنی کی ضرورت ہی کیا ہے۔
جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو ان کے ہر فعل کا محرک اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہے اور اس کے مقابلے پر دولت کیا حب الوطنی اور تخلیقی مسرت کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن جن لوگوں کے لیے پیسہ ہی سب کچھ ہے ان کی نظر انسانی افعال کے ان عظیم الشان محرکات پر کیسے جاسکتی ہے؟