جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر کا 49واں یوم تاسیس

729

پاکستان اور آزاد کشمیرکی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں سوائے جماعت اسلامی کے ٹوٹ پھوٹ کا شکارہیں، اب لوگ ان کو پارٹیاں کم اور ذاتی پراپرٹیاں زیادہ کہہ رہے ہیں، یہ پارٹیاں ملک کو ترقی اور عوام کو ریلیف دینے میں برے طریقے سے ناکام ہوئی ہیں، پاکستان اور آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی کے سوا ساری پارٹیاں حکومت میں ہیں مگر حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ دگرگوں ہورہے ہیں، مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے بدامنی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے، قومی خزانے کو شیر مادر سمجھ کر لوٹا جارہا ہے، معیشت ڈیفالٹ کی طرح گامزن ہے اور حکمران وزراء کی فوج میں اضافہ کیے جارہے ہیں، ایک مخصوص طبقہ ہے جو قومی خزانے پر قابض ہے، یہ طبقہ عوام کو کسی قیمت پر ریلیف دینے کے لیے تیار نہیں ہے، تحریک آزادی کشمیر جو قومی سلامتی کا ایشو ہے، اس حوالے سے بھی کماحقہ کردار ادا کرنے میں پس پیش کیا جارہا ہے، ان مخدوش حالات میں قوم کی نگاہیں جماعت اسلامی کی طرف اٹھتی ہیں جماعت اسلامی سے لوگ توقع کررہے ہیں کہ جماعت اسلامی ملک وملت کو اس بحران سے نکالے اور عوام کو ریلیف فراہم کرے۔ ان حالات میں جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر اپنا 49واں یوم تاسیس منا رہی ہے۔
جماعت اسلامی آزاد جموں کشمیر گلگت بلتستان کا قیام 13جولائی 1974ء کو عمل میں آیا، اپنی تاسیس سے لے کر اب تک جماعت اسلامی نے اسلامی نظام کے قیام، عوامی خدمت اور تحریک آزادی کشمیرکو منزل سے ہمکنارکرنے کے لیے جوکارہائے نمایان سرانجام دیے وہ تاریخ کا درخشندہ باب ہیں۔ جماعت اسلامی کے قیام کے لیے 13جولائی کے دن کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ اسی دن سری نگر میں اذان مکمل کرتے ہوئے ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں 22مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے اللہ کی کبریائی بلند کی تھی اور اپنی منزل کا تعین کردیا تھا، جماعت اسلامی نے اس دن کی اہمیت کے پیش نظر جماعت کے قیام کا اعلان بھی اسی دن کیا، جماعت اسلامی اسی منزل کی جانب گامزن ہے اور قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کررہی ہے۔ جماعت اسلامی کے قیام کے موقع پر مولانا عبدالباری مرحوم جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر گلگت بلتستان کے پہلے امیر منتخب ہوئے۔ ان کے بعد کرنل (ر)رشید عباسی مرحوم امیر منتخب ہوئے۔ ان کی وفات کے بعد عبدالرشید ترابی اور بعد ازاں سردار اعجاز افضل خان اور پھرعبدالرشید ترابی اس کاروان سخت جاں کے امیر رہے۔ 2017 سے 2023 تک ڈاکٹر خالد محمود خان امیر رہے اور چند دن قبل اراکین جنر ل کونسل نے ڈاکٹر محمد مشتاق خان کو امیر منتخب کیا ہے۔
جماعت اسلامی وہ واحد جمہوری جماعت ہے اس کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ تاسیس سے لے کر اب تک دستور کے مطابق ایک دن کی تاخیر کیے بغیر اپنے امیر کا انتخاب کرواتی چلی آرہی ہے اور امیر جماعت کا انتخاب ہر تین سال بعد اراکین جنرل کونسل خفیہ رائے دہی سے کرتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ حقیقی جمہوری جماعت ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس لیے اس ملک اور ریاست میں اگر کوئی تبدیلی اور حقیقی جمہوریت لاسکتی ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے۔ باقی تقریباً ساری پارٹیاں خاندانی پارٹیاں ہیں۔ جماعت اسلامی میں کارکن کو تقویٰ اور کام کی بنیاد پر دیکھا جاتا ہے جب کہ باقی جماعتوں میں سرمائے اور خاندانوں کی بنیاد پر آگے لایا جاتا ہے۔
جماعت اسلامی ایک انقلابی تحریک ہے جو فرسودہ نظام کو تبدیل کرکے اس کی جگہ وہ نظام لانا چاہتی ہے جو اللہ نے دیا ہے اور نبیؐ نے مدینے میں قائم کرکے دکھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنا نائب بنا کر دنیا میں بھیجا اس کے ذمے یہ کام لگایا کہ وہ زمین پر اللہ کا قانون نافذ کرے گا اور انسان اللہ کے دیے ہوئے قانون کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کریں گے، جو ایسا کرے گا وہ موت کے بعد ہمیشہ رہنے والی جنت میں جائے گا۔ جو اس رائے میں رکاوٹ ڈالے کا وہ اپنا انجام سوچ لے، یہ دو راستے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کے ذریعے انسانوں کو بتائے۔ جن لوگوں نے انبیاء کی بات مان لی وہ کامیاب ہوگئے اور جنہوں نے انکار کردیا وہ ناکام اور نامراد ہوگئے۔
یہی پیغام نبی آخرالزمان کا تھا۔ نبیؐ نے اس نظام کو قائم کرکے دکھایا، مدینے کی ماڈل ریاست جو نبیؐ نے قائم کی دنیا کے لیے ایک مثال تھی۔ اس جیسی ریاست آج تک کوئی قائم نہ کرسکا، یہ نظام خلفاء راشدین تک اور کچھ عمر بن عبدالعزیز نے قائم کیا جو مثالی تھا، اس کے بعد اس نظام کی عمارت گرگئی جس کی وجہ سے امت مسائل کا شکار ہوگئی۔ آج ہمارا دین بطور نظام حیات مغلوب ہے اور جماعت اسلامی اسی لیے اٹھی ہے کہ وہ دین کو بطور نظام حیات قائم کرے۔
جماعت اسلامی کی ذمے داری مختلف ادوار میں جن قائدین کے کندھوں پر رہی، انہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں لگاکر ان کی آبیاری کی۔ جماعت اسلامی نے زمام کار کی تبدیلی، اصلاح معاشرہ، عوامی خدمت اور تحریک آزادی کشمیر میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں اور دے رہی ہے۔
جماعت اسلامی کے بانی امیر مولانا عبدالباری مرحوم نے تحریک آزادی کشمیرکو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، مقبوضہ کشمیرکے دورے کیے اور وہاں کے عوام اور قائدین کو آزادی کی تحریک کے لیے کام کرنے پر آمادہ کیا، یہاں قومی قیادت اور ذمے داران سے ملاقاتیں کروائیں، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیرکے عوام کو ایک پیچ پر لایا۔ ان کی ضروریات کا اہتمام کیا، اندورن ملک اور بیرون ملک دورے کیے اور ایک فضاء تیار کی۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی ہی وہ واحد جماعت ہے جس نے تحریک آزادی کشمیرکے لیے سب سے زیادہ عملی کام کیا۔ مقبوضہ کشمیر سے بھارتی فوج کے مظالم سے تنگ آ کر ہجرت کرنے والوں کی بے مثال خدمت کی اور ابھی بھی ان کی خدمت کی جا رہی ہے۔ ان کے بعد کرنل رشید عباسی مرحوم نے یہ بیڑا اٹھایا اور کام کو آگے بڑھایا۔ ان کی اچانک رحلت کے بعد اس کام کا بیڑا عبدالرشید ترابی نے اٹھیا دنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا، اس سلسلے میں دنیا کے مختلف ممالک میں کانفرنسوں اور سیمیناروں کا انعقاد ہوتا رہا جن میں مختلف ممالک کے سیکڑوں کی تعداد میں مندوبین اور سربراہان مملکت شریک ہوتے رہے جنہوں نے عبدالرشید ترابی کی تحریک پر کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کا اعلان کیا اور متفقہ قراردادیں بھی منظور کیں۔ ان ہی کوششوں اور کاوشوں کے نتیجے میں او آئی سی میں کشمیر کنٹیکٹ گروپ کا قیام عمل میں آیا اور برطانیہ کی پارلیمنٹ میں مسئلہ کشمیر زیر بحث آیا، یورپی یونین، عرب لیگ اور دیگر فورموں پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا گیا۔ ابلاغ کے محاذ پر مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مختلف زبانوں میں سیکڑوں کتب اور میگزین شائع ہو رہے ہیں ان سے دنیا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے مظالم اور مسئلہ کشمیر سے آگاہی حاصل کر رہی ہے۔
مسئلہ کشمیر کو تحلیل کرنے کے لیے جب چارنکاتی فارمولا پیش کیا تھا تو جماعت اسلامی کے سوا سب ڈھیر ہو گئے۔ اس وقت بھی جماعت اسلامی اور اس کی قیادت ہی کھڑی رہی چاہے وہ سردار اعجااز افضل خان ہوں یا عبدالرشید ترابی۔ باقی ساری آزاد کشمیرکی قیادت چار نکاتی فارمولے کی ٹرین پر چڑگئی تھی۔ جماعت اسلامی اور اس کی قیادت نے تحریک آزادی کشمیر کو اس حادثے سے بچایا۔