جنیوا: پاکستان کے خلاف اسرائیلی ہرزہ سرائی

732

جنیوا میں اقوام متحدہ کی کونسل برائے انسانی حقوق کے 53ویں اجلاس میں فلسطین پر جبری قابض ناجائز ریاست اسرائیل کی مندوب نے پاکستان کے خلاف جن خرافات کا اظہار کیا وہ 57اسلامی ممالک اور دو ارب مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، کون نہیں جانتا کہ مغربی استعمار نے اپنی سرپرستی میں دنیا کے 80ممالک سے دہشت گرد صہیونی اور یہودی جمع کرکے فلسطین میں لا بسائے اور فلسطین پر قبضہ کیا اور اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کا قیام عمل میں لایا، اسرائیل میں پانچ فی صد صہیونی اور یہودی مقامی ہیں 95 فی صد صہیونی اور یہودی دنیا بھر سے لاکر بسائے گئے اور آج بھی یہ مشق جاری ہے، کیا آج کی دنیا اس حقیقت سے باخبر ہے کہ فلسطین پر اسرائیل جیسی ناجائز ریاست کے قیام کی پاداش میں 45 لاکھ فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے جبری طور پر نکالا گیا جو آج بھی مہاجرت کی زندگی بسرکرنے پر مجبور ہیں، لاکھوں کو شہید کیا گیا ہزاروں کو گرفتار کرکے ٹاچر سیلوں میں تشدد کرکے معذور کیا گیا، عفت مآب خواتین کی عصمت دری کی گئی، مسلمانوں کے قبلہ اوّل اور مقامات مقدسہ کی بے حرمتی کے واقعات پوری دنیا کے سامنے ہیں۔ فلسطینی آج بھی 14مئی 1948 کے سانحہ کو یوم نکبہ کے طور پر مناتے ہیںجس کے معانی ہیں بڑی تباہی، دیر یاسین، صابرہ وشتیلا مہاجر کیمپوں میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں ڈھائے جانے والے مظالم کو کون بھول سکتا ہے؟ دنیا بھر کے مستند انسانی حقوق کے سارے ادارروں کی رپورٹوں کا جائز لیں تو آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ اسرائیل فلسطین میں اور ہندوستان مقبوضہ کشمیر اور ہندوستان کے اندر انسانی حقوق کس طرح پامال کررہے ہیں اور جنگی جرائم کے مرتکب ہورہے ہیں۔

عالمی صہیونی تنظیم اور ہندو توا کے منشور اہداف اور دنیا پر حکمرانی کرنے کے عزائم اور جبری انسانوں کو صہیونی اور ہندو بنانے کے منصوبے یکساں ہیں، دونوں تنظیموں کی سوچ وفکر ایک ہے کام کرنے کے انداز ایک ہیں۔ دونوں مسلمانوں کو یکساں ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ 57اسلامی ممالک کے حکمران اور دو ارب مسلمان اپنے ذہنوں سے یہ نکل لیں کہ ہندوستان اور اسرائیل صرف فلسطینیوں، کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف ہیں یہ پوری امت کے خلاف ہیں اور پوری امت کے حوالے سے اپنے مکروہ عزائم رکھتے ہیں۔ ان کا آپس میں گہرا رابطہ بھی ہے۔ صہیونیوں کا ہدف ہے کہ مسلمانوں کے مقدس مقام قبلہ اوّل پر قبضہ کیا جائے اور مسلمانوں کو ان کی اصل سے محروم کیا جائے اسی طرح ہندو توا کا خیال ہے کہ خانہ کعبہ میں بت رکھے ہوئے تھے اس لیے کعبہ پر قبضہ کرکے ایک بار پھر وہاں بت رکھے جائیں۔ دونوں اپنے ان ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے سرگرداں ہیں۔

ہندوستان اور اسرائیل نہ صرف دہشت گرد ریاستیں ہیں بلکہ دہشت گردی کو عالمی سطح پر پھیلانے کا سب سے بڑا نیٹ ورک بنائے ہوئے ہیں اور عالمی سطح پر دہشت گردی کررہے ہیں، آئے روز پاکستان اور دیگر ممالک سے ہندوستان اور اسرائیل کے جاسوس گرفتار ہوتے ہیں اور وہ کھلے بندوں کہتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کرا رہے تھے، گلبھوشن یادیو اس کا عملی ثبوت ہے۔ حماس کے سربراہ خالد مشعل پر جب اردن میں حملہ کیا گیا تھا تو حماس کے گارڈز نے حملہ آوروں کو گرفتارکرلیا تھا جو موساد کے ایجنٹ تھے اور ان کے بدلے میں شہید شیخ احمد یاسین رہا ہوئے تھے۔ اس کا کھلا ثبوت ہے۔ ہندوستان اور اسرائیل کے مکروہ عزائم سے پوری انسانیت پریشان ہے۔ مسلمان آگے بڑھیں اور پوری انسانیت کو بچائیں۔

نریندر مودی نے مقبوضہ کشمیر میں مسلم آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کا منصوبہ اسرائیل سے لیا ہے، صہیونی منصوبہ سازوں نے مودی کو منصوبہ دیاکہ ہندووں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کریں تو مسلم اکثریت اقلیت میں بدل جائے گی اس کے بعد آپ پر دبائو آئے کہ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دو تو آپ کے لیے آسان ہوجائے کہ ہندو اکثریت میں ہوں گے وہ ہندوستان کے حق میں فیصلہ دیںگے۔ آپ کو قانونی طور پر کشمیر مل جائے گا، مودی اسی منصوبے پر عمل پیرا ہے، اطلاعات کے مطابق مودی نے 45لاکھ غیر کشمیری اور غیر ریاستی ہندووں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کیے ہیں۔ کشمیر کی اسلامی شناخت مٹانے کا منصوبہ بھی اسرائیل کا ہے۔ پاکستان میں جتنی بھی تخریبی کارروائیاں ہوتی ہیں ان کے پیچھے اسرائیل اور ہندوستان کا عمل دخل ہوتا ہے۔ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا ہندوستان اور اسرائیل کا ایجنڈا ہے اور اس کے لیے وہ وسائل صرف کررہے ہیں۔

عرب اور اسلامی ممالک میں سے جن ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کیا ان کو بھی اسرائیل نے اپنی سازشوں سے معاف نہیں کیا اور نقصان پہنچایا، مصر سمیت وہ ممالک آج پچھتا رہے ہیں، تعلقات کو کم اور بعض ختم کرچکے ہیں اور جن کے ابھی تک قائم ہیں وہ بھی غورکررہے ہیں کہ ختم کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مقدس کتاب میں مسلمانوں کی رہنمائی کی کہ یہ آپ کے دوست نہیں ہوسکتے یہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اللہ کی بات سے اور کس کی بات سچی ہوسکتی ہے۔ اسلامی ممالک اور مسلمانو ں کو اس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔

موجودہ دنیا میں مسلمان اور اسلامی ممالک اس پوزیشن میں ہیں کہ اپنی ٹانگوں میں جان ڈالیں تو دنیا کو امن اور سکون فراہم کراسکتے ہیں، دنیا امن کی تلاش میں ہے، چند شر پسند عناصر دنیا میں بدامنی کا باعث ہیں ان کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے اور مسلمان یہ کام آسانی سے کرسکتے ہیں۔ صرف اسلامی ممالک اسرائیل اور ہندوستان کا سیاسی سفارتی اور معاشی بائیکاٹ کردیں تو ہندوستان اور اسرائیل نام کی ریاستیں دنیا کے نقشے پر نہیں ملیںگی۔ ان کی معیشت کا دارو مدار اسلامی ممالک پر ہے۔ ہندوستان کی 70معیشت کا دارو مدار اسلامی ممالک پر ہے۔ اسلامی ممالک کا المیہ یہ ہے کہ حکمران بزدل ہیں، وہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کرسکتے۔ سب کچھ ہونے کے باوجود دبے ہوئے ہیں۔ اس کا بھی حل امت کو نکالنا چاہیے۔ اتحاد اور اتفاق کی بڑی ضرورت ہے دشمن چاہتا ہے کہ ہماری صفوں میں اتحاد اور اتفاق پیدا نہ ہو، پوری امت کو حکمت کے ساتھ یہ کام کرنا چاہیے۔ یہ طے ہے کہ کشمیر اور فلسطین نے آزاد ہونا ہے، کب ہونا ہے اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ پر منحصر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ کب بروئے کار آتی ہے یہ صرف اللہ ہی کو پتا ہے، ہمارا کام جدوجہد کرنا ہے فتح سے ہمکنار کرنا اللہ کا کام ہے۔ دشمنوں کے عزائم کا ادراک کرتے ہوئے ان کے تدارک کے لیے اقدامات کرنا حکمرانوں کا فرض منصبی ہے۔