قاضی سراج اپنے دوست کے پاس گیا ہے

705

چند برس قبل فیڈرل بی ایریا کے ایک اسپتال میں ایمرجنسی میں کسی ڈاکٹر کو دکھانے گئے تھے داخلے کے قریب ہی میں کچھ لوگ کھڑے تھے ہم اندر جانے لگے تو ایک آواز آئی السلام وعلیکم۔ آواز جانی پہچانی تھی۔ لیکن کوئی ایسا فرد نظر نہیں آرہا تھا جس پر یہ گمان کیا جاسکے کہ آواز اس کی تھی۔ ایک مرتبہ پھر آواز آئی اور اس کے ساتھ ہی اسٹریچر پر رکھی بہت ساری پٹیوں میں سے ایک ہاتھ برآمد ہوا۔ ہم نے چونک کر غور سے دیکھا چہرہ کھلا ہوا تھا۔ یہ قاضی سراج تھے۔ ہمارے صفحہ محنت کے انچارج۔ ہم نے کہا کہ یہ کیا ہوگیا۔ کہنے لگے کچھ نہیں ویگن والے نے گاڑی چڑھادی تھی۔ ہم نے کہا کہ کیوں، کہنے لگے… ارے چھوڑیں آپ بتائیں کیسے ہیں خیریت سے یہاں کیوں؟ ہم نے کہا کہ ایک ڈاکٹر صاحب سے ملنا تھا۔ لیکن آپ کو کہاں کہاں چوٹ آئی ہے۔ تو کہنے لگے کہ بہت ساری چیزیں ٹوٹی ہیں جب اٹھیں گے تو پتا چلے گا۔ فی الحال تو پتا نہیں چل رہا لیکن اللہ کا شکر ہے مالک نے باقی جسم تو قابو میں دیا ہے، پھر کچھ عرصے کے بعد ہی وہ دفتر آنا شروع ہوگئے ان کی معاونت کچھ دوسرے ساتھی کرتے رہے پھر ان کے بیٹے معاذ نے محاذ سنبھال لیا، اسے نہیں معلوم تھا کہ جس محاذ پر اُسے بھیجا جاتا ہے محض آخری معائنے کے لیے، ایک دن وہ پورا محاذ اسے سنبھالنا پڑے گا۔ قاضی سراج کے ساتھ بہت وقت گزرا ہے ان کی پوری صحافتی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ جب ہم رپورٹنگ پھر نائٹ ڈیسک پر رہے اس کے بعد ایڈیٹر بنے۔ ایڈیٹر بننے کے بعد تقریباً ہر صفحے کا انتظار کرنا پڑتا، لیکن ہمیں یاد نہیں کہ کبھی اتوار کو یہ سوال ہوا ہو کہ کیا مزدوروں کا صفحہ تیار ہے۔ ہفتے کی رات کو تیار صفحہ ہماری میز پر رکھا ہوا ہوتا تھا۔ قاضی سراج کی ایک خواہش ہوتی تھی کہ
رپورٹ یا خبر کی سرخی ایسی لگے کہ جس کے بارے میں اسے سیدھی جا کر لگے۔ ایک مرتبہ ہمارے پاس آئے کہ یہ مزدوروں کا براہ راست معاملہ تو نہیں لیکن ٹریڈ یونین کے حوالے سے تعلقات والے ایک صاحب نے جب سے نیا فریج لیا ہے اس میں سے پانی بہہ رہا ہے اور ڈیلر کہتا ہے کہ دکان پر چھوڑ جائو جب تبدیل ہوجائے گا تو لے جانا۔ کچھ ایسا لکھیں کہ سیدھا جا کر لگے۔ ہم نے پوری کہانی تو جوں کی توں لکھی رہنے دی۔ بس سرخی لگادی کہ ڈائولینس لیا تو پھنس گئے۔ اگلے ہفتے کو بتایا کہ جناب پیر کو چھپا منگل کو ڈائولینس کا نمائندہ آیا۔ بدھ کو دو اور افراد آئے اور کہا کہ کل یہ فریج جائے گا خالی کرلیں آپ کو اگلے دن نیا فریج مل جائے گا، اور مل بھی گیا۔ اب قاضی صاحب نے کہا کہ یہ اچھا کام ہوا ہے تو اس کو بھی چھاپ دیں۔ ہم نے پھر کہانی چھاپی اور سرخی لگائی جسارت میں چھپا تو بات بنی۔
یہ جسارت کا صفحہ محنت کیا ہے اس کے بارے میں اگر ہم خود کچھ کہیں تو یہ اپنے منہ میاں مٹھو بننا ہے۔ جمعہ کو پروفیسر شفیع ملک بتارہے تھے کہ بھارت سے کچھ بائیں بازو کے لیڈر آئے جسارت دیکھا اور صفحہ محنت کے بارے میں کہا کہ ایسا اخبار اور ایسا صفحہ ہم ہندوستان میں نہیں نکال سکتے۔ شفیع ملک صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت کے منتظمین کو شاید جسارت کے اس قدر اہم ہونے کا یقین نہیں تھا۔ کیفیت تو اب بھی یہی ہے۔ لیکن قاضی سراج کے جنازے اور اب تک ہونے والے تعزیتی پروگراموں سے اندازہ ہوتا ہے کہ جسارت کا صفحہ محنت کتنا مقبول ہے۔ جنازے میں اسٹیٹ بینک، ڈیموکریٹک ورکرز یونین کے جنرل سیکرٹری لیاقت علی ساہی کہہ رہے تھے کہ قاضی سراج نے لیفٹ اور رائٹ کے امتیاز سے بالاتر ہو کر صرف مزدوروں کے مسائل اجاگر کیے۔ اور آج جسارت کا صفحہ محنت مزدور کی پہچان ہے، اس سے این ایل ایف کی بھی شان ہے کہ اس کے لوگ ہر مزدور کے مسئلے کو اپنا سمجھتے ہیں۔ قاضی سراج محنت کرنے والا آدمی تھا خود خبریں تلاش کرتا، تصویریں بناتا، کسی ادارے میں زیادتی کی شکایت ہوتی تو اس کی خبر بھی لگاتا، ان کا موقف بھی لگاتا تھا۔ لیاقت ساہی نے کہا کہ میں اکیلا نہیں آیا ہوں درجنوں ٹریڈ یونین والے آئے ہیں اور جسارت جو ایک پارٹی کا ترجمان ہے اس میں ہر پارٹی کی مزدور تنظیم کی خبریں شائع ہونا بڑی بات ہے۔
مختلف لوگوں سے ہم جسارت میں مالی مشکلات، تنخواہوں میں کمی وغیرہ کا شکوہ سنتے ہیں۔ قاضی سراج سے کبھی یہ شکوہ نہیں سنا بلکہ ایک ہی دفعہ شکوہ سنا اور وہ گویا روتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ظلم نہ کریں۔ ہم نے کہا کیوں سا ظلم تو کہنے لگے میری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔ ہم نے کہا کون سی بربادی۔ تو جواب ملا کہ جناب میں نے سنا ہے کہ صفحہ محنت ختم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ پھر ہم نے ذمہ داروں سے پوچھا کچھ ایسی ہی باتیں تھیں پھر ان کو سمجھایا پھر اعداد و شمار نکالے تو پتا چلا کہ ہر پیر کو تین چار سو سے ہزار اخبارات تک اضافی خریدے جاتے ہیں، مختلف ٹریڈ یونینز خریدتی ہیں۔ بہرحال پھر قاضی سراج کو بتایا گیا کہ صفحہ بند نہیں ہوگا۔ ایسے خوش ہوئے جیسے سال کے تین بونس اور تنخواہ میں دوگنا اضافے کی خبر دی گئی ہو۔
وی ٹرسٹ کی جانب سے تعزیتی ریفرنس میں پروفیسر شفیع ملک نے بتایا کہ قاضی سراج نے صحافت ’’الکاسب‘‘ سے شروع کی تھی۔ یعنی وہ بنیادی طور پر الکاسب حبیب اللہ کے مصداق تھے۔ شاید اسی لیے قاضی سراج کے انتقال پر ہمیں افسوس کے ساتھ ایک اطمینان بھی ہے۔ اور اگر ہم سب یہ اطمینان حاصل کرلیں تو ہمارے گھروں میں بین اور سوگ کی کیفیت زیادہ دیر نہ رہے۔ وہ اطمینان یہ ہے کہ جب الکاسب حبیب اللہ ہے تو ایک دوست دوسرے دوست کے پاس چلا گیا۔ اس دوست کے پاس جو ستر مائوں سے زیادہ پیار کرنے والا ہے۔ جو پلٹ آنے کو پسند کرتا ہے۔ اگر کوئی اتنے اچھے اور سچے دوست کے پاس چلا جائے تو افسوس کیسا، تعزیت کیسی۔ ہم سب کو بھی اپنی تیاری ایسی ہی رکھنی چاہیے کہ جوں ہی دوست نے بلایا لبیک کہتے ہوئے حاضر ہوجائیں اور ہاں ہمارے ملک میں سیاستدان شور کرتے ہیں ہمارے ساتھ ظلم ہوتا ہے لیکن وہ طاقتور ہوتے ہیں اقتدار میں رہتے ہیں، بڑے بڑے طاقتور لوگ کہتے ہیں کہ ہماری عزت اچھالی گئی، ہتک عزت کے دعوے کیے جاتے ہیں، اپنی عزت کے لیے آئین سے بالا قانون بنائے جاتے ہیں لیکن صبح شام اللہ کے دوستوں کے ساتھ ہم یہی سلوک کرکے خود کو نہ جانے کیا سمجھتے ہیں۔ یہ اللہ کا کنبہ ہے اس کے ہاتھ محنت کرتے ہیں ان ہاتھوں کے لمس کا بھی اجر ملے گا لیکن اگر الکاسب نے بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کر کہہ دیا کہ میرے مالک تیرے دوست کے ساتھ اس جہاں میں زیادتی ہورہی ہے تو سوچ لیں اللہ اپنے دوست کے لیے کیا کچھ کرسکتا ہے۔