!!!اصل حکمران کون

1396

عہدِ حاضِر کا ایک اہم یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں اصل حْکمران کون ہے؟ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص سے لے کر ایک ان پڑھ تک، عوام و خواص میںعمومی طور پر یہ سوال کیا جانے لگا ہے اور کسی کو بھی دْنیا کے کسی بھی گوشے میں اِس کا کوئی قابل تسلیم و یقین جواب نہیں مِل پارہا ! دْنیا بھر میں پچھلے سو برس میں جو تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اور ان تبدیلیوں کو وجود میں لانے والے ہوں یا ان کی تعریف و توصیف کرنے والے ہوں وہ بھی اس سوال کا نہ ماضی میں جواب دیتے ہیں اور نہ آج، کہ کسی بھی ملک میں اصل حْکمران کون ہے ! آج یہ کیفیت ہے کہ ہر طور اور طریق پر جو انتہائی جدید ترین اسلحہ سے لیس ممالک جو عالمی طاقت کی حیثیت رکھتے ہیں، سائنسی، اقتصادی، صنعتی طور پر فوقیت رکھتے ہیں وہاں بھی یہ سوال گردِش میں ہے کہ حکمران کون ہے اور کیا واقعی وہ ملک حقیقی معنوں میں عام آدمی کی فلاح و بہبود کو ترجیح دے رہا ہے! اس سوال کے اْٹھنے کا ایک ہی مقصد ہے کہ عام آدمی طرزِ حکمرانی سے مایوس ہوچکا ہے جس سے وہ نجات حاصل کرنا چاہ رہا ہے مگر کامیاب نہیں ہو پارہا۔ باقی دْنیا کو جانے دیجیے اور الگ رکھیے، اگر ہم پاکستان کے حوالے سے دیکھتے ہیں جو آج یہ سوال ہمارے دماغوں میں ہتھوڑے بجا رہا ہے کہ یہاں اصل حکمران کون ہے۔ ایک عام شخص جسے صرف اور صرف دو وقت کی روٹی اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے انتہائی مشکل طریق پر حاصل کرنا پڑتی تھی اور آج تو وہ اِس حالت کو پہنچ گیا ہے کہ وہ حالات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ ہی کھو بیٹھا ہے، وہ بھی اب یہ سوال کرنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ حْکمران کون ہے؟ یہ ملک اِس بنیاد پر قائم ہوا کہ یہاں اسلام کا نظام قائم کیا جائے گا۔ اگر ہم 14؍ اگست 1947 سے لے کر لمحہ ٔ موجود تک دیکھیں تو آئین کی حد تک تو یقینا ایسا ہی ہے کہ یہ ملک اِسلام کے نام پر قائم ہوا، اور یہاں اسلام کا نظامِ حکومت قائم ہوگا لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ یہ تمام بات صرف کتابِ آئین میں لکھی ہے اور چونکہ مسلمانوں کا ملک ہے اِس لیے زبانی کلامی تو یہی کہا گیا، کہا جارہا ہے کہ یہ اسلامی ملک ہے اور یہاں اسلامی قانون نافذ کیے جائیں گے لیکن درحقیقت ایک دن بھی اِس ملک میں اسلامی نظام قانون و حکمرانی نافذ نہیں ہو سکا۔ کیا وجوہات تھیں اس پر بات ہونی چاہیے لیکن اس پر کوئی بات نہ ماضی میں ہوئی اور نہ آج ہورہی ہے۔ پہلے بھی مختلف طور طریقوں سے اس پر بات کرنے سے روکا جاتا رہا اور آج تو کیفیت یہ ہے کہ بات کچھ ہورہی ہے اور جو دلائل دیے جارہے ہیں اس میں ایک ہی رٹ لگائی جاتی ہے کہ اداروں کو بدنام کیا جارہا ہے، کہنے والا غدار ہے، بھارتی ایجنٹ ہے، ایسا ہے ویسا ہے۔ موضوعِ بحث کو ایک طرف رکھ کر بات کو توڑ مروڑ کر صرف اور صرف شخصیات تک محدود کردیا جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کا نام لے کر کوئی بات کہی گئی ہے تو اس بات کو ادارے تک کیوں پھیلا دیا جاتا ہے۔ یہ اپنی جگہ ایک اہم سوال ہے کہ ایسا کیوں ہوتا رہا اور ہورہا ہے۔ انگریز نے اس براعظم ہند و پاکستان پر (بنگلا دیش، بھارت اور پاکستان) پر ڈیڑھ سو یا دو سو برس حکومت کی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انگریز کتنے تھے کہ انہوں نے اتنے بڑے بر اعظم پر اتنے عرصے تک کیسے بآسانی حکومت کرلی۔ انگریز نے اتنے عرصے جو حکومت کی تو اس کے لیے ایک باقاعدہ نظام قائم کیا تھا، اپنی غلطیوں سے سیکھا اور ان غلطیوں کو دْرست بھی کیا۔ جو قوانین رائج کیے اس کے مطابق قانون سب کے لیے برابر تھا اس میں کسی کو کوئی فوقیت حاصل نہیں تھی اور اگر کوئی استثنا کسی کو حاصل بھی تھا تو وہ بھی پردے میں تھا۔ ہمارے قائدین نے جو فیصلہ کیا تھا کہ اس وقت تک جب تک ملک کے لیے ایک دستور اور قوانین تیار نہیں ہوتے اْس وقت تک پاکستان میں غیر منقسم ہندوستان میں رائج قوانین ہی جاری رکھے جائیں۔ ہم نے پچھلے 76 سال میں کیا کیا۔ قوانین جو بنائے وہ اسلام کے نظام حکومت کے مطابق نہیں تھے اور جو پرانے قوانین جاری رکھے ان میں بے تحاشا اپنی مرضی و منشا کے مطابق ترامیم کر کے ان کا حْلیہ ہی بگاڑ دیا اور جو رعایتیں اور سہولتیں عوام الناس کو حاصل تھیں وہ چھین لی گئیں۔ یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے جس نے اب ہر خاص و عام کو پریشان کردیا ہے سوائے اس چھوٹے سے گروپ کے جو اپنے آپ کو پاکستان کا مالک ہی نہیں بلکہ پوری کائنات کا خالق و مالک سمجھتا ہے اور ہر کام صرف اور صرف اپنی مرضی و منشا کے مْطابق چاہتا ہے اور جو اس کے مرضی کے مطابق نہ چلے وہ قابل گردن زدنی ہے۔ اب جبکہ ہمارے حکمرانوں نے اسلام ، اللہ کی حکومت، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کو تماشا بنا دیا ہے اس سوال کا واضح جواب ضروری ہے تاکہ پاکستان کے اصل مجرموں کا احتساب ہوسکے۔ اجرتی قاتلوں کو سزا دینے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا اس لیے اصل سوال باقی رہا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ’’اصل حْکمران کون!‘‘