احتجاج کے سیلاب بننے سے پہلے مسئلہ حل کرلیں

779

ملک بھر میں بھاری بجلی بلوں کے خلاف احتجاج اب باقاعدہ تحریک بنتا جارہا ہے اور ایک منظم ہڑتال تک بات جا پہنچی ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کیا دو تین روزہ احتجاج اور ہڑتال سے یہ مسئلہ حل ہوسکے گا۔ خصوصاً اس صورت میں کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں ملک کا کنٹرول ہے وہ ان باتوں سے بالکل بے پروا ہیں کہ عوام پر کیا گزرتی ہے۔ یہ لوگ پانچ پانچ سال اسمبلیوں اور حکومتوں میں رہتے ہیں وار اس عرصے میں صرف اپنی مراعات میں اضافے اور اس کی توثیق کے لیے محنت کرتے ہیں۔ عوام کے مسائل اپنی جگہ رہ جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ سے اُٹھی اور اب ایک سندھی قوم پرست پارٹی کا روپ دھار چکی ہے لیکن پورے سندھ کا کوئی ایک شہر ماڈل شہر کے طور پر نہیں پیش کیا جاسکتا کہ اس کو عوام کے لیے مثالی بنادیا گیا ہے۔ اب جبکہ نگراں حکومتیں برسراقتدار ہیں بجلی کے نرخوں میں بے تحاشا اضافے اور عوام پر دبائو کے اثرات سامنے آرہے ہیں۔ اگرچہ اس کی ذمے دار نگراں حکومت نہیں لیکن یہ تو ہونا تھا ابھی گھیرائو ہوا ہے بجلی کے بل جلے ہیں کچھ مارپیٹ اور مقدمے بازی ہوئی ہے لیکن اگر فوری طور پر کوئی اقدام نہیں کیا گیا تو یہ احتجاج بے قابو ہوجائے گا۔ پھر کسی کو بھی الزام دیا جائے لیکن مشتعل ہجوم کسی کی نہیں سنتا جب شدید حبس کے بعد طوفانی بارش ہوتی ہے تو زبردست سیلاب آتا ہے، بڑے بڑے بھاری درخت زمین بوس ہوجاتے ہیں اور پانی میں تنکوں کی طرح بہتینظر آتے ہیں۔ یہ چیز صرف پاکستان میں نہیں دنیا بھر میں دیکھی گئی ہے۔ بڑے بڑے طاقتور حکمران آہنی پردے والا روس اور نسل پر فخر کرنے والا جرمنی یہ سب اس غضب کی لپیٹ میں آئے۔ حال ہی میں فرانس کے مہذب لوگوں نے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ یہ فرانسیسی مہذب لوگ تو پہلے بھی جب سڑکوں پر نکلے تو قبروں سے مردے نکال نکال کر پھانسیاں دی تھیں۔ اگر پاکستان میں بجلی، گیس، پٹرول، بیروزگاری، امن وامان جیسے مسائل ہوں، حکمران طبقے کی عیاشیاں بڑھتی جائیں اور غریب مزید پستے رہیں تو کیا عجب کہ پاکستان میں بھی کوئی اسی طرح کا ردعمل آجائے، پھر ایسے سیلابوں کو اپنی مرضی سے کوئی رخ نہیں دیا جاسکتا۔ لوگ جس طرف چاہتے ہیں رخ کرتے ہیں ایسے مواقعے پر روٹی اور روزگار سے محروم لوگ کسی گھر میں گھسنے سے قبل اس کا بورڈ نہیں پڑھتے کہ کون سا ہائوس ہے، ایسے سیلاب میں سارے چھوٹے بڑے ہائوس بہہ نکلتے ہیں، کچھ بچے گا تو غداری کے مقدمات بھی بنالیے جائیں گے اور معافیاں بھی منگوالی جائیں گی لیکن نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کسی بھی وقت آگ بھڑک اٹھے ایک جانب جماعت اسلامی پاکستان نے اس مہنگائی اور ناانصافی کے خلاف مہم شروع کررکھی ہے۔ جماعت اسلامی کراچی نے تو آل پارٹیز مشاورتی اجلاس بلا کر بجلی کے بلوں کو مسترد کردیا ہے اور ہڑتال کی تاریخ کے اعلان کا اختیار حافظ نعیم الرحمن کو دے دیا گیاہے۔ ممکن ہے حکمراں اس سے بھی حرکت میں نہ آئیں اور ہڑتال ہو بھی جائے۔ لیکن کب تک سیاسی جماعتیں اس احتجاج کو جمہوری راستے پر رکھ سکیں گی۔ جب گھر میں روٹی نہ ہو، بجلی کاٹی جارہی ہو، پٹرول کے پیسے جیب میں نہ ہوں تو آدمی چوری بھی کرسکتا ہے، گردہ بھی بیچ سکتا ہے اور اپنے پیٹ کی خاطر کچھ بھی کرسکتا ہے۔ لیکن اگر حکمرانوں نے سنجیدگی سے معاملے کو حل کرنے کی کوشش نہ کی تو یہ ردعمل کوئی بھی رخ اختیار کرسکتا ہے۔ جماعت اسلامی ہی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد نے نگراں وزیراعظم کے سامنے مسئلے کے حل کے لیے چار اقدامات کی تجویز دی ہے۔ اول یہ کہ بجلی کے بلوں میں تمام ظالمانہ ٹیکس ختم کیے جائیں۔ دوسرے یہ کہ اربوں روپے کی مفت بجلی بند کی جائے۔ انہوں نے ججز، جرنیلوں، افسر شاہی، واپڈا ملازمین اور پارلیمنٹرینز سب کی مفت بجلی بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تیسری تجویز دی ہے کہ نجی پاور کمپنیوں سے معاہدے منسوخ کرکے ان کے خلاف ایف آئی آر کاٹی جائے۔ فرنس آئل اور درآمد شدہ کوئلے سے بجلی تیار کرنے پر پابندی لگائی جائے اور چوتھی اور اہم ترین بات بجلی کی چوری واپڈا اور دیگر بجلی کمپنیوں کے اہلکاروں کے تعاون سے ہوتی ہے اسے روکا جائے۔ معلوم نہیں نگراں وزیراعظم جنہوں نے احتجاج کا نوٹس لیا ہے وہ مسئلہ حل کرنے کے لیے کیا ہے یا احتجاج کرنے والوں کو فکس کرنے کے لیے، لیکن اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ نگراں حکومت ان چاروں میں سے کوئی کام کرلے گی۔ اگر کوئی ایک کام بھی کرلیا تو شاید عوام میں کوئی نرمی پیدا ہوجائے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 520 ارب روپے کی بجلی سالانہ چوری اور ضائع ہوجاتی ہے۔ اس پر مراعات یافتہ طبقے کو مفت بجلی اور سبسڈی دی جاتی ہے، نجی پاور کمپنیاں ایک ہزار ارب روپے سالانہ منافع کما رہی ہیں۔ کیا وجہ ہے کہ لائن لاسز کے نام پر اربوں روپے کی بجلی ضائع ہونے دی جاتی ہے۔ آسان ترین کام عوام پر بوجھ منتقل کرنا ہے۔ ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ سولر انرجی کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں، بلڈنگ کوڈ میں نئی عمارت کے لیے سولر انرجی لگانا لازمی کردیا جائے۔ پانی، ہوا اور سورج کی روشنی کا فائدہ عوام کو کیوں نہیں پہنچایا جاتا۔ دیکھنا یہ ہے کہ نگراں اور آنے والے اور اصل حکمراں کسی عوامی طوفان کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرتے ہیں یا عوام کو سہولت دینے کا فیصلہ۔ دونوں میں مشکل ہے لیکن عوام کو راحت پہنچانے میں ملک کی ترقی بھی ہے اور آسانیاں بھی۔