کیا ہم غلام قوم نہیں ہیں؟

805

شاعر نے کہا ہے
خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے
غامدی صاحب کے شاگرد رشید خورشید ندیم کا معاملہ بھی یہی ہے۔ وہ اپنے کالموں میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ باور کراتے رہتے ہیں۔ اپنے تازہ ترین کالم میں انہوں نے فرمایا ہے کہ سیکولر ازم کا مفہوم لادینیت نہیں ہے۔ اس سے بھی بڑا جھوٹ انہوں نے یہ بولا ہے کہ پاکستان یا پاکستانی قوم غلام نہیں ہے۔ خورشید ندیم نے اس سلسلے میں کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
اصطلاحیں وقت کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔ فیشن کے مطابق نئے معانی اوڑھ لیتی ہیں۔ ان کا مفہوم استعمال سے طے ہوتا ہے‘ لغت سے نہیں۔
’’سیکولر ازم‘‘ کے معانی لوگ لغت میں دیکھتے اور اس کا ترجمہ ’’لادینیت‘‘ کرتے ہیں‘ درآں حالیکہ یہ اصطلاح کب سے لغت سے اُٹھ چکی۔ یورپ میں اس کا ملبوس وہاں کے سیاسی موسم اور تاریخ کے مطابق ہے۔ امریکا میں یہ امریکی فیشن کے لحاظ سے نئے معانی کا لباس پہن لیتا ہے۔ سیاسیات کے ماہرین سے آپ پوچھیں تو وہ بتائیں گے کہ یورپین سیکولر ازم اور امریکن سیکولر ازم کیسے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
یہی معاملہ ’’غلامی‘‘ ا ور ’’آزادی‘‘ کا ہے۔ یہ الفاظ جب لغت کا حصہ بنے تو غلامی کا ایک مفہوم مستعمل تھا۔ انسان کو افرادی طور پر غلام بنایا جاتا تھا اور اجتماعی حیثیت میں بھی۔ غلامی کو ایک سماجی قدر کے طور پر قبول کیا گیا تھا۔ غلاموں کی منڈیاں لگتی تھیں۔ دیگر اجناس کی طرح ان کی قیمت طے ہوتی تھی۔ مرد بکتے تھے اور عورتیں بھی۔ غلامی انسانی تہذیب میں اس طرح رچ بس گئی تھی کہ اسلام جیسے حریت پسند مذہب کو بھی اس کے خاتمے کے لیے تدریج کا طریقہ اختیارکرنا پڑا۔ مسلم معاشرے میں بھی یہ صدیوں تک باقی رہی۔ فقہ کی کتابوں میں ان کے حقوق و فرائض کو شریعت کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ گویا یہ مانا گیا ہے کہ شریعت اس کو امرِ واقعہ کے طور پر قبول کر رہی ہے۔ علما کا ایک طبقہ آج بھی غلامی کو جائز سمجھتا ہے۔
غلام‘ حیاتیاتی اعتبار سے انسانوں کی ایک قسم تھی لیکن سماجی اعتبار سے حیوانوں کی۔ ان کو مویشیوں کی طرح خریدا جاتا تھا۔ افریقا کے لوگوں کی تجارت بہت پرانا واقعہ نہیں۔ یورپ اور امریکا میں کالوں کو غلام سمجھا گیا اور ان کے ساتھ جو ظلم روا رکھا گیا‘ اس پر تاریخ‘ ادب اور آرٹ گواہ ہیں۔ دنیا کے ہر معاشرے میں عورتوں کو جنسی مقاصد کے لیے خریدا جاتا تھا اور اسے مذہب کی تائید حاصل تھی اور سماج کی بھی۔
آج غلامی کا یہ ادارہ ختم ہو چکا۔ غلامی کو ایک جرم سمجھا جاتا ہے۔ یہ انسانی مساوات کا دور ہے۔ اب قانونی اور سماجی حوالے سے کالے اور گورے میں کوئی تمیز نہیں۔ مرد اور عورت میں بھی نہیں۔ اسلام نے اس کا خاتمہ کیا اور جدید مغرب میں بھی غلامی ایک جرم ہے۔ قومیں بھی بیسویں صدی میں آزاد ہو گئیں۔ حق ِ خود ارادیت کو بطور اصول مان لیا گیا ہے۔ ماضی کی طرح کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ طاقت کے زور پر کسی قوم کو مغلوب بنا لے۔ جو سرحد بیسویں صد ی میں طے ہوگئی‘ اس کی حفاظت عالمی برادری کی ذمہ داری قرار پائی۔
دورِ جدید کے سیاسی نظم میں غلامی کا کوئی تصور نہیں ہے‘ تاہم قوموں کے باہمی تعلقات نے ایک نئی صورت اختیار کر لی ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے دو الفاظ اہم ہیں۔ ایک انحصار اور دوسرا مسابقت۔ اب قومیں مجبور ہیں کہ ایک دوسرے پر انحصار کریں۔ امریکا جیسی سپر پاور بھی 1979ء میں پاکستان پر انحصار کرنے پر مجبور ہوئی۔ اْسے بادلِ نخواستہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے آنکھیں بند کرنا پڑیں۔ اگر اس کا پاکستان پر انحصار نہ ہوتا تو وہ ہمیں کبھی اس کی اجازت نہ دیتا۔ اسی طرح یہ مسابقت کا دور ہے۔ جو قوم زیادہ محنت کرے گی‘ اس کے لیے ترقی کے دروازے کھلتے چلے جائیں گے۔ اگر وہ خود نہ چاہے تو کوئی اسے محکوم نہیں بنا سکتا۔ حالیہ تاریخ میں جاپان اور چین اس کی مثالیں ہیں۔ ہم ملائیشیا اور ترکیہ کو بھی اس فہرست میں شامل کر سکتے ہیں۔
پاکستان اللہ کے فضل وکرم سے کسی کا غلام نہیں ہے‘ تاہم وہ دوسری اقوام پر انحصار پر مجبور ہے۔ یہ انحصار بالجبر نہیں ہے۔ یہ ہماری اپنی کمزوریوں‘ نااہلی اور بے بصیرتی کا نتیجہ ہے۔ آزاد قوم بھی جب ان میں مبتلا ہو جائے گی تو دوسروں پر اس کا انحصار بڑھ جائے گا اور وہ آہستہ آہستہ سب کچھ گروی رکھ دے گی۔ اسی طرح اگر وہ مسابقت کے میدان میں ہار جائے گی تو یہ بھی ایک داخلی عمل ہے جس کا الزام دوسروں کو نہیں دیا جا سکتا۔ (روزنامہ دنیا، 15 اگست 2023)
خورشید ندیم کا دعویٰ ہے کہ سیکولر ازم کا مطلب لادینیت نہیں اور سیکولرازم کی اصطلاح ان کے الفاظ میں لغت سے اُٹھ چکی ہے۔ اس بات کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ اب لغت میں سیکولر ازم کے معنی لادینیت درج نہیں ہیں۔ اس بات کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اب سیکولر ازم سے علمی دائرے میں لادینیت مراد نہیں لی جاتی اور اب سیکولر ازم کی اصطلاح لغت سے بلند ہوگئی ہے۔ اتفاق سے یہ بات دونوں معنوں میں غلط ہے۔
جہاں تک سیکولر ازم کی اصطلاح کے لغوی معنوں کا تعلق ہے تو سیکولر لاطینی لفظ Seculum سے نکلا ہے اور اس لفظ کے مفہوم میں وقت (Time) اور مقام (Location) کے معنی مضمر ہیں۔ وقت کا حوالہ یہاں موجود یا present سے مربوط ہے اور مقام کا حوالہ ’’دنیا‘‘ ہے۔ اس اعتبار سے سیکولر کے معنی ’’دنیاوی‘‘ یا دنیا سے متعلق ہیں اور یہ ایسی بات ہے جس پر مغربی دنیا میں ہولناک حد تک اتفاق پایا جاتا ہے اور اس بات کو مغرب میں ایک عقیدے کی حیثیت حاصل ہے۔ معلوم نہیں خورشید ندیم نے ایسی کون سی لغت دیکھ لی جس میں سیکولر ازم کے معنی لادینیت نہیں ہیں۔ ہمارے سامنے اس وقت مغرب کی سب سے معتبر لغت ’’اوکسفرڈ ایڈوانس لرنرز ڈکشنری‘‘ رکھی ہوئی ہے۔ اس کے صفحہ 1062 پر لفظ سیکولر ازم کا جو مفہوم لکھا ہوا ہے وہ یہ ہے۔
Not Concerned With Spritual Or relegious off airs, of this world
اس لغت میں اسی صفحے پر لفظ ’’سیکولر ازم‘‘ کا یہ مفہوم لکھا ہوا ہے۔
The belief that laws, education, etc should be based on facts, Science etc, rather than religion.
اس لغت میں لفظ ’’سیکولرازم‘‘ کے یہ معنی لکھے ہوئے ہیں۔
To make some thing Secular, to remove some thing from control of the church
ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ لغت میں سیکولر ازم کے معنی لادینیت ہی ہیں اور خورشید ندیم نے اس کے برعکس بات کہہ کر لاعلم لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی ہے۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ مغرب کے دانش ور اس حوالے سے کیا کہتے ہیں۔
کورنلس وین پیورسن مغرب کے ممتاز دانش ور تھے اور انہیں سیکولر ازم پر اتھارٹی سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے اپنی تصنیف Secular city میں سیکولرائزیشن کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے۔
’’سیکولرائزیشن کا مفہوم انسان کو مذہب سے نجات دلانا اور بعدازاں عقل اور زبان کو مابعد الطبیعاتی کنٹرول سے آزاد کرنا ہے‘‘۔
اسی کتاب میں ایک اور جگہ لکھا ہے۔
’’سیکولرائزیشن نہ صرف سیاسی اور سماجی زندگی پر محیط ہے بلکہ یہ کلچر کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ کیونکہ سیکولرازم ثقافتی ارتباط کی علامتوں کے مذہبی حوالوں کو تحلیل کردیتا ہے‘‘۔
اب آئیے اصل موضوع کی طرف۔ خورشید ندیم کا دعویٰ ہے کہ پاکستان ایک آزاد ملک اور پاکستانی قوم ایک آزاد قوم ہے۔ بلکہ دراصل پوری دنیا ہی آزاد ہوچکی ہے۔ غلامی کا ادارہ ختم ہوچکا ہے اور ’’مساوات‘‘ کو عالمگیر تصور یا قدر کا درجہ حاصل ہوگیا ہے۔ اب دنیا میں مسئلہ صرف ’’انحصار‘‘ اور ’’مسابقت‘‘ کا ہے۔
پاکستان کی بنیادی حقیقت یہ ہے کہ ہم زندگی کے ہر دائرے میں امریکا اور یورپ کے غلام ہیں۔ ہمارا سیاسی نظام مغرب سے آیا ہے، ہمارے یہاں مارشل لا لگتا ہے تو امریکا کی مرضی سے، جمہوریت بحال ہوتی ہے تو امریکی مطالبے پر۔ پاکستان کا کوئی سیاسی رہنما ایسا نہیں ہے جو قوم کو امریکا کی گڈ بکس میں شامل کرنے کے لیے جان نہ مارتا ہو۔ جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کو سعودی عرب جانے کی اجازت دی تو آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے ایک بیان میں فرمایا کہ امریکا اپنے آدمی کو نکال کر لے گیا۔ جنرل پرویز اور بے نظیر بھٹو کے درمیان این آر او ہوا تو امریکا کی قومی سلامتی کی مشیر کونڈا لیزا رائس اس کی نگرانی کررہی تھیں۔ یہ بات کونڈا لیزا رائس نے اپنی خودنوشت میں لکھی ہے۔ خورشید ندیم کا کہنا ہے کہ اب مسئلہ غلامی کا نہیں دوسری قوموں پر انحصار کا ہے۔ یہ ایک سو فی صد غلط تجزیہ ہے۔ اگر یہ تجزیہ صحیح ہے تو خورشید ندیم بتائیں کہ جنرل ایوب 1954ء سے امریکا کے ساتھ خفیہ رابطہ کیوں استوار کیے ہوئے تھے۔
اس وقت نہ ہم امریکا کے اتحادی تھے نہ ہم نے عالمی بینک اور آئی ایم ایف سے قرض لیا تھا۔ امریکا کی خفیہ دستاویزات کے مطابق جنرل ایوب امریکیوں کو خفیہ مراسلوں کے ذریعے بتا رہے تھے کہ پاکستانی سیاست دان نااہل ہیں اور وہ ملک تباہ کردیں گے لیکن فوج انہیں ایسا نہیں کرنے دے گی۔ جنرل ایوب ان مراسلوں کے ذریعے دراصل اپنے مارشل لا کی راہ ہموار کررہے تھے اور امریکا کی آشیرباد کے بغیر وہ ہرگز مارشل لا نہیں لگا سکتے تھے۔ ہماری غلامی کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جنرل ایوب نے سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں پر دستخط کرکے خود کو امریکی کیمپ سے وابستہ کرلیا۔ انہوں نے امریکی غلامی کے جذبے سے سرشار ہو کر امریکا کو بڈھ بیر میں ہوائی اڈا فراہم کردیا۔ اس اڈے سے امریکا سوویت یونین کی جاسوسی کرتا تھا۔ جنرل ایوب کے دور میں امریکا کی غلامی اتنی بڑھی کہ خود جنرل ایوب کو اس کا شدید احساس ہوا اور انہوں نے الطاف گوہر سے ’’فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھوائی اور اس کتاب کے ذریعے انہوں نے یہ تاثر دیا کہ ہم امریکا کے دوست ہیں اس کے غلام نہیں۔ جنرل ضیا الحق کا مارشل لا امریکی سرپرستی کا شاخسانہ تھا اور اس کا مقصد ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹمی پروگرام شروع کرنے کی سزا دینا تھا۔ جنرل پرویز کی تاریخ تو گویا گزرے ہوئے کل کی تاریخ ہے، نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف نے صرف ایک ٹیلی فون کال پر پورا ملک امریکا کے حوالے کردیا۔ انہوں نے ملک کے تین چار ہوائی اڈے امریکا کو سونپ دیے۔ انہوں نے کراچی کی پوری بندرگاہ امریکا کے حوالے کردی۔ جن طالبان کو پاکستانی جرنیل اپنے بچے کہا کرتے تھے انہیں پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کیا گیا۔ یہ امریکا کی غلامی نہیں تو کیا تھی؟۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ پاکستان کی پوری معیشت آئی ایم ایف کی مٹھی میں ہے۔ ہمارا بجٹ ہم خود نہیں بناتے آئی ایم ایف بناتا ہے، کس شعبے پر کتنے محصولات لگیں گے اس بات کا فیصلہ ہم نہیں کرتے آئی ایم ایف کرتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ آئی ایم ایف ہی طے کرتا ہے کہ ملک میں پٹرول اور ڈیزل کے نرخ کیا ہوں گے۔ کیا یہ امریکا کی غلامی نہیں ہے؟ بدقسمتی سے یہ صرف پاکستان کا معاملہ نہیں پورا عالم اسلام مغرب کا غلام ہے۔ ایران میں انقلاب آیا تھا تو مغرب کہتا تھا اسلام طاقت کے زور سے اقتدار میں آسکتا ہے، جمہوری طریقے سے نہیں۔ مگر الجزائر میں اسلامی فرنٹ نے انتخابات کے پہلے مرحلے میں دو تہائی اکثریت حاصل کرلی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغرب نے الجزائر کی فوج کو پاگل کتے کی طرح اسلامی فرنٹ پر چھوڑ دیا۔ الجزائر میں خانہ جنگی شروع ہوگئی جو دس سال میں دس لاکھ لوگوں کو نگل گئی۔ مصر میں اخوان نے بڑی جمہوری کامیابی حاصل کی اور وہ حکومت بنانے میں کامیاب رہے۔ یہاں بھی امریکا نے مصر کی فوج کو پاگل کتے کی طرح اخوانیوں پر چھوڑ دیا۔ مصر کی فوج نے چند دن میں سات آٹھ ہزار اخوانیوں کو شہید کردیا۔ پندرہ بیس ہزار کو جیلوں میں ٹھونس دیا۔ امریکا مصر کے اس خونیں منظرنامے کے مرکز میں کھڑا تھا۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ امریکا نے جنرل سیسی کے مارشل لا کو مارشل لا بھی قرار نہ دیا۔ امریکا ایسا کرتا تو اسے مصر میں اقتصادی پابندیاں لگانی پڑجاتیں۔ اخوان عرب دنیا کے مرکزی دھارے سے تعلق رکھتے تھے اور وہ جمہوریت پر کامل یقین رکھتے ہیں مگر اس کے باوجود امریکا نے انہیں عرب حکمرانوں کے ذریعے دہشت گرد بنا کر کھڑا کردیا۔ امریکا نے ترکی میں اردوان کے خلاف بھی فوجی بغاوت برپا کی مگر اردوان عوام میں مقبول تھے چناں چہ یہ بغاوت ناکام ہوگئی۔
خورشید ندیم کا دعویٰ ہے کہ اب دنیا میں مساوات قائم ہوچکی ہے۔ یہ ایک بڑا جھوٹ اور ایک بڑا دھوکا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت اقوام متحدہ کا ادارہ ہے۔ اقوام متحدہ کے دو حصے ہیں، جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل۔ جنرل اسمبلی صرف ’’ڈبیٹنگ فورم‘‘ ہے۔ اصل طاقت سلامتی کونسل کے پاس ہے۔ جہاں پانچ بڑی طاقتوں کو ویٹو پاور حاصل ہے۔ اسی ویٹو پاور کی وجہ سے آج تک مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین حل نہیں ہوسکا ہے۔ مغرب مساوات کا قائل ہوتا تو قوموں کی تقدیر کے فیصلے جنرل اسمبلی میں جمہوری اصول یا اکثریت کی بنیاد پر ہوتے۔ مغرب کی مساوات کی ایک جہت یہ ہے کہ دنیا میں ایک ’’فرسٹ ورلڈ‘‘ ہے، ایک ’’سیکنڈ ورلڈ‘‘ ہے اور ایک ’’تھرڈ ورلڈ‘‘ ہے۔ ان دنیائوں میں اصل اہمیت فرسٹ ورلڈ کی ہے۔ اس لیے کہ یہ دنیا ترقی یافتہ ہے، امیر ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ خورشید ندیم پاکستان کو آزاد کہتے ہیں مگر ہماری آزادی کا عالم یہ ہے کہ ہمارا سیاسی نظام مغرب سے آیا ہے، ہمارا معاشی نظام مغرب کی عطا ہے، ہمارے عدالتی نظام پر مغرب کی مہر لگی ہے، ہمارا لباس مغرب سے آیا ہوا ہے، ہماری غذائیں مغرب سے آرہی ہیں۔ یہاں تک کہ ہماری خواہشیں، ہماری آرزوئیں، ہماری تمنائیں اور ہمارے خواب تک مغرب سے آئے ہوئے ہیں۔ یہی آزادی ہے تو خدا پوری دنیا کو ایسی آزادی سے محفوظ رکھے۔