بھارت مشرقِ وسطیٰ راہداری خیالی پلائو یا گیم چینجر؟

1008

دہلی میں جی ٹونٹی اجلاس کی تھیلی سے جو برآمد ہوا اس کا نام انڈیا مڈل ایسٹ یورپی یونین اکنامک کوریڈور ہے۔ یہ سمندر کے اندر ریلوے اور جہازوں کی ایسی راہداری ہے جو بھارت سے شروع ہو کر متحدہ عرب، سعودی عرب اور اُردن سے گزرتی ہوئی اسرائیل جا پہنچے گی۔ جس کے بعد اس کی اگلی منزل یورپ ہوگی۔ اس منصوبے کے منظر پر تین بڑے شراکت دار اور ایک سرپرست نظر آرہا ہے۔ دنیا کو تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک سعودی عرب بظاہر اس کی فرنٹ سیٹ پر ہے اور مشرق وسطیٰ کی سب سے فعال معیشت اور معاشی مرکز متحدہ عرب امارات اور بھارت اس کے تین اہم کھلاڑی ہیں۔ امریکا بارہویں کھلاڑی کے طور پر محض چین کی ضد میں اور اسے نیچا دکھانے کے لیے اس منصوبے کی سرپرستی کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن اس منصوبے میں امریکا کے لیے سب سے کامیابی اور خوشی کا پہلو یہ ہے کہ دنیا میں اس کے دو ہی اسٹرٹیجک پارٹنرز ہیں اور وہ دونوں تاریخ میں پہلی بار براہ راست کسی رکاوٹ کے بغیر باہم جڑ رہے ہیں۔ ان کا نام ہے اسرائیل اور بھارت۔ اسرائیل تو روز اوّل سے امریکا کا اسٹرٹیجک پارٹنر ہے کیونکہ اس کی حفاظت، توسیع اور عالمی قبولیت کا سارا ذمہ امریکا نے خود لے رکھا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے دنیا میں جس دوسرے ملک کو اسڑٹیجک پارٹنر کا باقاعدہ اعزاز بخشا وہ بھارت ہے۔ پاکستان نے جنرل مشرف کی قیادت میں اس وقت بہت ہاتھ پائوں مارے کہ امریکا پاکستان کو بھارت کے برابر اسٹرٹیجک پارٹنر کا اعزاز بخشے مگر امریکا نے صاف انکار کیا کہ جنوبی ایشیا کے لیے اس کینگرو کے پاس ایک ہی تھیلی ہے اور اس پر ’’ریزرو فار انڈیا‘‘ لکھ دیا گیا ہے۔ اس طرح بھارت مشرق وسطیٰ کوری ڈور کا ایک اہم مگر سردست خاموش کھلاڑی اسرائیل ہے جو امریکا کے اسٹرٹیجک پارٹنر ہونے کے رشتے سے بھارت کا تزویراتی قرابت دار ہے۔

دونوں امریکا کے اسٹرٹیجک پارٹنر ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے گہرے تزویراتی شراکت دار بھی ہیں۔ دونوں کے درمیان ایک جیسے تاریخی مسائل کو حل کرنے کے مشترکہ منصوبے ہیں جن پر کامیابی سے عمل ہور ہا ہے۔ دونوں کی دہلیز تاریخ کے مختلف ادوار میں چیلنج بننے والے دو ملک ایک جیسے حالات بلکہ پریشاں حالی کا شکار ہیں۔ کیا پراسرار اتفاق ہے کہ دنیا کی پھلتی پھولتی معیشت اسرائیل کا ہمسایہ مصر سیاسی عدم استحکام اور فوجی حکمرانی کی لہروں کی زد میں تو تھا ہی اقتصادی دیوالیہ پن سے ایک قدم کی دوری پر بھی ہے اور اس کی اقتصادی شہ رگ پر آئی ایم ایف کا پائوں آگیا ہے۔ ایشا میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت بھارت کا ہمسایہ پاکستان بھی سیاسی عدم استحکام کا شکار اور جمہوریت کے سورج کے زوال کا شکار ہے اور مصر ہی کی طرح اقتصادی دیوالیہ پن سے فقط چند قدم کی مسافت پر ہے۔ بظاہر تو انڈیا مڈل ایسٹ منصوبے کا نام اقتصادی راہداری ہے مگر اس کے اکثر منصوبہ ساز اشارتاً بھی کھلے انداز میں بھی اسے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا متبادل قرار دے رہے ہیں۔

چین نے جب اس منصوبے کا آغاز کیا تھا تو اس نے اپنے منصوبے کو امریکا یورپ یا بھارت مخالف کے بجائے ایک خالص اقتصادی راہداری کے طور پر پیش کیا تھا۔ پاک چین اقتصادی راہداری اس کا صرف ایک بازو تھا اس منصوبے کے کئی بازو تھے جو اسے یورپ افریقا اور جنوب مشرقی ایشیا سے ملاتے تھے۔ پاک چین اقتصادی راہداری چین کے مال کو شمال کو جو کم آبادی کا حامل اور اصل متمدن اور ترقی یافتہ جنوبی حصے سے دور پڑتا ہے کو ترقی کی دوڑ میں شریک کرنا تھا۔ اس کا ایک راستہ یہ تھا کہ اس حصے کو پاکستان کے ذریعے کم فاصلے سے دنیا کے ساتھ جوڑا جائے۔ بالخصوص خلیجی ملکوں کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا جائے۔ چین اپنی مصنوعات کو کم فاصلے سے کم لاگت کے ساتھ مشرق وسطیٰ کی منڈیوں تک پہنچائے اور بدلے میں خلیجی تیل نسبتاً کم لاگت اور کم فاصلے سے حاصل کرے۔ ان مقاصد کے لیے چین کو جزائر ملاکا اور بحیرہ عرب کا ایک لمبا چکر کاٹ کر مشرق وسطیٰ تک پہنچنا پڑتا تھا۔ درمیان جاپان کی چھیڑ چھاڑ کا دھڑکا لگا رہتا تھا اور آگے چل کر بھارت کے ساتھ کشیدگی کی صورت میں بحیرہ ٔ ہند میں ایک اور رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ یہ وہ خوف اور ضرورت تھی جس نے چین کو سی پیک کا جوا کھیلنے پر مجبور کیا تھا۔

وہ جانتے تھے کہ پاکستان ایک کمزور خارجہ پالیسی اور کمزور معیشت کا حامل ملک ہے جس کی ہیئت مقتدرہ امریکی اثر رسوخ سے مکمل طور پر آزاد نہیں رہی۔ جبکہ انہیں اس بات کا اندازہ بھی تھا کہ بھارت اور امریکا اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ اس سب کے باوجود چین نے یہ جوا کھیلنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی مخالفین نے اس منصوبے کو نشانے پر رکھ لیا۔ اب اس منصوبے کے مقابلے کے اعلان کے ساتھ ہی انڈیا مڈل ایسٹ یورپ کوری ڈور کا اعلان کر دیا گیا۔ چینیوں کا اب بھی خیال ہے کہ یہ امریکا کے بڑے اعلانات اور کم عمل والے ماضی کے

کئی منصوبوں کی طرح کا ایک اور ناتمام منصوبہ ثابت ہوگا۔ ان کے خیال میں اوباما کے دور میں ہیلری کلنٹن نے بھی افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے ایک ایسے ہی اقتصادی کوری ڈور کا اعلان کیا تھا مگر وہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی تھی۔ گویا کہ ان کے نذدیک یہ شیخ چلی کا ایک خواب ہے۔ شاید ایسا ہو بھارت اس منصوبے کے ساتھ جڑتا ہے یا نہیں مگر یہ اسرائیل اور عرب دنیا کو زمینی طور پر جوڑنے پر لازمی منتج ہوگا اور یہی جوبائیڈن کا اصل منصوبہ ہے عربوں اور اسرائیل کو قریب لاکر نارملائزیشن کا عمل مکمل کیا جائے تاکہ اس کے بعد مشرق وسطیٰ میں امن کا کوئی بھی مخالف صرف اسرائیل کا مخالف نہ ہو بلکہ عربوں کا بھی یکساں مخالف ہو اور وہ سب اسے امن اور ترقی کے دشمن کے طور پر دیکھیں۔ اس کے ساتھ ہی یورپی یونین اور امریکا نے ایک اور معاہدے کا اعلان کیا جسے ٹرانس افریقن کوری ڈور کا نام دیا گیا یہ کانگو زیمبیا اور انگولا کے درمیان اقتصادی راہداری کے قیام کا منصوبہ ہے اس راہداری سے خام مال اور ان افریقی ملکوں سے نکلنے والے تانبے اور سونے کی تجارت ہوگی اور یوں وسائل کی چھینا جھپٹی کا یہ کھیل آسانی سمجھ میں آرہا ہے چین کو اسٹرنگ آف پرلز یعنی موتیوں کی لڑی کی ہوس کا شکار قرار دینے والے اسی راہ پر چلتے نظر آرہے ہیں۔