پاکستان کے حکمران:شاہنواز فاروقی

898

انسانی تاریخ میں ایسے بہت سے حکمران گزرے ہیں جن کی زندگی خدا مرکز تھی، رسول مرکز تھی، کتاب مرکز تھی، تہذیب مرکز تھی، تاریخ مرکز تھی، قانون مرکز تھی، قوم مرکز تھی۔ مگر پاکستان کے جرنیلوں اور سیاست دانوں کا نہ کوئی خدا ہے نہ کوئی رسول ہے، نہ کوئی کتاب ہے نہ کوئی تہذیب ہے، نہ کوئی تاریخ ہے نہ کوئی آئین ہے، نہ کوئی قانون ہے نہ کوئی قوم ہے۔
خدا پرست انسانوں کی ایک نشانی یہ بتائی گئی ہے کہ انہیں دیکھ کر خدا یاد آجاتا ہے مگر پاکستان کے جرنیلوں اور سیاست دانوں کو دیکھ کر رحمن کے بجائے شیطان یاد آجاتا ہے۔ سیدنا عمرؓ پر اتنا خوف خدا طاری ہوتا تھا کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ کاش میں عمر کے بجائے ایک تنکا ہوتا۔ بابر ایک عام بادشاہ تھا مگر ہندوستان فتح کرتے ہوئے اس کا سر بھی خدا کے سامنے جھک گیا۔ بابر ہندوستان فتح کرنے آیا تھا تو اس کے پاس صرف آٹھ ہزار فوجی تھے اور اس کے سامنے ایک لاکھ کا لشکر تھا۔ بابر کئی دن تک دادِ شجاعت دیتا رہا مگر اسے فتح نصیب نہ ہوئی۔ تب بابر کو اپنے کردار کی ایک بڑی خامی یاد آئی۔ بابر مسلمان تھا مگر وہ شراب پیتا تھا۔ چناں چہ اس نے خدا کے حضور گڑگڑاکر دعا کی کہ اگر اسے فتح نصیب ہوگئی تو وہ کبھی شراب کو ہاتھ نہیں لگائے گا۔ اس کی دعا کے اگلے روز ہی بابر کا چھوٹا سا لشکر ایک لاکھ حریفوں پر غالب آگیا۔ لیکن یہ ایک معمولی بات تھی۔ بابر کی زندگی میں اس سے بھی بڑا واقعہ رونما ہوا۔ بابر کا بیٹا ہمایوں سخت بیمار پڑ گیا۔ اسے کسی دوا سے شفا میسر نہیں آرہی تھی۔ اس صورتِ حال میں بابر نے ہمایوں کے بستر کے سات چکر کاٹے اور خدا سے دعا کی کہ ہمایوں کو صحت عطا فرمادے اور اس کی جگہ میری زندگی لے لے۔ اس دعاکے تھوڑی ہی دیر بعد ہمایوں کی طبیعت سنبھلنے لگی اور بابر کی طبیعت خراب ہوگئی۔ چند ہی دن میں ہمایوں صحت یاب ہوگیا اور بابر انتقال کرگیا۔ بادشاہوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں خود سے اور اپنے اقتدار سے محبت ہوتی ہے۔ ان کے لیے قوم کیا ان کے ماں باپ، بہن بھائی اور آل اولاد بھی اہم نہیں ہوتے۔ مگر بابر خدا کے سامنے جھک گیا اور اس نے اپنی جان دے کر اپنے بیٹے کی جان بچالی۔ لیکن پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کی زندگی سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ ان کے لیے خدا اہم ہے۔ 1971ء میں پاکستان ٹوٹ رہا تھا تو
جنرل یحییٰ کو خیال بھی نہیں آیا ہوگا کہ وہ خدا کے حضور گڑگڑا کر کہیں کہ میں عورت اور شراب کو ترک کرتا ہوں، مگر اے خدا تو میرا ملک بچا لے۔ جنرل ایوب ہوں یا جنرل یحییٰ، جنرل پرویز مشرف ہوں یا ذوالفقار علی بھٹو، میاں نواز شریف ہوں یا بے نظیر بھٹو ان کی زندگی سے خدا تلاش کرکے نہیں دکھایا جاسکتا۔ جرنیلوں کی زندگی میں اگر خدا ہوتا تو وہ کبھی غاصب اور آمر بن کر نہ اُبھرتے۔ میاں نواز شریف اور آصف زرداری کی زندگی میں اگر خدا ہوتا تو وہ کبھی بدعنوان نہ ہوتے، وہ کبھی لوٹ مار کرنے والے نہ ہوتے۔
ایک مسلمان کے لیے صرف خدا کے سامنے جواب دہی کا احساس ہی اہم نہیں۔ ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ وہ رسول اکرمؐ کا امتی ہے اور میدان حشر میں جب اس کا حساب ہورہا ہوگا تو اس کا سامنا رسول اکرمؐ سے بھی ہوگا۔ علامہ اقبال کے لیے یہ بات اتنی اہم تھی کہ انہوں نے اپنے اشعار میں خدا سے التجا کی ہے کہ اگر میدان حشر میں میرے حساب کتاب کی نوبت آہی جائے تو یہ حساب کتاب رسول اکرمؐ کے سامنے نہ لینا۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں کے لیے رسول اکرمؐ کے سامنے حاضری کا سوال سرے سے اہم نہیں ہے۔ انہیں جس طرح خدا کے سامنے حاضر ہونے کا یقین نہیں ہے اسی طرح انہیں رسول اکرمؐ کے روبرو ہونے کا خیال بھی لاحق نہیں ہے۔ چنانچہ انہوںنے پاکستان میں ظلم و جبر کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ مسلمانوں کے لیے رسول اکرمؐ سے وفاداری اتنی اہم ہے کہ اقبال نے جواب شکوہ میں خدا کی زبان سے کہلوا دیا ہے کہ خدا کے بعد ہمارے لیے رسول اکرمؐ سے وفاداری ہی سب کچھ ہے۔ اقبال کا شعر یہ ہے۔
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
یہاں رسول اکرمؐ کے ساتھ وفا کا مفہوم رسول اکرمؐ کا کامل اتباع ہے۔ مسلمان جب تک رسول اکرمؐ کا کامل اتباع کرتے رہے پوری دنیا ان کے آگے سرنگوں رہی مگر جب مسلمانوں نے رسول اکرمؐ کا کامل اتباع ترک کردیا تو مسلمان ذلیل و خوار ہو کر رہ گئے۔ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں کے ذلیل و خوار ہونے کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ ایک جانب وہ امریکا اور یورپ کے غلام ہیں، دوسری جانب وہ بھارت اور اسرائیل کے ہاتھوں پٹ رہے ہیں۔ تیسری جانب ان کی قوموں کی نظر میں ان کی کوئی توقیر نہیں۔ چوتھی جانب وہ نفس کی خواہشات کو خدا بنائے ہوئے ہیں۔ پانچویں جانب شیطان انہیں وسوسوں میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ مسلمان اگر اپنے نبیؐ کے وفادار ہوتے تو مغربی دنیا میں تواتر کے ساتھ توہین رسالت کی وارداتیں نہیں ہوسکتی تھیں۔ مسلمانوں کے لیے رسول اکرمؐ کی توہین اتنی بڑی بات ہے کہ اس کے ردعمل میں اگر تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے تو یہ ایک معمولی واقعہ ہوگا۔ امت مسلمہ اگر رسول اکرمؐ کی عزت و وقار کا دفاع نہیں کرسکتی تو ایسی امت کو دنیا میں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ مگر مسلم دنیا بالخصوص اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے پاکستان کے حکمرانوں نے آج تک اپنے نبیؐ کی حرمت کا دفاع کرکے نہیں دکھایا۔
مسلمانوں کے لیے صرف خدا مرکز اور رسول مرکز ہونا ہی اہم نہیں ان کے لیے قرآن مرکز ہونا بھی زندگی اور موت کا معاملہ ہے۔ مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے گزشتہ 76 سال میں کبھی پاکستان کو قرآن مرکز بنانے کی کوشش نہیں کی۔ قرآن کہتا ہے کہ سود خدا اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ ہے مگر پاکستان کے فوجی اور سول حکمران سود کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں۔ جنرل ایوب کا سود سے وابستگی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے ڈاکٹر فضل الرحمن سے سود کو حلال قرار دلوایا۔ شریعت کورٹ نے سود کو حرام قرار دیا تو میاں نواز شریف اس فیصلے کے خلاف اپیل لے کر کھڑے ہوگئے۔ قرآن کہتا ہے کہ یہ دنیا تو متاع قلیل ہے اور اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں نے پوری قوم کو دنیا کا کتا بنا کر کھڑا کردیا ہے۔ اس وقت پوری پاکستانی قوم کی زندگی یا تو طاقت مرکز ہے یا دولت مرکز۔ اسلام کہتا ہے فضیلت صرف دو چیزوں میں ہے۔ تقوے میں یا علم میں مگر معاشرے میں تقوے اور علم کا کوئی چاہنے والا نہیں۔ پورا معاشرہ صرف طاقت اور دولت پر رال ٹپکا رہا ہے۔ والدین بچوں سے کہہ رہے ہیں کہ بیٹا دنیا کمائو۔ اساتذہ بچوں کو دنیا پرست بنا رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ پورے معاشرے کو دنیا پرستی میں مبتلا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے ڈیڑھ سو سال پہلے کہا تھا۔
نہیں کچھ اس کی پرسش الفتِ اللہ کتنی ہے
سبھی یہ پوچھتے ہیں آپ کی تنخواہ کتنی ہے
اکبر کے زمانے میں تنخواہ کے جنون کا آغاز تھا آج ہمارے سامنے اس جنون کا عروج ہے۔ قرآن مسلمانوں سے کہتا ہے کہ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ پاکستان کا حکمران طبقہ قوم کو صوبے، زبان اور فرقے و مسلک کی بنیاد پر تقسیم کررہا ہے۔ میاں نواز شریف کہنے کو ’’مسلمان‘‘ اور ’’پاکستانی‘‘ ہیں مگر اصل میں وہ صرف پنجابی ہیں۔ انہوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست کے دور میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا تھا۔ آج بھی میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کی سیاست پنجاب سے شروع ہوتی ہے، پنجاب میں آگے بڑھتی ہے اور پنجاب میں ختم ہوجاتی ہے۔ بھٹو خاندان پنجاب اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کو ایک وفاقی جماعت کے طور پر پیش کرتا ہے مگر سندھ کے دائرے میں آتے ہی پیپلز پارٹی صرف سندھی پارٹی بن کر رہ جاتی ہے۔ جہاں تک جرنیلوں کا تعلق ہے انہوں نے خود فوج کو ایک ’’فرقہ‘‘ بنادیا ہے۔ ’’حکمران فرقہ‘‘۔ دنیا میں ملک ہیں اور ان کے پاس فوج ہے مگر پاکستان میں فوج ہے جس کے پاس ایک ملک ہے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ تحریک پاکستان اور تخلیق پاکستان میں جرنیلوں اور فوج کا کوئی کردار ہی نہیں تھا اس لیے کہ اس وقت جرنیل اور فوج موجود ہی نہیں تھی۔ مگر اب جرنیل اور فوج پورے ملک کے مالک بن کر کھڑے ہوگئے ہیں۔
ساری جدید دنیا میں معاشرہ آئین اور قانون کی پاسداری کرتا ہے مگر ہمارے یہاں جو فوجی آمر آتا ہے آئین کا تیاپانچہ کرکے رکھ دیتا ہے۔ جنرل ایوب نے 1956ء کے آئین کو اٹھا کر ایک طرف پھینک دیا۔ جنرل ضیا الحق نے 1973ء کے آئین کو معطل کرکے رکھ دیا۔ بدقسمتی سے ملک کی اعلیٰ عدالتیں فوجی آمروں کی خواہش کے مطابق فیصلے کرتی رہی ہیں، اس کا ثبوت یہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے تمام فوجی آمروں کے اقتدار کو تحفظ مہیا کیا، یہ حقائق بتاتے ہیں کہ پاکستان کے حکمرانوں جیسے حکمران دنیا میں کہیں موجود نہیں۔