صدر عارف علوی کی  پانچ سالہ صدارت کی مدت  مکمل

290
speculations

اسلام آباد :صدر عارف علوی کی پانچ سالہ صدارت کی مدت  مکمل ہوگئی ۔  مدت پوری ہونے کے باوجودعارف علوی  کو نئے صدارتی انتخاب تک اپنے  عہدے پر برقراررہنے کا اختیار ہے  یہ اختیار 18ویں ترمیم کے تحت تفویض کیا گیا نئے صدارتی انتخاب کے لئے الیکٹرول کالج ہی موجود نہیں ہے۔

 اہم معاملات میں  صدر کی جانب سے  وزیر اعظم شہبازشریف سے حلف  نہ لینا اور عمران خان کے کہنے پر قومی اسمبلی تحلیل کرنا تھا جو عدالت عظمی کی وجہ سے بچ گئی تھی۔

تفصیلات کے مطابق صدر نے مدت مکمل کرلی انھوں نے  9ستمبر2018کو صدر کی حثیت سے حلف اٹھایا تھا  پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی جماعتوں کی حمایت سے عارف علوی صدر منتخب ہوئے تھے، نئے صدارتی انتخاب تک وہ عہدہ برقراررکھ سکتے ہیں۔

آئین کے  تحت صدر کا انتخاب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں یعنی سینیٹ اور قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کرتے ہیں۔عام انتخابات کب ہوں گے اس پر سوالیہ نشان برقرار ہے  جس کی وجہ سے غیر یقینی بھی برقرار ہے کہ عارف علوی کب تک اپنے عہدے پر فائز رہیں گے۔

آئین کے مطابق صدر مملکت اپنی میعاد ختم ہونے کے باوجود اپنے جانشین کے عہدہ سنبھالنے تک اس عہدے پر فائز رہ سکیں گے۔ صدر عارف علوی نے تاحال ارادہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ اس عہدے پر کام کرتے رہیں گے یا اس سے مستعفی ہو جائیں گے۔آئین کے آرٹیکل 41 کی شق چار کے مطابق صدر کا الیکشن صدارتی مدت ختم ہونے سے زیادہ سے زیادہ 60 اور کم سے کم  30 دن قبل کروایا جائے گا۔

 اس دوران اگر اسمبلی توڑ دی گئی ہو تو صدارتی انتخاب عام انتخابات ہونے کے بعد 30 دن کے اندر کروایا جائے گا۔اس اعتبار سے صدارتی انتخاب آٹھ ستمبر سے 30 دن قبل ہونا تھا۔اس وقت الیکٹورل کالج مکمل نہیں ہے کیونکہ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں موجود نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ الیکٹورل کالج مکمل نہ ہونے کے باعث صدر کا انتخاب بھی نہیں ہو سکتا۔

 تحریکِ انصاف کے سینیئر رکن عارف علوی عارف علوی جولائی 2018میں ہونے والے عام انتخابات میں کراچی سے تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر کراچی کے حلقہ 247 سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق انھوں نے  صدر بننے کے بعد یہ نشست خالی کردی تھی ۔

 ڈاکٹر عارف  علوی پیشے کے اعتبار سے ڈینٹسٹ ہیں ۔ 1996 میں عمران خان نے تحریکِ انصاف کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت کا آغاز کیا تو وہ اس میں شامل ہو گئے۔وہ تحریکِ پاکستان کے ‘نیا پاکستان’ کے منشور کے مصنفوں میں بھی شامل ہیں۔تحریک انصاف میں ان کا سیاسی سفر 1997 میں پارٹی کا سندھ کا صدر بننے سے شروع ہوا تھا۔

سنہ 2001 میں وہ مرکزی نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ سنہ 2006 میں پارٹی کے جنرل سیکرٹری بنائے گئے اور سنہ 2013 تک اس عہدے پر رہے۔انھوں نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر پہلا الیکشن سنہ 1997 میں صوبائی حلقے سے لڑا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔

 سنہ 2002 کے انتخابات میں انھوں نے کراچی سے قومی اسمبلی کی نشست پر قسمت آزمائی کی لیکن اس میں بھی شکست ہوئی۔البتہ 2013 کے انتخابات میں وہ ایم کیو ایم کی خوش بخت شجاعت کو دوبارہ گنتی کے بعد ہرا کر پہلی بار قومی اسمبلی تک پہنچنے میں کامیاب رہے تھے۔