بی جے پی کا پہلا وزیراعظم کون تھا؟

714

اگر ہم آپ سے پوچھیں کہ بھارت میں بی جے پی کا پہلا وزیراعظم کون تھا تو آپ کا جواب ہوگا اٹل بہاری واجپائی۔ آپ کا جواب تاریخی اعتبار سے درست ہے۔ مگر بھارت کے ممتاز سفارت کار مانی شنکر آئر کو آپ کے جواب سے اتفاق نہیں ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ بی جے پی کا پہلا وزیراعظم نرسہما رائو تھا۔ وہی نرسہما رائو جس کے دور میں بابری مسجد شہید ہوئی تھی۔ مانی شنکر کا یہ جواب بھی غلط نہیں۔ اس لیے کہ بی جے پی ایک نظریے کا نام ہے۔ لیکن آپ کہیں گے مانی شنکر آئر کون ہیں اور زیر بحث موضوع کے حوالے سے ان کے خیالات کی نوعیت کیا ہے؟
مانی شنکر آئر بھارت کے ممتاز سفارت کار ہیں۔ وہ 1978ء سے 1982ء تک کراچی میں بھارت کے قونصل جنرل رہے ہیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ وہ ہندو ہونے کے باوجود ہندو نہیں ہیں بلکہ سر سے پائوں تک سیکولر ہیں۔ حال ہی میں ان کی خود نوشت Memoirs of a Marvick کے عنوان سے شائع ہوئی ہے۔ اس موقع پر بھارت کے ممتاز خبر رساں ادارے The wire نے مانی شنکر آئر کا ایک انٹرویو لیا ہے۔ اس انٹرویو میں مانی شنکر آئر نے کہا ہے کہ بی جے پی کا پہلا وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نہیں بلکہ پی وی نرسہما رائو تھا۔ مانی شنکر آئر کے بقول وہ ہندو مسلم اتحاد کے لیے ’’رام رحیم‘‘ یاترا پر تھے کہ نرسہما رائو نے انہیں اڑیسہ سے دہلی طلب کیا اور ان سے کہا کہ مجھے تمہاری یاترا سے اختلاف نہیں مگر مجھے تمہارے سیکولرازم کی تعریف سے اختلاف ہے۔ مانی شنکر آئر کے بقول انہوں نے نرسہما رائو سے پوچھا کہ میری سیکولر ازم کی تعریف میں کیا نقص ہے تو نرسہما رائو نے کہا کہ مانی تم سمجھتے کیوں نہیں بھارت ایک ہندو ملک ہے۔ مانی شنکر نے اس کے جواب میں کہا۔ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ کانگریس کا نہیں بی جے پی کا نظریہ ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ بھارت ہندو ملک نہیں ہے۔ ہم ایک سیکولر ملک ہیں۔ بلاشبہ ہندوستان میں ہندوئوں کی اکثریت ہے مگر ہندوستان میں 20 کروڑ مسلمان رہتے ہیں۔ یہاں عیسائی، سکھ، یہودی اور پارسی آباد ہیں۔ چناں چہ بھارت ایک ہندو ملک کیسے کہلا سکتا ہے؟ مانی شنکر آئر کے بقول نرسہما رائو نے جو کانگریس کے وزیراعظم تھے بھارت کو ہندو ملک اس لیے کہا کہ ان کا ذہن یک طرفہ تھا۔ وہ سر سے پائوں تک ’’فرقہ پرست‘‘ تھے۔ مانی شنکر آئر نے اپنے انٹرویو میں پاکستان کے حوالے سے بھی باتیں کی ہیں۔ ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ پاکستان کو ایک دشمن ملک سمجھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ میں پاکستانیوں کو ہرگز دشمن نہیں سمجھتا۔ البتہ حکومت پاکستان ایسے بہت سے اقدامات کرتی رہتی ہے جن کی وجہ سے آپ اسے دشمن باور کرسکتے ہیں۔ مانی شنکر آئر نے کہا کہ ہمارے اندر پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائک کی ہمت تو ہے مگر پاکستان سے مذاکرات کی ہمت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اب بھارت میں خارجہ پالیسی کا ایشو نہیں ہے بلکہ وہ اب ہمارا اندرونی یا داخلی مسئلہ بن چکا ہے۔
ایک خاص تناظر میں دیکھا جائے تو مانی شنکر آئر کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ بی جے پی کے پہلے وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نہیں بلکہ نرسہما رائو تھے لیکن اگر مسئلہ ہندو قوم پرستی یا فرقہ واریت کا ہے تو بھارت کا ہر بڑا رہنما ہندو قوم پرستی میں ڈوبا ہوا تھا اور وہ سر سے پائوں تک فرقہ پرست تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال موہن داس کرم چند گاندھی ہیں۔ ہندو انہیں عقیدت محبت سے مہاتما یا عظیم روح اور باپو یا باپ کہتے تھے مگر مسلمانوں کے حوالے سے گاندھی کا چھوٹا پن درجنوں باتوں سے ظاہر اور ثابت ہے۔ یہ 1930ء کا زمانہ تھا۔ بھارت میں شدھی کی تحریک کے تحت مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنایا جارہا تھا اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والا کوئی نہیں تھا۔ اس فضا میں مولانا محمد علی جوہر کی آواز فضا میں گونجی۔ انہوں نے گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہندو شدھی کی تحریک کے تحت مسلمانوں کو ہندو بنارہے ہیں اور آپ اس کا نوٹس لینے اور ہندوئوں کو ان کی حرکت سے باز رکھنے کے لیے کچھ نہیں کررہے۔ محمد علی جوہر برصغیر کے مسلمانوں کے ضمیر اور شعور کی آواز تھے مگر گاندھی جی نے اس آواز کو نظر انداز کردیا اور اس کا کوئی جواب دینا پسند نہیں کیا۔ اردو ہر اعتبار سے ہندوستان کی زبان ہے۔ اس کی 30 فی صد سے زیادہ لغت ہندی پر مشتمل ہے اور اردو ہندوستان کا لسانی معجزہ ہے مگر گاندھی پر ’’ہندوتوا‘‘ کا اتنا غلبہ تھا کہ انہوں نے صرف فارسی کو نہیں اردو کو بھی پس منظر میں دھکیلنا شروع کردیا اور ہندی کے فروغ پر توجہ مرکوز کردی۔ منشی پریم چند اردو افسانے کے بنیاد گزار تھے اور وہ اردو ہی میں ساری زندگی افسانہ لکھتے رہے مگر گاندھی کے اثر سے انہوں نے اردو میں افسانے لکھنے ترک کردیے اور وہ ہندی میں افسانے لکھنے لگے۔ گاندھی کی اسلام اور مسلمانوں سے نفرت اس امر سے بھی ظاہر ہے کہ ایک ہندو نے رنگیلا رسول کے عنوان سے رسول اکرمؐ کی اہانت پر مبنی کتاب لکھی تو ایک مسلمان نے اسے واصل بہ جہنم کردیا۔ اس پر گاندھی نے کہا کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے اور آج بھی اس کے ہاتھ میں تلوار ہی ہے۔ گاندھی یہ کہتے ہوئے بھول گئے کہ اگر اسلام تلوار سے پھیلا ہوتا تو اس نے صرف جغرافیہ فتح کیا ہوتا۔ دلوں کو نہ جیتا ہوتا۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ اگر اسلام نے ہندوستان میں تلوار کا مسلسل استعمال کیا ہوتا تو موہن داس کرم چند گاندھی کا نام موہن درس کرم چند گاندھی کے بجائے محمد طفیل گاندھی ہوتا۔ پنڈت نہرو کی بہن وجے لکشمی پنڈت نے ایک مسلمان سے شادی کرلی تھی۔ گاندھی کو اس شادی کا علم ہوا تو انہوں نے وجے لکشمی پنڈت کو بلایا اور انہیں سخت سست کہا اور فرمایا کہ تمہیں کروڑوں ہندوئوں میں سے ایک ہندو بھی ایسا نظر نہ آیا جس سے تم شادی کرسکوں۔ انہوں نے وجے لکشمی پنڈت پر اتنا دبائو ڈالا کہ انہوں نے مسلمان سے تعلق قطع کرلیا۔
نہرو گاندھی سے زیادہ وسیع المشرب تھے مگر پھر بھی اپنے دعوے کے باوجود سیکولر نہیں تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد بھارت میں مسلم کش فسادات شروع ہوئے تو دہلی بھی اس کی لپیٹ میں آگئی اور ہندو بالائی طبقات کے مسلمانوں کا بھی قتل عام کرنے لگے۔ اس صورت حال میں مولانا ابوالکلام آزاد نے نہرو سے کہا کہ وہ دہلی کے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے مناسب بندوبست کریں مگر مولانا نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ نہرو پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ چناں چہ مولانا نے ایک دن نہرو سے پوچھا کہ دہلی میں بھی مسلم کش فسادات کیوں نہیں رک رہے؟ اس کے جواب میں نہرو نے کہا کہ میں تو وزیر داخلہ سردار پٹیل سے مسلسل کہہ رہا ہوں کہ کچھ کرو مگر وہ میری بات نہیں سنتا۔ نہرو ہندوستان کی جنگ آزادی کے ہیرو تھے۔ کانگریس میں گاندھی جی کا کوئی متبادل تھا تو نہرو تھے۔ وہ ہندوستان کے پہلے اور مقبول عوام وزیراعظم تھے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ ان کا وزیرداخلہ ان کی بات نہ سنتا۔ اصل بات یہ تھی کہ خود نہرو کو بھی مسلم کش فسادات کی روک تھام سے دلچسپی نہ تھی۔
اندرا گاندھی نہرو کی بیٹی تھیں۔ وہ طویل عرصے تک بھارت کی وزیراعظم رہیں مگر انہوں نے بھارتی مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لیے کچھ نہ کیا۔ ان کی اسلام دشمنی اس امر سے ظاہر ہے کہ سقوط ڈھاکا کے بعد اندرا گاندھی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے
باقی صفحہ7نمبر1
شاہنواز فاروقی
اور ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے۔ سقوط ڈھاکا ہندوستان کی بہت بڑی فتح اور پاکستان کی بہت بڑی شکست تھی۔ چناں چہ اندرا گاندھی اگر دو ملکوں کے تناظر میں اپنی فتح کا جشن منالیتیں تو یہ بھی کافی ہوتا مگر وہ دو مذاہب، دو تہذیبوں، دو تاریخوں اور دو قوموں کو درمیان میں لے آئیں۔ اندرا گاندھی فرقہ پرست نہ ہوتیں تو یہ کام ہرگز نہ کرتیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو گاندھی بھی بی جے پی کے آدمی تھے۔ نہرو بھی بی جے پی کے رہنما تھے اور اندرا گاندھی بھی بی جے پی کی قائد تھیں۔ اسی تناظر میں ہم اکثر کہا کرتے ہیں کہ بھارت کے مسلمانوں اور پاکستان کے لیے بھارت کی تمام جماعتیں بی جے پی ہیں۔ فرق یہ ہے کہ اصل بی جے پی، بی جے پی نمبر ایک ہے۔ کانگریس بی جے پی نمبر دو ہے اور دوسری جماعتیں بی جے پی نمبر تین ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ آخر بھارت کی پوری قیادت اور تمام جماعتوں پر ہندوتوا کیوں غالب ہے؟
اس کا ایک جواب یہ ہے کہ ہندو اپنی تہذیب کو دنیا کی قدیم ترین تہذیب سمجھتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ اس تہذیب میں رام، کرشن، ارجن اور سیتا جیسی شخصیات ہیں۔ ہندو اپنی مذہبی کتاب گیتا کو دنیا کی عظیم ترین کتاب سمجھتے ہیں۔ ہندوئوں کو مہا بھارت کے حوالے سے اپنی بہادری پر ناز ہے۔ مگر مسلمانوں کی مٹھی بھر تعداد نے ہندوستان میں گھس کر ہندوئوں کو ان کے گھر میں ہرا کر انہیں اپنا مطیع بنالیا۔ چھے ہزار سال پرانی تہذیب چند سو سال پرانی اسلامی تہذیب کا مقابلہ نہ کرسکی۔ محمد بن قاسم کے 17 ہزار فوجیوں نے راجا داہر کے ایک لاکھ فوجیوں کو زیر کرلیا۔ بابر کے 8 ہزار فوجی ایک لاکھ کے لشکر پر غالب آگئے۔
ہندوستان کی تاریخ یہ ہے کہ جو ہندوستان میں آیا وہ ہندوازم کے رنگ میں رنگ گیا۔ بدھ مت برہمن ازم کے خلاف ایک بغاوت تھا مگر برہمنوں نے بدھ ازم کو اپنے مرکز میں ٹھیرنے ہی نہ دیا اور جو بدھ ہندوستان میں ٹھیرے انہیں دیکھ کر خیال آتا ہے کہ وہ ہندوازم ہی کے پیروکار ہیں۔ سکھ ازم توحید کے تصور پر کھڑا ہوا ہے مگر ہندوئوں نے دو صدیوں میں سکھوں کا یہ حال کردیا ہے کہ وہ ہندوازم کی شاخ محسوس ہوتے ہیں مگر برصغیر کے مسلمانوں نے ہندوستان میں اپنا جداگانہ تشخص برقرار رکھا۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہوئی کہ انہوں نے کروڑوں ہندوئوں کو مشرف بہ اسلام کر ڈالا۔ آج برصغیر میں ایک ارب 20 کروڑ ہندو ہیں تو 65 کروڑ مسلمان بھی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان مسلمانوں کی عظیم اکثریت مقامی باشندوں پر مشتمل ہے۔ حد یہ ہوئی کہ انگریز گئے تو مسلمانوں نے پاکستان کے نام سے ایک الگ وطن بنانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ ہندو یہ سب کچھ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں تو ان کے دل و دماغ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت سے بھر جاتے ہیں۔