مسلمان اور مذہبی اقلیتیں

860

کراچی میں چرچ کی نمائندہ غزالہ رفیق اور معروف رقاصہ اور انسانی حقوق کی علمبردار شیما کرمانی نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایسا تاثر تخلیق کیا ہے کہ پاکستان میں مذہبی اقلیت بالخصوص عیسائیوں اور ہندوئوں پر بے انتہا ظلم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں پر منظم ظلم، امتیازی سلوک اور تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر روز مذہبی اقلیتوں کو ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عیسائی اور ہندو لڑکیوں کو طاقت کے زور پر مسلمان بنا کر مسلمان نوجوانوں سے شادی پر مجبور کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ توہین رسالت کے قانون کی وجہ سے اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس کی وجہ توہین رسالت کے قانون کا غلط استعمال ہے۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کو عصمت دری کی وارداتوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے مذہبی اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اقلیتوں کے تحفظ کے لیے ہر صوبے اور ہر ضلع میں خصوصی سیل قائم کیے جائیں۔ انہوں نے منتخب ایوانوں میں اقلیتوں کی خصوصی نشستوں میں اضافے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں یہاں تک کہ خفیہ ایجنسیوں میں اقلیتوں کا کوٹا مختص کرنے کا بھی کیا۔ (دی نیوز کراچی، 10 اگست 2023)
مسلمانوں کی تاریخ مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کی تاریخ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ قرآن مجید فرقان حمید اور خود رسول اکرمؐ کی سنت ہے۔ قرآن صاف کہتا ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ چناں چہ مسلمانوں نے تاریخ کے کسی بھی دور میں کسی عیسائی، یہودی یا ہندو کو اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حق کی قبولیت یا عدم قبولیت آزادانہ مرضی کا معاملہ ہے۔ جس کو لگے کہ اسلام حق ہے وہ اسلام قبول کرلے اور جس کو اسلام میں کوئی کشش محسوس نہ ہو وہ اپنے عقیدے پر قائم رہے۔ چناں چہ مسلمانوں نے بڑی بڑی سلطنتیں قائم کیں مگر کبھی مذہب کی تبدیلی کے لیے ریاستی قوت کو استعمال نہیں کیا۔ مسلمانوں نے اسپین کے وسیع علاقے پر 600 سال حکومت کی مگر انہوں نے کبھی مذہبی اقلیتوں کو تنگ نہیں کیا۔ چناں چہ مسلم اسپین میں یہودی اور عیسائی معاشرے کے بالائی طبقات کا حصہ تھے۔ وہ تاجر تھے، صنعت کار تھے، دربار سے وابستہ تھے، وہ فلسفی تھے، شاعر تھے، عالم تھے، اعلیٰ فوجی اور سول افسر تھے۔ برصغیر پر مسلمانوں نے ایک ہزار سال حکومت کی مگر انہوں نے کبھی ہندوئوں کو طاقت کے زور سے مسلمان بنانے کی معمولی سی کوشش بھی نہیں کی۔ محمد بن قاسم باہر سے آئے تھے۔ انہوں نے مقامی راجا داہر کو شکست دی تھی مگر انہوں نے مذہبی اقلیت کے ساتھ حسن سلوک کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ جب وہ واپس جانے لگے تو ہندو ان کی واپسی پر روتے ہوئے پائے گئے اور ہندوئوں نے محمد بن قاسم کے بڑے بڑے مجسمے بنا ڈالے۔ بلاشبہ ہندوستان میں اسلام بڑے پیمانے پر عام ہوا مگر اس کا سہرا صوفیا اور علما کے سر ہے۔ صوفیا اتنے وسیع المشرب تھے کہ جو ان کے پاس آتا تھا صوفیا رنگ و نسل اور مذہب سے قطع نظر اس کا خیر مقدم کرتے تھے اور اس کی مشکل کو دور کرنے کے لیے کوشاں ہوتے تھے۔ چناں چہ آج برصغیر میں 60 کروڑ سے زیادہ مسلمان موجود ہیں تو صوفیا اور علما کی وسیع المشربی کی وجہ سے۔ بعض لوگ مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہندوئوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا تھا مگر یہ محض پروپیگنڈہ ہے۔ اورنگ زیب عالمگیر کے دربار میں ہندو بڑے بڑے مناصب پر فائز تھے۔ اورنگ زیب کے دربار میں صرف فارسی ہی نہیں سنسکرت بھی بولی جاتی تھی۔ بلاشبہ اورنگ زیب نے ریاست کے خلاف سازشوں کے لیے بدنام مندروں کو منہدم کرایا مگر اس نے اپنی جیب خاص سے مندر تعمیر بھی کروائے۔ مسلمانوں کی وسیع المشربی اس امر سے ظاہر اور ثابت ہے کہ اگر مسلمانوں نے اپنے ایک ہزار سالہ دور حکومت میں ریاستی طاقت استعمال کی ہوتی تو آج ہندوستان میں ایک بھی ہندو نہ ہوتا۔ مسلمانوں کا زمانہ ذرائع ابلاغ اور بین الاقوامیت کا زمانہ نہیں تھا کہ مسلمانوں کے ظلم و زیادتی پر ہر طرف شور مچ جاتا۔ مگر مسلمانوں کو معلوم تھا کہ مذہب میں کوئی جبر نہیں ہے۔ خود رسول اکرمؐ کا اسوئہ حسنہ یہ ہے کہ آپ نے مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کو ایک قوم کہا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی مسلمانوں کی اس شاندار تاریخ کا امین ہے۔ چناں چہ اپنی چالیس سالہ شعوری زندگی میں ہمیں ایک پاکستانی مسلمان بھی ایسا نہیں ملا جو عیسائیوں اور ہندوئوں کے خلاف دل میں بغض رکھتا ہو اور جس کا یہ خیال ہو کہ ہمیں عیسائیوں اور ہندوئوں کو زبردستی مسلمان بنالینا چاہیے۔ ہمیں آج تک ایک پاکستانی مسلمان بھی ایسا نہیں ملا جو عیسائیوں اور ہندوئوں پر روزگار کے دروازے بند کردینا چاہتا ہو۔
بلاشبہ اندرونِ سندھ ہندو لڑکیاں مشرف بہ اسلام ہو کر مسلم نوجوانوں سے شادی کرتی رہتی ہیں مگر یہ عمل آزادانہ طرز فکر کا نتیجہ ہوتا ہے کسی زور زبردستی کا شاخسانہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہندو لڑکیاں کیوں مشرف بہ اسلام ہوتی اور مسلم نوجوانوں سے شادی کرتی ہیں؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ مسلم سماج میں عورت کا مقام ہندو سماج میں عورت کے مقام سے بلند تر ہے۔ ہندو سماج میں عورت کا نہ وراثت میں کوئی حصہ ہے نہ وہ خلع لے سکتی ہے۔ اس کے برعکس اسلام باپ کے وراثت میں بھی بیٹیوں کو حصے دار بناتا ہے اور شوہر کے ترکے میں بھی عورت کا حصہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر شادی میں مشکلات آجائیں اور بیوی کا شوہر کے ساتھ رہنا ناممکن ہوجائے تو اسلام عورت کو شوہر سے علیحدگی کے لیے خلع کا حق دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندو لڑکیاں اسلام اور مسلم نوجوانوں کو برتر خیال کرتے ہوئے مسلمان ہوتی اور مسلم نوجوانوں سے شادیاں کرتی ہیں۔ اس کی ایک بہت بڑی مثال خود بھارت ہے۔ بھارت کے مسلمان ہر اعتبار سے ایک مظلوم قوم ہیں۔ ان کی معاشی حالت ہندوئوں سے کہیں زیادہ خراب ہے۔ ان میں بیروزگاری عام ہے، بھارت کے مسلمان تعلیم کے میدان میں بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ اب بھارت میں مسلمانوں کا کوئی سیاسی وزن بھی نہیں رہ گیا ہے۔ اس کے باوجود ہر سال سیکڑوں ہندو لڑکیاں مسلمان لڑکوں سے شادیاں کرلیتی ہیں۔ بھارت کے انتہا پسند ہندوئوں کو اس حوالے سے اپنے سماج کی پستیوں کا خیال نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مسلمانوں پر Love Jihad شروع کرنے کا بھونڈا الزام لگاتے ہیں۔ حالاں کہ حقیقت صرف یہ ہے کہ ہندو لڑکیوں کو مسلمان لڑکے ہندو لڑکوں سے زیادہ مہذب اور شریف نظر آتے ہیں اور انہیں مسلم سماج ہندو سماج سے بہتر محسوس ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں مغربی دنیا کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ مغربی دنیا میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈا عروج پر ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ اسلام کا تعلق دہشت گردی، عدم رواداری، روحانی اور ذہنی پسماندگی سے جوڑتے ہیں۔ مغربی ذرائع ابلاغ کہتے ہیں کہ اسلام میں عورتوں کا تو کوئی مقام ہی نہیں۔ اس کے باوجود مغرب میں اسلام لانے والے لوگوں کا 60 فی صد خواتین پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ خواتین مسلم مردوں سے شادیاں کرتی ہیں اور شاندار زندگی بسر کرتی ہیں۔ بلاشبہ پاکستان میں لاکھوں عیسائیوں اور ہندوئوں کی زندگی قابل رشک نہیں ہوگی مگر یہ ایک عمومی صورتِ حال ہے معاشرے اور ریاست نے مذہبی اقلیتوں کی زندگی کو جہنم بنانے کے لیے کوئی خصوصی منصوبہ بنایا ہوا ہے نہ کوئی خصوصی مہم چلائی ہوئی ہے۔ اس وقت پاکستان میں دس کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں اور ان دس کروڑ افراد میں سے ساڑھے نو کروڑ افراد مسلمان ہیں ہندو یا عیسائی نہیں۔ اس وقت پاکستان میں ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں سے باہر کھڑے ہیں۔ ان بچوں میں سے سوا دو کروڑ بچے مسلمان ہیں۔ ہندو یا عیسائی نہیں۔
اس مسئلے کا ایک پہلو یہ ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان کے سیکولر، لبرل عناصر اپنی اصل میں اپنی اسلام اور اینٹی پاکستان ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ انہیں پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ نہ ہونے والے مظالم بھی نظر آجاتے ہیں وہ ان نظر نہ آنے والے مظالم پر نیوز کانفرنسز کرتے ہیں، جلوس نکالتے ہیں مگر انہیں دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ہولناک زیادتیاں نظر نہیں آتیں۔ بھارت میں 1947ء سے اب تک 93 ہزار مسلم کش فسادات ہوچکے ہیں مگر ہم نے رقاصہ شیما کرمانی کو کبھی بھارت کے خلاف نیوز کانفرنس کرتے اور جلوس نکالتے نہیں دیکھا۔ میانمر میں ہونے والے مسلم کش فسادات میں ہزاروں مسلمان شہید ہوگئے اور سات لاکھ برمیز مسلمان میانمر چھوڑ کر بنگلادیش میں آباد ہوگئے مگر ہم نے آج تک شیما کرمانی یا پاکستان کے کسی سیکولر اور لبرل حلقے کو اس صورتِ حال پر نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے اور جلسہ جلوس کرتے نہیں دیکھا۔ مغربی دنیا کے کئی ممالک میں مسلم خواتین کو اسکارف اوڑھنے سے روک دیا گیا ہے، انسانی حق کی اس ہولناک خلاف ورزی پر شیما کرمانی اور ان کے ہمنوائوں کا دل کبھی تڑپ کر پریس کانفرنس نہیں کرتا۔ کبھی جلسے جلوس کی طرف مائل نہیں ہوتا۔ حد تو یہ ہے کہ مغرب میں آئے دن توہین رسالت اور توہین قرآن کی وارداتیں ہورہی ہیں مگر شیما کرمانی اور ان کے سیکولر اور لبرل ہمنوائوں کو کبھی خیال نہیں آتا کہ آئو اس سلسلے میں بھی احتجاج کرتے ہیں۔ اس کی وجہ اور کچھ نہیں یہ ہے کہ ہمارے سیکولر اور لبرل عناصر اینٹی اسلام بھی ہیں، اینٹی پاکستان بھی اور اینٹی مسلمان بھی۔