قوم کے ہاتھ میں کشکول کس نے تھمایا؟

912

علمائے کرام کا دائرہ کار علم اور اس کا فروغ ہے۔ چناں چہ علما علم پر گفتگو کرتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔ علما اگر علم کے بجائے تجارت پر گفتگو کرنے لگیں تو ان کا سارا رعب اور دبدبہ ختم ہوجائے گا۔ شاعروں کا کام زندگی کی معنویت اور اس کے حسن و جمال کا اظہار ہے۔ چناں چہ شاعر محبت کے گیت گاتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔ شاعر اگر اسٹاک مارکیٹ کے اُتار چڑھائو پر کلام کرنے لگیں تو ان کا سارا شاعر پن ہوا ہوجائے گا۔ جرنیلوں کا کام ملک و قوم کا دفاع ہے۔ دشمن کو للکارنا ہے۔ چناں چہ جرنیل جنگ و امن پر گفتگو کرتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستانی جرنیلوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ عام خیال ہے کہ پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی جماعت اور جماعت اسلامی ملک کی سب سے منظم جماعت ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہمارے جرنیلوں نے فوج کو ملک کی سب سے بڑی اور سب سے منظم جماعت بنادیا ہے۔ خود ہمارے جرنیلوں کا حال یہ ہے کہ وہ جرنیل ہونے کے باوجود سیاست دانوں کی طرح بیان دیتے ہیں۔ اس کا ایک حالیہ ثبوت جنرل عاصم منیر کا حالیہ خطاب ہے۔
اس خطاب کے مطابق جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ تمام پاکستانیوں نے بھکاری کا کشکول اٹھا کر باہر پھینکا ہے۔ ہمیں دنیا کی کوئی طاقت ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی۔ پاکستان میں زرعی انقلاب آکر رہے گا۔ خانیوال ماڈل ایگریکلچر فارم کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پاک فوج کو قوم کی خدمت کرنے پر فخر ہے۔ فوج عوام سے ہے اور عوام قوم سے ہیں۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کو موجودہ بحران سے نکال کر دم لیا جائے گا۔ پاکستانی غیرت مند اور باصلاحیت قوم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو تمام نعمتوں سے نوازا ہے۔ ہمیں دنیا کی کوئی طاقت ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے، عوام اور ریاست کا رشتہ محبت اور احترام کا ہے۔ آرمی چیف نے اس موقع پر تقریب میں موجود افراد کو علامہ اقبال کا ایک شعر بھی سنایا۔ جو یہ تھا۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
دیکھا جائے تو یہ کسی بھی اعتبار سے ایک جرنیل کی تقریر نہیں ہے۔ یہ ایک سیاستدان کی تقریر ہے۔ یہ صرف سیاستدان ہیں جو نوٹ اور ووٹ کے لیے قوم کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔ جو قوم کو اپنی لفاظی سے مسحور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو خیالی پلائو پکاتے ہیں۔ قوم کے ہاتھ میں موجود کشکول توڑ دینے کی بات بہت شاندار ہے مگر اس سلسلے میں پہلا سوال یہ ہے کہ آخر قوم کے ہاتھ میں کشکول تھمایا کس نے ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہ جنرل ایوب تھے جنہوں نے سب سے پہلے عالمی بینک سے قرض مانگا۔ عالمی بینک ہو یا آئی ایم ایف یہ پہلے دن سے مغربی استعمار کے ہتھیار ہیں۔ ان ہتھیاروں کے ذریعے امریکا اور یورپ نے ترقی پزیر اقوام کو اپنا معاشی غلام بنایا ہے۔ اس وقت دنیا میں 70 سے زیادہ ملک آئی ایم ایف کے مقروض ہیں۔ بدقسمتی سے ان میں سے کسی بھی ملک کی معیشت مستحکم نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی بینک یا آئی ایم ایف کمزور قوموں کو معاشی اعتبار سے مضبوط اور خودکفیل بنانے کے لیے قرض نہیں دیتے بلکہ وہ قرضوں کے ذریعے کمزور قوموں کو اپنا غلام بناتے ہیں۔ بدقسمتی سے جنرل ایوب ہوں یا جنرل ضیا الحق، جنرل پرویز مشرف ہوں یا جرنیلوں کے تخلیق کیے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو، میاں نواز شریف، عمران خان یا شہباز شریف کسی نے بھی قوم کو قرضوں کے نشے میں مبتلا کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ اس نشے کا انجام کیا ہوگا۔ 1960ء کی دہائی میں پاکستان کا بیرونی قرض ایک ارب ڈالر سے بھی کم تھا۔ آج یہ قرض 100 ارب ڈالر کی حد پار کر چکا ہے۔ ہماری حالت یہ ہوگئی ہے کہ اب ہمیں پرانا قرض چکانے کے لیے بھی آئی ایم ایف سے نیا قرض لینا پڑتا ہے۔ ہمارا قومی بجٹ 7 ہزار ارب روپے کا ہوتا ہے تو اس میں سے 3000 ارب روپے قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی میں صرف ہوجاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس پوری صورت حال کے ذمے دار جرنیل ہیں۔ اس لیے کہ پاکستان 1958ء سے آج تک جرنیل خود یا ان کے تخلیق کردہ سیاست دان چلارہے ہیں۔ چناں چہ جنرل عاصم منیر کی اخلاقی ذمے داری تھی کہ وہ کشکول توڑنے کا وعدہ اور دعویٰ کرتے ہوئے یہ بھی بتاتے کہ قوم کو بھکاری بنانے والا اور اس کے ہاتھ میں کشکول تھمانے والا کون ہے؟ جنرل عاصم منیر کشکول توڑنا چاہتے ہیں تو اس سے زیادہ اچھی بات کیا ہوسکتی ہے مگر وہ اس کے ساتھ ہی کشکول توڑنے کا طریقہ بھی بتادیتے تو اچھا ہوتا۔ یہ حقیقت راز نہیں کہ قوم کی مجموعی آمدنی میں غیر معمولی اضافے کے بغیر ہم کشکول نہیں توڑ سکتے اور آمدنی میں غیر معمولی اضافہ ملک میں صنعتی اور زرعی انقلاب برپا کیے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے لیے ملک و قوم کو علم مرکز بنانا ہوگا۔ اس کے لیے ملک میں تعلیمی انقلاب برپا کرنا ہوگا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو قوم جنرل عاصم منیر سے پوچھ رہی ہے کہ ان کے پاس صنعتی و زرعی انقلاب برپا کرنے اور ملک کو تعلیمی انقلاب سے ہمکنار کرنے کے لیے کوئی منصوبہ موجود ہے یا نہیں۔ اگر یہ منصوبہ موجود ہے تو اسے سامنے لایا جائے بہ صورت دیگر سیاست دانوں کی طرح گفتگو بند کی جائے۔ ملک کی تاریخ بتاتی ہے کہ جنرل ایوب نے ملک پر 10 سال حکومت کی، جنرل ضیا الحق ملک پر 11 سال قابض رہے۔ قوم کے تین سال جنرل یحییٰ نے استعمال کیے۔ جنرل پرویز بھی ایک دہائی تک قوم کی تقدیر کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ جرنیلوں اور فوج میں کوئی ’’انقلابیت‘‘ ہوتی تو وہ اتنے طویل عرصے میں سامنے آجاتی۔ لیکن چار جرنیلوں کے اقتدار نے ملک و قوم کو کچھ بھی نہیں دیا۔ انہوں نے کچھ دیا تو فوجی آمریت کا تلخ تجربہ۔ دنیا کی تاریخ میں آمریتوں نے بھی بڑے کمالات دکھائے ہیں۔ سنگاپور کے لی کوان یو ایک آمر ہی تھے مگر انہوں نے ایک پسماندہ اور چھوٹے سے ملک کو ترقی یافتہ ملک بنایا۔ ملائیشیا کے مہاتیر محمد بھی ایک نیم آمر ہی تھے مگر انہوں نے ملائیشیا کو ایک بڑی معاشی طاقت بنادیا۔ چین تو ہے ہی انقلاب کے بعد سے ایک آمرانہ ریاست۔ مگر چین کے آمروں نے صرف 40 سال میں چین کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت بنا کر کھڑا کردیا۔ چین نے 40 سال میں 70 کروڑ لوگوں کو غربت کے چنگل سے نجات دلائی، مگر پاکستان کے چار بڑے آمروں اور ان کے تخلیق کیے ہوئے سیاست دانوں نے ملک و قوم کو کچھ بھی نہیں دیا۔ پاکستان کی آبادی 23 کروڑ ہے اور اس میں سے 10 کروڑ افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کررہے ہیں۔ ملک کی 70 فی صد آبادی کو پینے کا صاف پانی تک دستیاب نہیں۔ ملک کی 50 فی صد آبادی آزادی کے 75 سال بعد بھی ناخواندہ ہے۔ ملک کی 70 فی صد آبادی بیمار پڑتی ہے تو اسے معیاری علاج میسر نہیں آپاتا۔ ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر کھڑے ہیں۔ ملک میں 30 فی صد سے زیادہ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ کراچی ملک کا سب سے بڑا سب سے جدید اور پورے ملک کو پالنے والا شہر ہے۔ اس شہر کا حال یہ ہے کہ اس کی نصف آبادی پانی کی قلت کا شکار ہے۔ شہر میں ٹرانسپورٹ کی سہولتیں ناپید ہیں، شہر کی سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔ پورا شہر ایک بہت بڑی کچرا کنڈی کا منظر پیش کررہا ہے، لیکن جنرل عاصم منیر تاثر دے رہے ہیں کہ ان کی قیادت میں قوم بس کشکول توڑنے ہی والی ہے۔
جنرل عاصم منیر نے بالکل درست کہا ہے کہ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے جرنیلوں نے جو ریاست تخلیق کی ہے وہ ہرگز ماں کی طرح نہیں ہے۔ ہمیں 1971ء کا بحران اچھی طرح یاد ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے اکثریت حاصل کی تھی ماں جیسی ریاست کا فرض تھا کہ وہ شیخ مجیب اور عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم کرتے ہوئے اقتدار شیخ مجیب کے حوالے کردیتی مگر جنرل یحییٰ نے ایسا کرنے کے بجائے مشرقی پاکستان پر فوجی آپریشن مسلط کردیا۔ اس آپریشن کے آغاز پر جنرل نیازی نے ایک بیان میں کہا کہ ہم بنگالی خواتین کو اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ ان کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ کیا کوئی ماں اپنی اولاد کو ایسی دھمکی دیتی ہے۔ پاکستان کی جمہوریت جعلی ہے۔ کیا کوئی ماں اپنی اولاد کو جعلی جمہوریت کا تحفہ دے سکتی ہے۔ پاکستان میں اس وقت سیکڑوں افراد لاپتا ہیں۔ کیا ماں جیسی ریاست اپنے شہریوں کو لاپتا کرتی ہے۔ جرنیلوں نے قوم کو بھٹو، نواز شریف اور الطاف حسین جیسے سیاستدان دیے ہیں۔ کیا کوئی ماں جیسی ریاست اپنی اولاد پر مجرموں کو مسلط کرسکتی ہے؟