پاکستان کے مذہبی ہونے کا ماتم

1314

سابق سوویت یونین ایک سوشلسٹ ریاست تھی مگر اس کے کسی دانش ور اور صحافی نے کبھی اس کے سوشلسٹ ہونے کا ماتم نہیں کیا۔ چین انقلاب کے بعد سے آج تک ایک کمیونسٹ ریاست ہے اور چین کے کسی دانش ور اور صحافی کو چین کے کمیونسٹ ہونے پر سینہ کوبی کرتے نہیں دیکھا گیا۔ امریکا ایک سیکولر اور لبرل ریاست ہے اور امریکا کا کوئی دانش ور اور صحافی اپنے ملک کے سیکولر اور لبرل ہونے کا ماتم نہیں کرتا۔ اسرائیل ایک یہودی ریاست ہے اور یہودیت ہی اسرائیل کا نظریہ ہے، مگر اسرائیل کا کوئی دانش ور اور صحافی اپنے ملک کے نظریے کا ماتم نہیں کرتا۔ بی جے پی نے سیکولر ہندوستان کو ’’ہندو ریاست‘‘ بنادیا ہے مگر بھارت کے کسی دانش ور اور صحافی میں یہ جرأت نہیں کہ وہ بی جے پی کے ہندوتوا کی مخالفت کرتے ہوئے ہائے ہندوازم کرتا ہوا دکھائی دے۔ مگر پاکستان کے سیکولر اور لبرل دانش ور 75 سال سے پاکستان کے مذہبی ہونے کا ماتم کر رہے ہیں۔ ایاز امیر پاکستان کے ایک سیکولر اور لبرل صحافی اور سابق فوجی ہیں۔ ان کو جیسے ہی موقع ملتا ہے پاکستان کے مذہبی تشخص کا ماتم کرنے بیٹھ جاتے ہیں۔ اپنے ایک حالیہ کالم میں تو انہوں نے حد ہی کردی۔ انہوں نے کیا فرمایا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’جن نظریات کی حامل یہاں مملکت بن گئی ہے‘ ایسی مملکت آپ کو ہندوستان کی پوری مسلم تاریخ میں نہیں ملے گی۔ قطب الدین ایبک کے بعد جو سلاطین کی سلطنت بنی نہ اس میں ایسی اقدار پائی جاتی تھیں‘ نہ سیدوں کی سلطنت میں‘ نہ لودھیوں کی بادشاہت میں اور مغلوں کا تو اسلوب ہی بالکل مختلف تھا۔ سارے کے سارے مسلمان بادشاہ یا سلطان تھے لیکن آٹھ سو سالہ تاریخ میں ایسی سلطنت نہ بنی جس کا شائبہ آپ کو ہماری عجیب و غریب مملکت میں ملے۔ باہر سے آئے تھے اور راج اْنہوں نے یہاں کی ہندو آبادی پر کیا‘ تلوار اْن کے ہاتھ میں تھی‘ طاقت اْن کے پاس تھی‘ حکم اْن کا چلتا تھا لیکن ضروریاتِ حکمرانی کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں نے ایسی تنگ نظر اور تنگ دل روشیں نہ اپنائیں جن سے محکوم آبادی بیزار ہو جائے یا بغاوت پر اٹھ کھڑی ہو۔ آٹھ سو سال تک اْن مسلمان حکمرانوں نے ایک کامیاب طرزِ حکمرانی اختیار کی۔ یہ جو نظریات کے ڈھول ہم پچھلے 75سال سے بجا رہے ہیں‘ اس کی مثالیں اْن آٹھ سو سال میں آپ کو نہ ملیں گی۔
اور اگرکسی حاکم کی یہ خواہش رہی کہ ہندو آبادی مسلمان ہو جائے‘ یہ کوشش کسی نے نہ کی کہ مسلمانوں کو دوبارہ اور سہ بارہ مسلمان بنایا جائے جو کہ ہماری مملکت کا خاصا پچھلی دہائیوں سے رہا ہے۔ حکمرانی ہمارے حاکموں سے ہوئی نہیں لیکن ہمیں مسلمان ہی بناتے رہے۔ یہ بھی سمجھنا شاید ضروری ہو کہ جو مخصوص قوانین ہماری مملکت میں نافذ ہیں‘ ان کی مثال بھی آٹھ سو سالہ مسلم تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس درخشاں تاریخ میں آپ کو کوئی ضیاالحق نہیں ملے گا‘ ایک مثال بھی نہیں دی جا سکتی کہ دیکھو چودھویں یا پندرہویں صدی میں یہ ضیا الحق نما کوئی حاکم تھا۔ حدود آرڈی نینس کے تحت کوتوالِ شہر مسلمانوں یا ہندوئوں کو اندر نہیں کیا کرتا تھا۔ فرقہ وارانہ فسادات کا کوئی رواج نہ تھا۔ اور کم از کم مسجدوں یا امام بارگاہوں پر مسلمان حملہ نہ کرتے تھے۔ نظریات کے نام پر یہ کیسی مملکت بن گئی ہے جس میں ہر تعصب روا رکھا جائے اور جس میں ایک ہی دین کے علم بردار ایک دوسرے کی جان کے پیچھے پڑے ہوں۔ ہندوستان کی پوری آٹھ سو سالہ مسلم تاریخ میں طالبان قسم کے نظریات رکھنے والی تحریک نہیں ملے گی۔ مسلمان حکمرانی کے تقاضے ایسے تھے کہ تنگ نظری سے کام نہ چل سکتا تھا۔
اور پھر اْس تاریخ کے نتیجے میں جو تہذیب پیدا ہوئی‘ اْس میں کیا حسن اور نکھار تھا۔ جسے ہم گنگا جمنا تہذیب کہتے ہیں اور جس کا گہوارہ دہلی اور لکھنؤتھے‘ اس کی تو جھلک دْور دْور سے ہماری مملکت میں نہیں ملتی۔ ملاحظہ کیجیے حضرت جوش ملیح آبادی اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں ہندو تہوار ہولی کے بارے میں کیا لکھتے ہیں: ’’یادش بخیر‘ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ ہولی دیوالی‘ فقط ہندئوں ہی کے نہیں‘ ہمارے بھی تہوار تھے۔ ہولی کھیلنے کا بہت پہلے سے اہتمام کیا جاتا تھا‘ ہر سال نئی پچکاریاں بنوائی جاتی تھیں‘ بڑی دیگوں میں رنگ بھرا جاتا تھا اور ایسی پچکاریاں چلتی تھیں کہ ہم سب کے کپڑے شرابور اور گھر کے تمام دروبام رنگین ہو جایا کرتے تھے‘‘۔ (روزنامہ دنیا۔ 2 اگست 2023ء)
ایاز امیر نے اپنے کالم میں یہ بھی لکھا کہ ہماری نئی مملکت کو ایسا ہونا چاہیے تھا کہ مغل بادشاہ اکبر اعظم کی یاد تازہ ہوجاتی۔ گنگا جمنی تہذیب پیچھے رہ جاتی۔ قرۃ العین حیدر کو پاکستان چھوڑ کر ہندوستان واپس نہ جانا پڑتا۔ ساحر لدھیانوی لاہور میں آباد ہوجاتے۔
پاکستان اگر عیسائی، ہندو، بدھسٹ یا کمیونسٹ ریاست ہوتا تو پاکستان کے سیکولر اور لبرل لوگ کبھی بھی پاکستان کے نظریے کا ماتم نہ کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اصل مسئلہ پاکستان نہیں اسلام ہے۔ ایسا اسلام جو معاشرے کو ریگولیٹ کرتا ہے۔ اپنے قوانین کا معاشرے پر اطلاق کرتا ہے۔ جو شراب پر پابندی لگاتا ہے۔ جو جسم فروشی اور ناچ گانے کو برداشت نہیں کرتا۔ جو سود کو حرام قرار دیتا ہے۔ جو انسان کی انفرادی، اجتماعی اور قومی زندگی کو اپنے تابع کرتا ہے۔ ہاں اگر پاکستان کا اسلام بھی ترکی اور ملائیشیا کے اسلام کی طرح ہو تو سیکولر اور لبرل لوگوں کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔
ایاز امیر بوڑھے ہوگئے مگر انہیں اب تک اتنی بات معلوم نہیں کہ مسلمانوں بالخصوص برصغیر کے مسلمانوں کے لیے مثالی ریاست مغل ریاست نہیں رسول اللہؐ کی ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ ہے۔ ریاست مدینہ انسانی ریاست کا نقطہ ٔ عروج تھی اور خلافت راشدہ ریاست مدینہ کا تسلسل تھی۔ ریاست مدینہ مثالی ریاست کا اجمال تھی اور خلافت راشدہ کی ریاست مثالی ریاست کی تفصیل تھی۔ خاص طور پر سیدنا عمر فاروقؓ کے زمانے کی ریاست۔ اس ریاست کی خاص بات یہ تھی کہ یہ خدا مرکز تھی۔ رسول مرکز تھی۔ قرآن مرکز تھی۔ ایک جانب یہ ریاست روحانی اور اخلاقی معنوں میں فلاحی ریاست تھی۔ دوسری طرف وہ دنیوی معنوں میں بھی ایک فلاحی ریاست تھی۔ اس ریاست نے وقت کی دو سپر پاور کو منہ کے بل گرایا تھا۔ سیدنا عمرؓ نے اسلامی تاریخ میں پہلی مرتبہ باضابطہ فوج یا Standing Army کا تصور پیش کیا تھا۔ انہوں نے جاسوسی کا نظام وضع کیا تھا۔ مردم شماری کا انقلابی طریقہ متعارف کرایا تھا۔ شہریوں کیا شیر خوار بچوں کے بھی وظائف مقرر کیے تھے۔ پولیس کا محکمہ قائم کیا تھا۔ کئی نئے شہر آباد کیے تھے۔ آبپاشی کا نیا نظام متعارف کرایا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا خاص طور پر برصغیر کے مسلمان مثالی ریاست کے حوالے سے یا تو ریاست مدینہ کی طرف دیکھتے ہیں یا خلافت راشدہ بالخصوص سیدنا عمرؓ کے زیر سایہ کام کرنے والی ریاست کی طرف۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایاز امیر نے مغلیہ سلطنت بالخصوص اکبر کی سلطنت کو ایک مثالی ریاست کی حیثیت سے پیش کرکے برصغیر کے مسلمانوں کے فہم اسلام، فہم تہذیب اور فہم تاریخ کی توہین کی ہے۔
بدقسمتی سے مغل حکمرانوں کے بارے میں ان کی یہ رائے بھی درست نہیں کہ ان میں سے کوئی بھی جنرل ضیا الحق کی طرح مذہبی نہیں تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر کی تو وجہ شہرت ہی یہ ہے کہ وہ سر سے پائوں تک مذہبی تھا اور وہ ریاست کو چلانے کے سلسلے میں وقت کے علما پر انحصار کرتا تھا۔ اس کے زمانے میں فتاویٰ کا ایک ضخیم مجموعہ فتاوائے عالمگیری کے نام سے مدوّن ہوا تھا۔ جنرل ضیا الحق کا دور تو صرف دس سال تھا۔ اورنگ زیب عالمگیر کا دور حکومت پچاس سال پر محیط تھا۔ اس پچاس سال کے عرصے میں اورنگ زیب نے قرآن و سنت کے مطابق حکومت کی۔ اورنگ زیب کے مخالف کہتے ہیں کہ اورنگ زیب نے اپنے بھائی دارا کو قتل کردیا حالانکہ یہ ایک جھوٹا الزام ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جید علما کے ایک گروہ نے دارا کو سزائے موت کا مستحق قرار دیا تھا۔ ایاز امیر نے التمش کا نام بھی سن رکھا ہوگا۔ التمش کا تعلق خاندانِ غلاماں سے تھا مگر التمش متقی اور پرہیز گار شخص تھا۔ ممتاز صوفی خواجہ بختیار کاکی کا انتقال التمش کے زمانے میں ہوا۔ خواجہ صاحب نے وصیت کی تھی کہ میری نماز جنازہ وہ شخص پڑھائے جو پاک دامن ہو اور جس نے کبھی عصر کی نماز کی چار سنتیں قضا نہ کی ہوں۔ خواجہ صاحب کی نماز جنازہ کا وقت ہوا تو ہر شخص متجسس تھا کہ کون ان کی نماز جنازہ پڑھائے گا۔
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ بادشاہِ وقت التمش آگے بڑھا اس نے کہا کہ مجھے اپنی دین داری کی نمائش پسند نہیں مگر خواجہ صاحب نے شرط ہی ایسی رکھی ہے کہ مجھے یہ حقیقت لوگوں کے سامنے عیاں کرنی پڑ رہی ہے۔ بادشاہ نے یہ کہا اور خواجہ صاحب کی نماز جنازہ پڑھانے کھڑا ہوگیا۔ التمش کا انصاف مشہور زمانہ ہے۔ ایک بار التمش کا عیاش بیٹا ہاتھی پر سوار ہو کر گلی سے گزر رہا تھا۔ ایک ہندو شہری کی لڑکی اپنے صحن میں نہا رہی تھی۔ شہزادے نے لڑکی کو گھور کر دیکھا۔ لڑکی کے باپ نے التمش سے اس بات کی شکایت کی۔ التمش نے بھرے مجمعے میں شہزادے کو کوڑے لگوائے۔ ایاز امیر نے بادشاہ ناصر الدین کا نام بھی سنا ہوگا۔ ناصر الدین اتنا سادگی پسند تھا کہ قرآن مجید کی کتابت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے گزر بسر کرتا تھا۔ جہانگیر اکبر کا بیٹا تھا مگر اس میں اتنی دین داری موجود تھی کہ مجدد الف ثانیؒ نے مغل سلطنت کی خلاف اسلام روش کے خلاف مہم چلائی تو جہانگیر نے بالآخر مجدد الف ثانیؒ کے سامنے سر جھکا دیا۔ اس نے نہ صرف یہ کہ دربار میں رائج سجدئہ تعظیمی موقوف کرایا بلکہ گائے کے ذبیحے پر عائد پابندی بھی اٹھالی۔ ان حقائق کے باوجود برصغیر کے مسلمانوں نے اسلام کے نام پر ایک الگ ریاست کے لیے مہم شروع کی تو ان کے سامنے مغل ریاست کا نمونہ نہیں تھا ان کے سامنے ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ کا نمونہ تھا۔ قائداعظم کی ایک تقریر اس حوالے سے بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ قائداعظم نے 1943ء میں کراچی میں مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
’’وہ کون سا رشتہ ہے جس میں منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں؟ وہ کون سی چٹان ہے جس پر ملت کی عمارت استوار ہے؟ وہ کون سا لنگر ہے جس سے امت کی کشتی محفوظ بنادی گئی ہے؟
وہ رشتہ
وہ چٹان
وہ لنگر
اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جوں جوں ہم آگے بڑھیں گے ہم میں زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا۔ ایک خدا، ایک رسول، ایک کتاب، ایک امت‘‘۔
ایاز امیر بتائیں قائداعظم کی یہ تقریر مغل ریاست کے ’’ماڈل‘‘ کے مطابق ہے یا ریاست مدینہ اور خلافت راشدہ کے زمانے کی ریاست کے ماڈل کے مطابق۔
ایاز امیر نے دلی اور یوپی کی گنگا جمنی تہذیب کو حوالے کے طور پر پیش کیا ہے اور انہوں نے اس تہذیب کے نمونے کے طور پر جوش ملیح آبادی کو پیش کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایاز امیر گنگا جمنی تہذیب کی الف ب بھی نہیں جانتے۔ دلی اور یوپی کی تہذیب مذہب مرکز تہذیب ہے۔ نظریہ مرکز تہذیب ہے۔ علم مرکز تہذیب ہے۔ تخلیق مرکز تہذیب ہے۔ تاریخ مرکز تہذیب ہے۔ تہذیب مرکز تہذیب ہے۔ چنانچہ اس تہذیب کے اصل نمائندے شاہ ولی اللہ ہیں جو یوپی کے ضلع مظفر نگر کے ایک گائوں پھلت میں پیدا ہوئے اور جنہوں نے دلی میں زندگی بسر کی۔ گنگا جمنی تہذیب کے ایک نمائندے مسلک دیوبند کے سب سے بڑے عالم دین مولانا اشرف علی تھانوی ہیں۔ گنگا جمنی تہذیب کی ایک بہت ہی بڑی علامت بریلوی مسلک کے بانی اعلیٰ حضرت امام رضا بریلویؒ ہیں۔ گنگا جمنی تہذیب کا ایک بہت بڑا استعاری مولانا مودودیؒ ہیں جو ہر اعتبار سے امام امت کہلانے کے مستحق ہیں۔ مگر ایاز امیر نے گنگا جمنی تہذیب کے اصل نمائندوں کے بجائے گنگا جمنی تہذیب کی تلچھٹ جوش ملیح آبادی کو گنگا جمنی تہذیب کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔ جوش ملیح آبادی ایک پانچویں درجے کے شاعر تھے۔ ان کے بارے میں ناصر کاظمی نے صرف ایک فقرے میں اصل بات کہہ دی ہے۔ ناصر کاظمی نے کہا ہے کہ جوش ملیح آبادی ہاتھی پر بیٹھ کر چڑیا کا شکار کھیلنے نکلتے ہیں۔ یعنی جوش ملیح آبادی کی شوکت الفاظ ایسی ہوتی ہے کہ جیسے وہ کوئی بڑی بات کہیں گے مگر ان کے اشعار سے چھوٹے سے معنی برآمد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ چنانچہ جوش ملیح آبادی کو کسی علمی اور تہذیبی مسئلے کے سلسلے میں حجت بنا کر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ بلاشبہ بعض نوابین ہولی کھیلا کرتے تھے مگر گنگا جمنی تہذیب کا معاشرہ ایسے نوابوں کو ’’بگڑے نواب‘‘ کہا کرتا تھا اور ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا تھا۔ ایاز امیر اکثر اپنے کالموں میں جنرل ضیا کی مذمت کرتے رہتے ہیں مگر وہ اس بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں کہ جنرل ضیا الحق نے پاکستانی معاشرے کو گہرائی سے کیوں متاثر کیا؟ اس کی وجہ خود جنرل ضیا نہیں۔ اس کی وجہ اسلام ہے۔ پاکستانی معاشرہ جیسا بھی ہے اپنی اصل میں اسلامی ہے اور وہ اسلام کی بات کرنے والے حکمرانوں کو عزت دیتا ہے۔ جنرل ضیا معاشرے کی اسلام کاری کے کام سے مخلص ہوتے تو ان کی معاشرے میں اور بھی عزت ہوتی۔