تاجروں کا احتجاج

550

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد پہلے دورۂ کراچی میں صنعت کاروں اور تاجروں کے وفد سے بھی ملاقات کی ہے۔ انہوں نے تاجروں اور صنعت کاروں کے مسائل سننے اور اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ بجلی سستی کیے بغیر صنعتی ترقی ناممکن ہے۔ کاروباری طبقے کے مسائل ترجیحی طور پر حل کرانے کی یقین دہانی کراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم سے جو کچھ ہو سکا ہم کریں گے، نگراں حکومت مختصر مدت کے لیے صرف انتخابات کا مینڈیٹ لے کر آئی ہے، سابقہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت اپنی ڈیڑھ سالہ مدت میں مہنگائی کا ریکارڈ توڑ کر رخصت ہوئی ہے۔ سابقہ حکومت رخصت ہوتے ہوئے دو ایسے اقدامات کر کے گئی ہے جس کی وجہ سے تین مہینے کی مقررہ مدت میں انتخابات ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہے، سابق حکومت نے عجلت میں مردم شماری کے نتائج کی منظوری دے دی جب کہ مشترکہ مفادات کونسل میں دو صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اپنے صوبوں کے منتخب نمائندہ ہونے کے بجائے نگراں وزرائے اعلیٰ تھے، اسی طرح نگراں وزیراعظم کومعمول کے انتظامی فرائض کے ساتھ آئی ایم ایف سمیت عالمی اداروں اور ممالک سے معاہدہ کرنے کا اختیار بھی سپرد کر دیا۔ تمام سیاسی مبصرین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ عوام کے معاشی حالات کی تباہی اور جابرانہ استبدادی اقدامات کی وجہ سے یہ جماعتیں انتخابات میں عوامی ردعمل سے خوفزدہ ہیں، اسی کے ساتھ پاکستان میں غیرآئینی طور پر فیصلہ سازی کا اختیار حاصل کرنے والی اسٹیبلشمنٹ کو بھی یقین نہیں ہے کہ مرضی کے مطابق نتائج حاصل کر لیے جائیں گے۔ پاکستان میں انتخابی سیاسی ’’انجینئرنگ‘‘ اور ’’ڈاکٹرنگ‘‘ کا تجربہ اسٹیبلشمنٹ کو حاصل ہو گیا ہے، لیکن عوام کے حالات اتنے بدتر ہو چکے ہیں کہ مرضی کے نتائج حاصل کرنے کے بھی مضمرات ہوں گے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت نے ماضی میں استبدادی قوتوں کے خلاف مزاحمت کی کوئی روایت قائم نہیں کی اس لیے عوام کی تربیت بھی نہیں ہو سکی ہے گزشتہ چند برسوں میں عوام کے ووٹ حاصل کر لینے والی قیادت نے اپنے ذاتی، گروہی اور طبقاتی مفادات کو محفوظ رکھنے کے لیے عملاً سیاسی غلامی اختیار کر لی ہے جس کی وجہ سے ابتر حالات سے نکلنے کا کوئی راستہ عوام کو نظر نہیں آرہا ہے بے چینی اور اضطراب کی علامتیں ہر جگہ نظر آرہی ہیں۔ ذرائع ابلاغ حالات کی تصویر پیش کرنے اور صحیح تجزیہ کرنے میں ناکام ہیں۔ ہمارے حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ وہ طاقت اور حیلہ جوئی کے ذریعے عوام کو دبا کر رکھنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے بھی خطرناک مضمرات رونما ہوں گے۔ جس سطح کا معاشی بحران درپیش ہے اس کی نظیر پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی یہ نہیں کہ ماضی میں غربت اور فاقہ نہیں تھا۔ لیکن اب جو صورت حال ہو گئی ہے، اس نے غریبوں، متوسط طبقے کے ساتھ تاجروں اور صنعت کاروں کو بھی مشکلات میں ڈال دیا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ہر شے کی قیمت میں ہولناک اضافہ ہو رہا ہے۔ قیمت کو متعین کرنے والا ایک اہم عامل روپے کی قدر میں مسلسل کمی ہے اور گزشتہ ڈیڑھ سالہ حکومت میں راکٹ سے زیادہ تیزی سے ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے، اس فرق سے برآمدات میں تو اضافہ نہیں ہوا، البتہ درآمدات بھی متاثر ہو گئیں۔ اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر سینیٹ کی کمیٹی میں کہتے ہیں کہ لوگوں نے ڈالر خرید کر اپنے گھروں میں رکھے ہوئے ہیں اور درآمدات کے لیے ایل سی کھولنے کے لیے ڈالر کی ضرورت ہے اس لیے ڈالر کی قیمت کنٹرول کرنے میں وقت لگے گا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ کتنے سنگدل اور سفاک ہیں سیاسی جماعتیں اور ان کی قیاد ت حالات سے نکلنے کے لیے درکار لائحہ عمل اختیار کرنے میں ناکام ہیں۔ ان کی اخلاقی کیفیت کا اندازہ کرپشن اور بدعنوانی کی داستانوں سے کیا جا سکتا ہے۔ معاشی تباہی کے مسئلے کا آغاز توانائی کے مسئلے بجلی کی پیداوار میں کمی سے ہوا تھا۔ اس مسئلے کا حل بجلی پیدا کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری سمجھا گیا۔ بجلی پیدا کرنے والے اداروں سے نرخوں اور ادائیگی کا تعین ڈالر میں طے کیا گیا، جس کے بعد ڈالر کی قیمت مسلسل بڑھتی گئی۔ ڈیڑھ برسوں میں جو تیزی آئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی، اس مسئلے نے بڑھتے بڑھتے پوری معاشی اور تمدنی زندگی کو گھیر لیا، یہاں تک کہ کاروبار، صنعت اور زراعت ہر شعبہ مشکل کا شکار ہو گیا۔ اب عوام کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا کریں تاجروں اور صنعت کاروں کی تنظیموں کی صورت میں ایک متبادل پلیٹ فارم موجود ہے، وہ مسلسل احتجاج کر رہا ہے، اضطراب کی شدت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ آزادکشمیر میں مسجدوں سے اعلان کیے جارہے ہیں کہ بجلی کے بل ادا نہیں کیے جائیں گے۔ کراچی کے تاجروں نے دو روزہ ملک گیر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ تاجر و صنعت کار ہڑتال کی حکمت عملی کو پسند نہیںکرتے، اس لیے کہ وہ اس سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں لیکن وہ بھی مجبور ہو گئے ہیں۔ سابق حکومت معاشی حالات کو جس جگہ چھوڑ کر گئی تھی، اس سے نجات کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے، جب کہ مزید خوفناک حالات نظر آرہے ہیں ڈالر 312 کا ہو گیا بجلی 5 روپے 40 پیسے فی یونٹ مزید مہنگی کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ وزارت صحت نے دوائوں کی قیمت ہوشربا اضافے کا اعلامیہ جاری کر دیا ہے۔ اس پس منظر میں اگر کوئی منظم تحریک شروع نہ کی گئی تو حالات سری لنکا سے بھی بدتر ہو جانے کا خدشہ ہے۔