آپ اسٹیبلشمنٹ کے آدمی نہیں اس کے جانور ہیں

1262

علامہ جمیل مظہری کا بے مثال شعر ہے۔
بقدرِ پیمانۂ تخیل، سرور ہر دل میں ہے خودی کا
اگر نہ ہو یہ فریبِ پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا
علامہ جمیل مظہر کہہ رہے ہیں کہ دنیا کے ہر آدمی میں اپنی اہمیت کا ایک احساس ہوتا ہے۔ ہر انسان سمجھتا ہے کہ وہ ’’کچھ‘‘ ہے۔ شاعر کے بقول اگر آدمی اپنے کچھ ہونے کے فریب میں مبتلا نہ ہو تو آدمی کچھ نہ ہونے کے صدمے سے مرجائے۔ کچھ ہونے کے احساس سے آدمی میں ایک طرح کی خود تکریمی یا Self Respect پیدا ہوتی ہے مگر بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو طاقت وروں کے سامنے ناک رگڑتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف ایسے ہی لوگوں میں سے ہیں۔ ذرا آپ سابق وزیراعظم شہباز شریف کا یہ بیان تو ملاحظہ فرمایے۔
’’وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سپہ سالاروں سے ملنے کا مقصد ملک کی ترقی کے لیے کام کرنا تھا۔ یار دوست طعنہ دیتے رہے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہے مگر مجھے اس طعنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا‘‘۔ (روزنامہ جسارت کراچی، 4 اگست 2023ء)
شریفوں کی پوری زندگی جرنیلوں، امریکا اور بھارت کے جوتے چاٹتے گزری ہے مگر میاں شہباز شریف کو جرنیلوں کے جوتے چاٹنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہوتی اس لیے کہ بقول ان کے وہ ملک کی ترقی کے لیے کام کررہے ہوتے ہیں۔ میاں شہباز شریف نے اپنے اس بیان میں خود کو اسٹیبلشمنٹ کا ’’آدمی‘‘ قرار دیا ہے حالاں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے آدمی نہیں اسٹیبلشمنٹ کے جانور ہیں۔ کہنے کو تو ہم نے شریفوں کو اسٹیبلشمنٹ کا جانور کہہ دیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ جانوروں کی بھی ایک Self Respect ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ہم آپ کو دو سچے واقعات سناتے ہیں۔
ہمارے ماموں سید حافظ نفیس حسن، سید ظریف حسن اور سید انیس حسن قیام پاکستان سے پہلے یوپی کے ضلع مظفر نگر کے قصبے بگھرہ کے بڑے زمینداروں میں سے تھے۔ ان کے پاس 120 ایکڑ زرعی زمین تھی۔ ہمارے بڑے ماموں سید نفیس حسن نے ایک بچھڑے کو پال پوس کر بڑا کیا۔ وہ مکمل بیل بن گیا تو اُسے ہل میں جوتنے لگے۔ ایک روز وہ بیل ہل چلاتے ہوئے سستی کا مظاہرہ کررہا تھا کہ ہمارے ماموں نے اس کو دوچار ڈنڈے مار دیے۔ اس سلوک پر بیل اتنا ناراض ہوا کہ اس نے ہمارے ماموں کو اپنے سینگوں پر اٹھالیا اور انہیں مارنے کی کوشش کی۔ ہمارے چھوٹے ماموں سید انیس حسن پاس ہی موجود تھے انہوں نے یہ دیکھا تو وہ لاٹھی لے کر ہمارے بڑے ماموں کی مدد کو آئے اور انہیں بچانے میں کامیاب رہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیل کی بھی ایک Self Respect ہوتی ہے جو اگر مجروح ہوجائے تو بیل انتقام لینے پر آمادہ ہوسکتا ہے۔
یہ آج سے بیس سال پرانی بات ہے۔ ہم پی ٹی وی نیوز کراچی مرکز کے شعبہ خبر میں کام کرتے تھے۔ شعبہ خبر میں سینئر نیوز ایڈیٹر کے ایک پرنسپل سیکرٹری تھے انتظار احمد۔ ایک روز ہم نے دیکھا کہ وہ لنگڑاتے ہوئے نیوز روم میں چلے آرہے ہیں۔ ہم نے کہا خیریت انتظار بھائی کیا ہوا۔ کہنے لگے فاروقی صاحب ہم نے ایک کتے کے پلے کو پال پوس کر بڑا کیا۔ اب وہ پورا کتا بن چکا ہے۔ ہم نے اسے عادت ڈالی ہوئی ہے کہ صبح کو اخبار والا گھر میں اخبار ڈالتا ہے تو ہم اپنے پالتوں کتے کو اخبار لانے کا حکم دیتے ہیں اور وہ ہمیں اخبار اٹھا کر لادیتا ہے۔ کل بھی اخبار آیا تو ہم نے اسے اخبار لانے کا حکم دیا۔ مگر اس نے حکم پر عمل نہیں کیا۔ وہ سستی سے اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ چناں چہ ہم خود اُٹھے اور اخبار اُٹھا لائے۔ اخبار لاتے ہوئے ہم نے غصے سے کتے کو ایک لات رسید کردی۔ ہم اپنی جگہ آکر اخبار پڑھنے لگے۔ کتا اچانک اُٹھا، ہماری طرف آیا اور ہماری ٹانگ میں کاٹ لیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیلوں ہی کی نہیں کتوں کی بھی ایک Self Respect ہوتی ہے، مگر جرنیلوں، امریکا اور بھارت کے سامنے شریفوں کی کوئی Self Respect نہیں۔ جرنیلوں، امریکا اور بھارت ان کو ٹھوکر بھی مار دیں تو ’’شریف لوگ‘‘ اسے اپنی عزت افزائی سمجھتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرنیلوں، امریکا اور بھارت کے حوالے سے شریفوں کا مرتبہ جانوروں سے بھی کم ہے۔ اس سلسلے میں شریفوں کا حال اس انشورنس ایجنٹ جیسا ہے جسے کسی بھی بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لطیفے کے مطابق ایک نئے انشورنس ایجنٹ نے پرانے انشورنس ایجنٹ سے کہا کہ ہمارے کام میں بڑی بے عزتی ہے۔ اس نے کہا کہ بعض لوگ مجھ پر ناراض ہو کر بُرا بھلا کہنے لگتے ہیں۔ کچھ گالیاں دینے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ تو مجھے مارنے دوڑے۔ میں جب ایسی کسی صورت حال سے گزرتا ہوں تو بڑی بے عزتی محسوس کرتا ہوں۔ یہ سن کر پرانا انشورنس ایجنٹ بولا۔ بھائی لوگ مجھ پر بھی ناراض ہوتے ہیں۔ مجھے بھی گالیاں سننے کو ملتی ہیں۔ میں کئی مرتبہ لوگوں سے پٹ بھی چکا ہوں مگر خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ آج تک میری بے عزتی نہیں ہوئی۔ شریفوں کو بھی جرنیل لات مارتے ہیں، انہیں ایوان اقتدار سے نکال باہر کرتے ہیں، انہیں جیل میں ڈال دیتے ہیں، انہیں گاڈ فادر اور سسلین مافیا کے خطابات عطا کرواتے ہیں مگر جیسا کہ میاں شہباز شریف کے بیان سے ظاہر ہے کہ وہ جرنیلوں کے کسی بھی عمل سے بے عزتی محسوس نہیں کرتے۔
پاکستان کے معروف صحافی ضیا شاہد نے میاں نواز شریف پر ایک پوری کتاب لکھ ماری ہے۔ اس کتاب میں ضیا شاہد نے ایک سچا واقعہ تحریر کیا ہے۔ واقعے کے مطابق پنجاب کے سابق گورنر جنرل جیلانی نے گورنر ہائوس میں ایک بڑی پارٹی کا اہتمام کیا۔ پارٹی میں میاں نواز شریف بھی مدعو تھے۔ اچانک جنرل جیلانی کو نہ جانے کیا سوجھی وہ اپنی جگہ سے اُٹھے اور انہوں نے پارٹی میں موجود ایک بیرے کے سر سے بیرے کی مخصوص ٹوپی یا پگڑی اُتار کر اچانک میاں نواز شریف کے سر پر رکھ دی۔ ایک لمحے میں میاں نواز شریف سیاسی رہنما سے ایک بیرے بن گئے۔ جنرل جیلانی کی پارٹی کے بیرے، مگر میاں نواز شریف نے نہ تو جنرل جیلانی کی اس حرکت پر احتجاج کیا، نہ انہوں نے ٹوپی سر پر رکھے جانے کے عمل کی مزاحمت کی، نہ انہوں نے خود ٹوپی اُتاری اور نہ ہی جنرل جیلانی سے تعلق میں کوئی فرق آنے دیا۔ جو سلوک جنرل جیلانی نے میاں نواز شریف کے ساتھ کیا اگر یہی سلوک جنرل جیلانی نے کسی پالتوں بیل یا پالتوں کتے کے ساتھ کیا ہوتا تو بیل اور کتا بھی احتجاج کرتا اور جنرل جیلانی سے انتقام لینے کی کوشش کرتا مگر میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف صرف قوم کے لیے شیر ہیں جرنیلوں کے سامنے ان کی حیثیت پالتو بیل اور پالتو کتے سے بھی کم ہے۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جانوروں میں صرف Self Respect ہی نہیں ہوتی ان میں احسان کو یاد رکھنے اور اس کا بہترین جواب دینے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے۔ یونان کی تاریخ کا سچا واقعہ ہے کہ ایک مجرم جیل سے نکل بھاگا۔ وہ بھاگتا بھاگتا گھنے جنگل میں جا نکلا دوڑتے دوڑتے تھک گیا تو ایک پیڑ کے سائے میں لیٹ گیا۔ تھکن سے اسے نیند آگئی۔ آنکھ کھلی تو اس نے اپنے سامنے ایک شیر کو بیٹھا پایا۔ مجرم کی جان نکل گئی۔ اس نے سوچا کہ وہ جیل سے نکل کر یقینی موت کی طرف آگیا ہے۔ لیکن اس نے محسوس کیا کہ شیر اس پر حملہ کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لے رہا بلکہ وہ کراہ رہا ہے اور اپنے پائوں کے ایک پنجے کو مسلسل چاٹ رہا ہے۔ مجرم ہمت کرکے شیر کے پاس گیا اس نے شیر کا پنجہ دیکھا تو اس میں ایک بڑا سا کانٹا گھسا ہوا تھا مجرم نے وہ کانٹا نکال دیا۔
شیر تھوڑی دیر بیٹھا رہا پھر وہاں سے کہیں چلا گیا۔ شیر کے جاتے ہی بادشاہ کے سپاہی اسے تلاش کرتے ہوئے وہاں آپہنچے اور اسے پکڑ لیا۔ بادشاہ نے مجرم کو اس کے فرار کے جرم میں سزائے موت سنائی اور ریاست کے قاعدے کے مطابق اعلان کیا کہ اسے بھوکے شیر کے سامنے ڈالا جائے گا۔ یونان میں ایسی سزا ایک اسٹیڈیم میں دی جاتی تھی اور ہزاروں لوگ سزا کو دیکھنے کے لیے آتے تھے۔ بالآخر مجرم کی سزا پر عمل درآمد کا دن بھی آپہنچا۔ مجرم کو بھوکے شیر کے سامنے ڈال دیا گیا۔ شیر تیزی کے ساتھ اس کی جانب لپکا لیکن اس کے قریب آتے ہی ٹھیر گیا اور اسے غور سے دیکھنے لگا۔ چند لمحے بعد وہ مجرم کی جانب بڑھا اور اس کا ہاتھ چاٹنے لگا۔ دراصل یہ وہی شیر تھا جس کے پائوں سے مجرم نے کانٹا نکالا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر بادشاہ اور مجمع دنگ رہ گیا۔ بادشاہ کو اصل صورت حال معلوم ہوئی تو اس نے مجرم کو رہا کردیا۔ لیکن شریفوں کی فطرت یہ ہے کہ وہ خود پر احسان کرنے والوں کا قافیہ تنگ کردیتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ میاں نواز شریف جنرل ضیا الحق کو اپنا ’’روحانی باپ‘‘ کہا کرتے تھے آج وہ جنرل ضیا الحق کو ایک غاصب کہتے ہیں۔ ایک دور تھا کہ جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد شریفوں کے لیے اتنے اہم اور اتنے محترم تھے کہ وہ گھریلو جھگڑوں میں انہیں ثالث بنایا کرتے تھے۔ پھر وہ دور بھی آیا کہ میاں نواز شریف نے قاضی حسین پر یہ رکیک الزام لگایا کہ وہ ان سے کشمیر کے لیے دس کروڑ روپے لے کر ہضم کرگئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ میاں نواز شریف علامہ طاہر القادری سے پوچھا کرتے تھے کہ کہیں آپ امام مہدی تو نہیں۔ لیکن پھر ایک زمانہ وہ آیا کہ میاں نواز شریف طاہر القادری کی جان اور عزت کے دشمن بن گئے۔