اس دشمنی کا ذمے دار پاکستان ہے یا ہندوستان؟

1000

اقبال نے کہا تھا
مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دل نوازی کا
مروّت حسنِ عالمگیر ہے مردانِ غازی کا
اقبال کا یہ شعر مسلمانوں کی پوری تاریخ کا اظہار ہے۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ طاقت کے زور سے صرف جغرافیہ فتح ہوسکتا ہے۔ طاقت کبھی دلوں کو فتح نہیں کرسکتی۔ یہ صرف محبت اور مروت ہے جو دلوں کو فتح کرتی ہے۔ رسول اکرمؐ کی روایت یہ ہے کہ انہوں نے مکہ محبت اور مروت سے فتح کیا۔ مکے والوں نے رسول اکرمؐ اور ان کے پیروکاروں سے جو سلوک کیا تھا اس کا تقاضا یہ تھا کہ مکے کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے مگر رسول اکرمؐ نے پورے مکے کو معاف کردیا۔ مسلمانوں نے اسپین کا ایک بڑا حصہ فتح کرکے مسلم اسپین کی بنیاد رکھی تو یہودیوں اور عیسائیوں کو مسلمانوں کے برابر مرتبہ دیا۔ مسلم اسپین میں یہودی اور عیسائی فلسفی تھے۔ دانش ور تھے۔ شاعر تھے۔ ادیب تھے۔ استاد تھے۔ وزیر تھے۔ مشیر تھے۔ سپاہی تھے۔ لیکن اسپین مسلمانوں سے نکل کر عیسائیوں کے ہاتھ میں گیا تو عیسائیوں نے مسلمانوں کے سامنے تین امکانات رکھے۔ اسلام ترک کرکے عیسائی ہوجائو۔ اسپین چھوڑ دو یا مرنے کے لیے تیار رہو۔ بدقسمتی سے عیسائیوں نے یہ تینوں ہی کام کیے۔ کچھ مسلمان طاقت کے زیر اثر عیسائی ہوگئے۔ کچھ مسلمانوں نے اسپین چھوڑ دیا اور جو مسلمان یہ دونوں کام نہ کرسکے انہیں شہید کردیا گیا۔ مسلمانوں نے برصغیر پر ایک ہزار سال حکومت کی۔ یہ اتنا طویل عرصہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی ریاستی اور مالی طاقت کا صرف دس فی صد بھی استعمال کیا ہوتا تو آج پورا ہندوستان مسلمان ہوتا، مگر مسلمانوں نے ہندوستان کو محبت اور مروت سے فتح کیا۔ برصغیر میں اسلام حکمرانوں نے نہیں صوفیا اور علما نے پھیلایا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایسے بدبخت موجود ہیں جنہیں ان حقائق کا ادراک ہی نہیں۔ چناں چہ وہ آئے دن ہندوستان اور پاکستان کی دشمنی کا ذمے دار پاکستان کو ٹھیراتے رہتے ہیں۔ رائو منظر حیات روزنامہ ایکسپریس کے کالم نگار ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں ہندوستان سے دشمنی کم کیجیے کے عنوان کے تحت کیا لکھا ہے انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ رائو منظر حیات لکھتے ہیں۔
’’14 اگست 1947ء سے لے کر آج تک، اگر برصغیر میں کسی بھی جذبے کو مسلسل بڑھاوا ملا ہے تو وہ پاکستان اور ہندوستان کی باہمی دشمنی ہے۔ یہ دشمنی قومی نہیں ہے بلکہ مذہبی بنیاد پر قائم ہے، ایک دوسرے کو برباد کرنے کے لیے مذہبی شدت پسندی انتہائوں کو چھو رہی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ہندوستانی قیادت ہمارے ملک کے خلاف کوئی بات نہیں کرتی اور چند لمحوں میں ہمارا ردعمل بھی ویسا ہی ہوجاتا ہے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام کی اکثریت کے دلوں میں بھی نفرت رچ بس گئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی قیادت نے بھی اس نفرت کو کم کرنے کے بجائے اسے پارٹی منشور کا حصہ بنایا اور الیکشن مہم کی بنیاد اسی نفرت پر رکھی ہے۔ اگر کوئی جذبہ چاہے وہ سچ یا جھوٹ اوائل عمری میں ذہن میں نقش کردیا جائے یا کرادیا جائے تو وہ ذہنوں سے نکالنا ممکن نہیں ہوتا، ان کی دلیل کی بنیاد بھی بن جاتا ہے۔ بہت ہی کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دھند کے پار دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان باہمی نفرت اس سطح پر پہنچ چکی ہے جو شخص گروہ یا تنظیم اسے کم یا ختم کرنے کی بات کرتا ہے اسے غدار، سازشی، ملک دشمنی اور ہندو کا ایجنٹ بنا دیا جاتا ہے۔ یہ بدقسمتی سرحد کے دونوں اطراف ایک جیسی ہے۔ ہندوستان میں تو نریندر مودی نے الیکشن میں پاکستان کو ختم کرنے کا بارہا اعلان کیا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایسا ممکن نہیں ہے لیکن الیکشن جیتنے کے لیے نفرت کا سہارا لیا گیا۔ راہول گاندھی کیونکہ معتدل نظریات کا کانگریسی لیڈر ہے لہٰذا بی جے پی اسے ’’بھارت دشمن‘‘ قرار دے رہی ہے۔ معاف کیجیے! پاکستان میں بھی بعینہ یہی معاملہ ہے۔ لہٰذا اب دشمنی پاگل پن کی انتہا کو چھو رہی ہے۔۔۔
یہاں میاں نواز شریف کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ بطور وزیراعظم وہ یہ نکتہ سمجھ چکے تھے کہ پاکستان دشمنی کے بوجھ کے ساتھ ترقی نہیں کرسکتا۔ لہٰذا میاں صاحب نے دونوں ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کی داغ بیل ڈالنے کی مخلصانہ کوشش کی۔ پاداش میں انہیں ہر قسم کا طعنہ سننا پڑا۔ اس چپقلش نے ان کو وزارت عظمیٰ سے بھی محروم کردیا۔ ہماری موجودہ قیادت کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے۔ سوچنا چاہیے کہ کیا موجودہ معاشی بربادی کی موجودگی میں انڈیا کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا دانشمندی ہے یا دشمنی برقرار رکھنا بہتر ہے۔ خیر یہ اکابرین کے فیصلے ہیں مگر ایک امر تو طے ہے باہمی دشمنی کو کم کیے بغیر پاکستان ترقی نہیں کرسکتا۔ (روزنامہ ایکسپریس: 31جولائی 2023)
پاک بھارت تعلقات کی پوری تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ یہ تاریخ مجرد نہیں ٹھوس ہے۔ اسی تاریخ کو برصغیر میں ہندو مسلم کشمکش سے الگ کرکے نہ سمجھا جاسکتا ہے نہ بیان کیا جاسکتا ہے۔ اتفاق سے اس تاریخ کے ذمے دار نہ مسلمان ہیں نہ پاکستان ہے۔ اس تاریخ کے ذمے دار ہندو اور ہندوستان ہیں۔
بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ تحریک پاکستان نہ چلتی اور پاکستان نہ بنتا تو ہندوئوں اور مسلمانوں اور پاکستان اور ہندوستان کے درمیان دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوتیں۔ مگر ہمارے سامنے مولانا محمد علی جوہر کی 1931ء کی تقریر رکھی ہوئی ہے۔ اس تقریر میں مولانا محمد علی جوہر گاندھی کو مخاطب کرکے کہہ رہے ہیں کہ ہندو شدھی کی تحریک کے تحت مسلمانوں کو زبردستی ہندو بنارہے ہیں مگر گاندھی جی انتہا پسند ہندوئوں کو کچھ نہیں کہتے۔ 1931ء میں نہ تحریک پاکستان موجود تھی نہ پاکستان کا مطالبہ سامنے آیا تھا مگر ہندو مسلمانوں سے اُن کا مذہب چھین رہے تھے۔ جن ہندوئوں کے لیے مسلمانوں کا مذہب ناقابل قبول تھا ان کے لیے مسلمانوں کی پوری تہذیب، تاریخ اور مسلمان کہاں قابل قبول ہوتے۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ مسلم برصغیر کی تین بڑی شخصیات ہندو انتہا پسندی کی وجہ سے قلب ماہیت کے عمل سے گزریں۔ سرسید ایک وسیع المشرب شخص تھے۔ وہ ہندوئوں کے خلاف کسی قسم کا تعصب نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کا کہنا تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں ہیں۔ مگر جب سرسید نے دیکھا کہ ہندو فارسی اور اردو کو پس منظر میں دھکیل رہے ہیں اور ہندی کو فروغ دے رہے ہیں تو ہندوئوں اور کانگریس کے بارے میں سرسید کی رائے تبدیل ہوگئی اور انہوں نے مسلمانوں سے کہنا شروع کیا کہ اگر انہیں اپنا مفاد عزیز ہے تو وہ کانگریس میں شامل نہ ہوں بلکہ الگ پلیٹ فارم سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جدوجہد شروع کریں۔ اقبال سرسید سے کہیں زیادہ وسیع المشرب تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں گوتم بدھ اور گرونانک کو سراہا ہے۔ شری کرشن کی تعریف کی ہے اور رام کو ’’امامِ ہند‘‘ کہا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ اقبال
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
کا راگ الاپ رہے تھے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے اقبال کی قلب ماہیت کردی اور اقبال یہ کہتے نظر آئے۔
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
اقبال کی شاعری ایک شعر تو اتنا زمین پرستانہ ہے کہ صرف ہندو ہی ایسا شعر لکھ لگتا تھا۔ اقبال نے کہا ہے۔
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرہ دیوتا ہے
مگر پھر اقبال کے تناظر میں انقلاب برپا ہوگیا
اور انہوں نے فرمایا۔
بازو ترا اسلام کی قوت سے قوی ہے
اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
قائداعظم تو تھے ہی کانگریس کے رہنما۔ وہ ہندو مسلم اتحاد کے اتنے قائل تھے کہ سروجنی نائڈو انہیں لیڈر مسلم اتحاد کا سب سے بڑا سفیر کہتی تھیں۔ مگر پھر قائداعظم دو قومی نظریے کے سب سے بڑے علمبر دار بن کر اُبھرے۔ تین بڑی مسلم شخصیتوں کی یہ قلب ماہیت بتاتی ہے کہ برصغیر میں ہندو مسلم دشمنی یا پاک بھارت عداوت کے ذمے دار نہ مسلمان ہیں نہ پاکستان ہے۔ اس کے ذمے دار ہندو اور ہندوستان ہیں۔
قائداعظم سے ایک بار ایک صحافی نے پوچھا آپ پاکستان اور بھارت کے درمیان کیسے تعلقات چاہتے ہیں۔ قائداعظم نے فرمایا جیسے (برادرانہ) تعلقات امریکا اور کینیڈا کے درمیان ہیں۔ لیکن ہندو انتہا پسندوں نے قیام پاکستان کے بعد مسلم کش فسادات کرکے پاک بھارت تعلقات کو خون کے سمندر میں غرق کردیا۔ ان مسلم کش فسادات میں 10 لاکھ مسلمان شہید ہوئے۔ 80 ہزار مسلم خواتین اغوا ہوئیں اس کے باوجود رائو منظر حیات اور ان جیسے بے ضمیر لوگ تاثر دیتے ہیں کہ پاک بھارت تعلقات کی خرابی کا ذمے دار پاکستان ہے؟ آخر وہ کون سا ملک تھا جس نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان کے حصے کے اثاثے پاکستان کو دینے سے انکار کیا؟ پاکستان یا بھارت؟
آخر وہ کون سا ملک ہے جو کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے گیا اور آج تک مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرنے پر آمادہ نہیں، پاکستان یا بھارت؟ کیا یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود نہیں کہ 1971ء میں بھارت نے مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کی اور پاکستان کو دو ٹکڑے کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ بھارت کے وزیراعظم نے سقوطِ ڈھاکا کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ آج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے اور مسلمانوں سے ایک ہزار سالہ تاریخ کابدلہ لے لیا ہے۔ سقوط ڈھاکا بھارت کی اتنی بڑی کامیابی تھی کہ اندرا گاندھی صرف سقوط ڈھاکا کا کریڈٹ لے کر خوش ہوسکتی تھیں مگر اس موقع پر انہوں نے پوری ایک ہزار سالہ تاریخ کو آواز دے ڈالی۔ اس کے باوجود بھی رائو منظر حیات پاکستان کو مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ اپنی بھارت دشمنی میں کمی کرے۔ یہ بات تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ بھارت کراچی کی بدامنی میں ملوث تھا اور وہ کھل کر الطاف حسین اور ایم کیو ایم کی حمایت کررہا تھا۔ یہ بات بھی تاریخ کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے آگرہ میں بھارت کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے روایتی موقف سے روگردانی کی مگر اس کے باوجود بھارت نے پاکستان کے ساتھ معاہدے پر دستخط سے انکار کردیا۔ بلوچستان کی بدامنی میں بھی بھارت ملوث ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن اس کا ٹھوس ثبوت ہے۔ ساری دنیا کو معلوم ہے کہ بھارت کی کئی ریاستوں کے تعلیمی نصاب میں اکھنڈ بھارت کا تصور پڑھایا جارہا ہے اور اکھنڈ بھارت کے تصور میں پاکستان بھارت کا حصہ ہے۔ اس کے باوجود بھی یہ کہا جارہا ہے کہ پاک بھارت دشمنی کا ذمے دار پاکستان ہے۔ جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے تو ان کے بھارتی ایجنٹ ہونے میں کوئی کلام ہی نہیں۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سابق سربراہ جنرل اسد درانی نے اپنی کتاب ’’اسپائی کرونیکلز‘‘ میں لکھا ہے کہ جب میاں نواز شریف وزیراعظم اور شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو شہباز شریف بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ بھارتی اور پاکستانی پنجاب کو ایک کرنے کے منصوبے پر مذاکرات کررہے تھے۔ ظاہر ہے ایسا کام صرف غدار ہی کرسکتے ہیں۔