اسلام، تغیّر اور جاوید جبار: شاہنواز فاروقی

949

(زیر نظرمضمون گزشتہ اتوار کو سہواً پڑھے بغیر شائع ہوگیا تھا جس کی وجہ سے مضمون کی افادیت زائل ہوگئی تھی اور قارئین کو کوفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے مضمون دوبارہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔)
مذہب اتنا رفیع الشان موضوع ہے کہ اس پر امام غزالی، امام رازی، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ اور مولانا مودودی ہی گفتگو کرتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔ چلیے آدمی اتنا بڑا نہ ہو تو اس نے کم از کم ساری زندگی مذہب کو پڑھنے اور سمجھنے میں بسر کی ہو۔ فلسفے پر فلسفے کا ماہر ہی کلام کرتا ہوا اچھا لگتا ہے۔ شعر و ادب پر شاعر، ادیب اور نقاد ہی گفتگو کرتے ہوئے بھلے لگتے ہیں۔ کرکٹ اور ہاکی کھیل ہیں لیکن ان کھیلوں پر گفتگو کے لیے بھی مہارت درکار ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے زمانے تک آتے آتے زندگی اتنی اتھلی ہوگئی ہے کہ اسلام پر اطلاعات و نشریات کے سابق وزیر، سابق سینیٹر اور ایڈورٹائزر جاوید جبار تک اتھارٹی بن کر کلام کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔
کراچی میں پاکستان کی آئیڈیالوجی کیا ہے کہ موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جاوید جبار نے کہا کہ اسلام ایک آئیڈیالوجی ہے اور آئیڈیالوجی جامد نہیں ہوتی بلکہ وہ وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قرآن رسول اکرمؐ پر ایک بار نازل نہیں ہوا بلکہ اس کے نزول میں 21 سال لگ گئے۔ اور ایسا اس لیے ہوا کہ رسول اکرمؐ تبدیلی یا تغیر کے عمل سے گزر رہے تھے۔ نہ صرف یہ بلکہ وہ خطہ بھی تغیرات سے دوچار تھا۔ جاوید جبار نے دعویٰ کیا کہ اسلام کے معنی یا اس کی بنیاد ہی تبدیلی یا تغیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اسلام سے Inspired ہے مگر پاکستان تھیوکریسی بنانے کے لیے وجود میں نہیں آیا تھا۔ انہوں نے جڑانوالہ کے واقعات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں 97 فی صد آبادی مسلمان ہے اس کے باوجود وہ 3 فی صد اقلیتوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ (دی نیوز کراچی، 18 اگست، 2023ء)
اسلام کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے اور اس تاریخ میں ہمیں اسلام کہیں ارتقا پزیر یا تغیر کے عمل سے گزرتا ہوا دکھائی نہیں دیتا۔ اسلام کا سب سے بنیادی عقیدہ توحید ہے۔ یعنی مسلمان ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں، یہ عقیدہ رسول اکرمؐ کے زمانے میں بھی موجود تھا اور آج بھی مسلمان خدا کو ایک ہی مانتے ہیں۔ انہوں نے ہندوئوں کی ایک سطح پر تین اور دوسری سطح پر 33 کروڑ خدا ایجاد نہیں کرلیے۔ مسلمانوں نے عیسائیوں کی طرح توحید کو مسخ بھی نہیں کیا۔ مسلمان رسول اکرمؐ کو سردار الانبیا مانتے ہیں۔ خاتم النبیین تسلیم کرتے ہیں مگر اس کے باوجود معاذ اللہ وہ رسول اکرمؐ کو خدا کا بیٹا نہیں کہتے۔ مسلمانوں نے عیسائیوں کی طرح رسول اکرمؐ اور حضرت جبرئیل ؑ کو خدا کی خدائی میں شریک نہیں کرلیا۔ مسلمانوں کا ایک عقیدہ آخرت ہے۔ یعنی یہ بات کے مرنے کے بعد انسان ایک بار پھر زندہ کیا جائے گا اور خدا کے حضور حاضر ہوگا۔ چودہ سو سال گزر گئے مگر مسلمانوں کا عقیدہ آخرت بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ اس عقیدے میں رتیّ برابر بھی کمی بیشی نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے قرآن و سنت نے جو کچھ کہا ہے وہی مسلمانوں کے لیے صرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔ جاوید جبار کے دعوے کے برعکس مسلمانوں کی عبادات بھی جوں کی توں ہیں۔ مسلمان رسول اکرمؐ کے زمانے میں بھی پانچ وقت کی نماز پڑھتے تھے اور آج بھی پانچ ہی وقت کی نماز پڑھتے ہیں۔ ان نمازوں کے فرائض، سنتوں اور نفلوں کی تعداد بھی وہی ہے۔ جو رسول اکرمؐ سے ثابت ہے۔ مسلمان جس طرح رسول اکرمؐ کے زمانے میں حج کرتے تھے آج بھی اسی طرح حج کرتے ہیں۔ مسلمان جس طرح رسول اکرمؐ کے زمانے میں زکوٰۃ دیتے تھے آج بھی اسی طرح زکوٰۃ دیتے ہیں۔ اسلام کے حلال و حرام میں بھی کوئی تبدیلی یا کوئی تغیر نہیں ہوا ان میں کوئی ’’ارتقا‘‘ وقوع پزیر نہیں ہوا۔ رسول اکرمؐ کے زمانے میں بھی خنزیر کا گوشت ممنوع تھا آج بھی ممنوع ہے۔ رسول اکرمؐ کے زمانے میں بھی مسلمان چار شادیاں تک کرتے تھے آج بھی پانچویں شادی حرام ہے۔ اسلام نے کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کی جو فہرست مسلمانوں کو دی ہے اس فہرست میں بھی آج کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود بھی جاوید جبار کا دعویٰ ہے کہ اسلام تغیر ہے اور تغیر اسلام ہے۔ جاوید جبار نے یہ دعویٰ تو کردیا کہ رسول اکرمؐ بدل رہے تھے مگر انہوں نے تبدیلی کی ایک مثال بھی نہیں دی۔ اسلام کے سلسلے میں جاوید جبار کی معلومات کا عالم یہ ہے کہ انہیں اتنی سی بات بھی معلوم نہیں کہ رسول اکرمؐ کی رسالت کا زمانہ 21 سال نہیں 23 سال پر محیط ہے۔
اسلام تو خیر آسمانی مذہب یا جاوید جبار کی اصطلاح میں آئیڈیالوجی ہے۔ سوشلزم تو ایک انسانی ساختہ یا Man Made آئیڈیالوجی تھا مگر اس کے باوجود سوشلزم کے عقائد و نظریات 70 سال تک کسی تغیر سے آشنا نہ ہوسکے۔ سوشلزم انقلاب روس کے وقت بھی جدلیاتی مادیت پر ایمان رکھتا تھا اور 1990ء کی دہائی میں جب سوشلزم تحلیل اور سوویت یونین ختم ہوا تب بھی سوشلسٹ ریاست ’’جدلیاتی مادیت‘‘ پر یقین رکھتی تھی۔ روس میں انقلاب آیا تو سوشلزم کا ایک عقیدہ ’’قدرِ زائد‘‘ تھا۔ سوویت یونین ختم ہوا تب بھی سوویت یونین مارکس کے قدر زائد کے نظریے کو مانتا تھا۔ سوشلزم اپنے آغاز کے وقت بھی تمام ملکیت کو ریاست کے حوالے کرتا تھا اور سوشلزم اپنے اختتام پر بھی اسی خیال کا حامل تھا۔
اصل میں عقیدے اور نظریے میں تغیر کا فلسفہ جدید مغرب سے آیا ہے۔ علامہ اقبال بھی اس فلسفے سے متاثر تھے۔ چناں چہ انہوں نے اپنی شاعری اور اپنے خطبات میں اس تصور پر گفتگو کی ہے لیکن اس گفتگو کا اصل اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام تغیر کی نفی نہیں کرتا مگر اسلام کی کائنات ایک سکونی کائنات ہے۔ اس موضوع پر سلیم احمد نے اپنی کتاب اقبال ایک شاعر میں بصیرت افروز گفتگو کی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ اس سلسلے میں کیا کہتے ہیں۔
’’حرکت کائنات میں موجود ہے اس سے کسی کو انکار نہیں۔ اقبال نے افلاطون پر سکون پرستی کا الزام لگایا ہے لیکن کائنات میں حرکت کا افلاطون بھی قائل ہے۔ اس کی کائنات اگر سکونی کائنات ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کائنات میں حرکت موجود نہیں ہے۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ کائنات سے اوپر اعیان نا مشہود یا نظر نہ آنے والے اعیان کی دنیا ہے جو حرکت و تغیر سے ماورا ہے۔ ارسطو نے ایک قدم آگے بڑھایا ہے اور حرکت کے لیے ایک غیر متحرک اصول حرکت کو لازمی قرار دیا ہے۔ روایتی اسلام کی دینیات میں یہ مقام ذات باری کا مقام ہے جو خود ’’بے حرکت‘‘ ہے لیکن ہر حرکت کا منبع اور سرچشمہ ہے اور دنوں کو انسانوں کے درمیان گردش دیتا ہے۔
اس کے معنی یہ ہیں کہ سکون پرستی کا مفہوم بے حرکتی نہیں؟ مشرق جس سکون پرستی کا قائل ہے اس میں حرکت کا ایک مقام ہے جو سکون کے تابع ہے۔ یہاں حرکت یا تغیر ہوتا ہے مگر کسی اصول کے تحت۔ دوسرے لفظوں میں زمانہ مشرق میں بھی بدلتا اور چلتا ہے۔ بس شترِ بے مہار کی طرح نکیل تڑا کر نہیں بھاگتا۔ اس کی مہار کسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ آپ چاہیں تو کہہ لیں خدا کے ہاتھ میں یا اصول کے ہاتھ میں یا مابعد الطبیعات کے ہاتھ میں۔
مابعدالطبیعات کا ذکر آیا ہے تو ہم اس اصول کو واضح طور پر بیان کردینا چاہتے ہیں کہ مابعد الطبیعاتی نقطہ نظر سے سکون کو ہمیشہ حرکت یا تغیر پر فوقیت حاصل ہے۔ کیونکہ حرکت و تغیر مادے کی صفت ہے جو طبیعات کا شعبہ ہے۔ مابعد الطبیعات کا تعلق مادے سے نہیں ماورائے مادہ سے ہے۔ ان معنوں میں وہ تمام جدید فلسفے جو حرکت و تغیر پر زور دیتے ہیں اور اس سے ماورا کسی ایسی حقیقت تک نہیں پہنچتے جو بے حرکت اور بے تغیر ہے اپنی اصل میں مادہ پرست فلسفے ہیں اور قطعی طور پر مابعدالطبیعات سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ مثلاً ایک فلسفہ برگساں کا ہے جس سے اقبال کم از کم حرکت پرستی کی حد تک ضرور متاثر ہیں۔ برگساں نے ارتقائے تخلیق کا نظریہ پیش کیا جو ان معنوں میں ایک مادی فلسفہ ہے کہ صرف ممکنات (Becoming) سے بحث کرتا ہے۔ اقبال برگساں کے دوران محض کے نظریے سے اتنے متاثر ہوئے کہ زمانے کو خدا کہہ بیٹھے۔ استدلال ایک حدیث قدسی سے کیا گیا جس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ زمانے کو برا مت کہو کیونکہ زمانے کی فضلیت اس کی اپنی نہیں۔ زمانہ جو کچھ کرتا ہے اس کا فاعل حقیقی خدا ہے۔
(اقبال ایک شاعر، صفحہ 216، 217)
اصول سے محروم تغیر کتنی ہولناک چیز ہے اس کا اندازہ خود مغربی تہذیب کے ہولناک تغیر سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ جدید مغرب میں نشاط ثانیہ کے بعد جس کرسی پر خدا بیٹھا ہوا تھا اس کرسی سے اسے اتار کر اس کی جگہ انسان کو بٹھادیا گیا۔ اس سے مغرب میں انسان پرستی یا Humanism پیدا ہوا۔ جب مغرب میں Humanism آگیا تو سوال پیدا ہوا کہ Human being کیوں Human Being تو نوع ہے فرد یا Individual کیوں نہیں۔
جب معاشرے میں فرد پرستی رائج ہوگئی تو سوال اٹھا کہ فرد میں سب سے توانا چیز یا فیکلٹی کیا ہے؟۔ وہ فیکلٹی تھی عقل یا Reason۔ چناں چہ مغرب میں عقل پرستی رائج ہوگئی۔ اس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ عقل پرستی بھی ٹھیک نہیں کیونکہ عقل جبلت کے پیچھے چلتی ہے جس طرح کتا ہڈی کے پیچھے چلتا ہے۔ چنانچہ پھر مغرب جبلت کو پوجنے لگا اس طرح بات بڑھتے بڑھتے اضافیت اور وہاں سے Pragmatism تک پہنچی۔ اور Pragmatism کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ Pramgatism فلسفے کی موت ہے۔ یہ ہے مغرب میں تغیر پرستی کا نتیجہ۔ کیا جاوید جبار صاحب چاہتے ہیں کہ ہم بھی تغیر پرستی کرتے ہوئے مغرب کے انجام سے دوچار ہوں؟۔
جاوید جبار کا اصرار ہے کہ پاکستان اسلام سے Inspire تو ہے مگر پاکستان تھیوکریسی بنانے کے لیے وجود میں نہیں آیا۔ چلیے ایسا ہی ہوگا مگر جاوید جبار یہ تو بتائیں پاکستان میں اسلام کہاں ہے؟ پاکستان کی سیاست اسلام سے عاری ہے۔ پاکستان کی معیشت سود پر کھڑی ہے، سود کو قرآن اللہ اور رسول سے جنگ قرار دیا ہے۔ پاکستان کا عدالتی نظام مغرب سے آیا ہوا ہے۔ پاکستان کا تعلیمی نظام مغربی افکار پر کھڑا ہوا ہے۔ یہ اسلام سے کھلی غداری ہے اور اس غداری سے ثابت ہے کہ پاکستان اسلام سے نہیں مغرب سے Inspired ہے۔ جہاں تک تھیوکریسی کا تعلق ہے تو ’’تھیو‘‘ کا مطلب خدا ہے۔ چناں چہ تھیوکریسی اپنی اصل میں ’’خدا مرکز‘‘ حکومت کے سوا کچھ نہیں اسلام بھی یہی چاہتا ہے کہ انسان کی انفرادی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی زندگی ’’خدا مرکز ہو‘‘۔