دینی مقدَّسات کی حرمت کا تحفظ(آخری حصہ)

768

ہم نے بارہا کہا ہے: ’’ناموسِ رسالت کی بے حرمتی پر ایف آئی آر کے اندراج کو آسان بنایا جائے، اس طرح ملزَم قانون کی تحویل میں چلا جائے گا، پولیس کی حفاظتی حراست میں رہے گا اور کوئی اس پر دست درازی نہیں کرپائے گا، اُسے شواہد کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جائے‘‘۔ نیز اس طرح کے مقدمات کو براہِ راست فیڈرل شریعت کورٹ میں ٹرائل کیا جائے اور ان کے فیصَل ہونے کے لیے زیادہ سے زیادہ تین ماہ کی مدت کا تعین کیا جائے، اس طرح قانون کا غلط استعمال ازخود رک جائے گا۔ سیلاب میں جب پانی کو بہائو کا راستہ نہیں ملتا تو دریا کے اطراف زمین کا کٹائو ہوتا ہے، پانی ہر سمت پھیل جاتا ہے اور انسانوں، حیوانات، مکانات اور آبادیوں کے نقصان کا باعث بنتا ہے۔ فقہی مسئلہ ہے: ’’قلیل پانی کسی جوہڑ میں رک جائے، اُس میں گردوغبار، کنکر پتھر، گھاس پھونس اور آلائشیں بھی جمع ہوتی ہیں اور وہ ناپاک ہوجاتا ہے، جبکہ اس کے برعکس بہتا ہوا پانی پاک ہوتا ہے‘‘، اس لیے قانون کے سریع العمل نفاذ میں جتنی رکاوٹیں پیدا کی جائیں گی، نظامِ عدل میں اتنی ہی خرابیاں پیدا ہوں گی، کرپشن در آئے گی، رشوت کا دوردورہ ہوگا اور مظلوم انسانیت ایسے نظام سے پناہ مانگے گی۔

دینی مقدّسات کی توہین کے مقدّمات کو فیڈرل شریعت کورٹ میں دائر کیا جائے اور اس پر اپیل صرف شریعت کورٹ اپیلٹ بنچ میں دائر ہونی چاہیے، جسٹس آصف سعید کھوسہ جیسے ججوں کے سامنے یہ مقدمات آئیں گے تو اُن کا حشر وہی ہوگا جو ماضی میں ممتاز حسین قادری اور آسیہ مسیح کے مقدمات کا ہوا، جب جج کے اپنے عقیدے میں دینی مقدسات کی ناموس کی کوئی حیثیت نہ ہو، تو اُن کے پاس ثبوت وشواہد پر مشتمل مقدمات کو بھی ردّکرنے کے دسیوں حیلے بہانے اور فنّی حربے ہوتے ہیں، آسیہ مسیح کے مقدمے میں ان کی دلیل عجیب تھی: ’’جب ساٹھ عورتیں اس وقوعہ کو دیکھ رہی تھیں تو صرف چند نے گواہی دی اور باقی نے کیوں نہ دی‘‘، جبکہ قانونی تقاضا فقط یہ ہوتا ہے کہ شرعی معیار پر گواہی درست ہو اور نصابِ شہادت پورا ہو، اس پر ہم ماضی میں مفصّل کالم لکھ چکے ہیں۔

پس لازم ہے کہ دینی مقدّسات کی سماعت کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ شریعت اپیلٹ بنچ میں دینی علوم کے ماہر جج مقرر کیے جائیں، صرف جج صاحبان کے لیے دینی علوم کا ماہر ہونا ہی کافی نہیں ہے، اُن کی دیانت وامانت اور فقاہت وثقاہت پر سب کا اعتماد ہونا چاہیے۔ ماضی میں اُس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف نے جون 2002ء میں حرمتِ سود کے مسئلے کو نمٹانے کے لیے دو علماء جج ہی تلاش کیے تھے: جسٹس علامہ خالد محمود کو مانچسٹر برطانیہ سے درآمد کیا گیا تھا اور دوسرے جج جسٹس ڈاکٹر رشید احمد جالندھری تھے، اس بنچ کی سربراہی جسٹس افتخار محمد چودھری کر رہے تھے، یہ بنچ 2002ء میں سانپ سیڑھی کے کھیل کی طرح حرمتِ سود کے مسئلے کو 99 سے صفر پر لے آیا تھا۔

وزیر اعظم نے جمعۃ المبارک 7جولائی کو سویڈن میں اہانتِ قرآنِ کریم کے سانحے پر قومی جذبات کے اظہار کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا ہے اور جمعۃ المبارک کو ملک بھر میں احتجاج کی اپیل کی ہے، ہم اس کی تحسین کرتے ہیں۔ مگر یہ بھی گزارش کرتے ہیں کہ احتجاج اُن لوگوں کا حق ہے جو ایوانِ اقتدار سے باہر ہوتے ہیں، حکومتِ وقت اور حکمرانوں کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ مؤثر اقدامات کریں، او آئی سی کے ساتھ مل کراقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل اور حقوقِ انسانی کے عالمی اداروں میں یہ مسئلہ اٹھائیں اور عالمی سطح پراس اصول پر مکالمے کا آغاز کریں کہ اس طرح کی مذموم کارروائیاں امنِ عالَم کے لیے خطرہ ہیں، مذاہب اور انسانیت کے درمیان نفرت کا باعث ہیں۔ صرف اظہارِ تاسّف اور مذمتی بیانات سے ان کا سدِّباب یا مداوا نہیں ہوسکتا، اسے عالمی سطح پردہشت گردی کی طرح سنگین اور قابلِ تعزیرجرم قرار دیا جائے اور ایسی عدالتوں میں مسلمانوں کے معتمد نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے۔

ہماری شدید خواہش تو ہے کہ عالم انسانیت کا ہر فرد ہمارے دینی مقدّسات کا احترام کرے، لیکن غیر مسلموں سے ہمارا یہ مطالبہ نہیں ہے کہ وہ اسلام کے دینی مقدّسات کا لازماً احترام کریں، کیونکہ احترام تب ہوتا ہے جب دل میں کسی کی تعظیم ہو، قرآنِ کریم میں فرمایا: ’’اور جس نے اللہ کی نشانیوں کی تعظیم کی تو بے شک یہی شعار دلوں کا تقویٰ ہے‘‘۔ (الحج: 32) البتہ ہمارا یہ مطالبہ ضرور ہے اور بجا ہے کہ وہ اسلام کے دینی مقدسات کی توہین نہ کریں اور خود اسلام بھی دوسرے مذاہب کو یہ ضمانت دیتا ہے، قرآنِ کریم میں ہے: ’’مسلمانو! یہ لوگ اللہ کے سوا جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں، انہیں گالی نہ دو، ورنہ وہ (ردِّعمل میں) سرکشی اور جہالت کی بنا پر اللہ کی شان میں بے ادبی کریں گے‘‘۔ (الانعام: 106)

ہمارے ہاں لبرل چند مثالیں ڈھونڈ کر یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے اپنے گستاخوں کو معاف کردیا تھا، اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اپنے حق کو معاف کرنا صاحبِ حق کا اختیار ہوتا ہے، کسی دوسرے کو یہ اختیار استعمال کرنے کا حق نہیں ہے، نیز فتح مکہ کے موقع پر جب آپؐ نے اپنے تمام مخالفین کے لیے عفوِ عام کا اعلان کیا تھا، اُس وقت بھی آپؐ نے گستاخِ نبوت ابن خطل کو معاف نہیں کیا تھا اور اُسے جہنم رسید کرنے کا حکم فرمایا تھا، اسی طرح جب ایک نابینا صحابی نے اپنی بیوی کو قتل کردیا اور اُسے بارگاہِ نبوت میں طلب کیا گیا تو انہوں نے کہا تھا: یارسول اللہ! مجھے اپنی اس بیوی سے بے انتہا محبت تھی، اس سے میرے حسین وجمیل اور پیارے بچے ہیں، مگر یہ آپ کی شان میں گستاخی کرتی تھی، اس لیے میں نے اس کے پیٹ میں خنجر گھونپ کر اسے جہنم رسید کردیا، رسول اللہؐ نے اُن کے اس اقدام کو برقرار رکھا اور ان کے خلاف کوئی تعزیری کارروائی نہیں کی، یہ اس بات کی دلیل تھی کہ گستاخِ نبی واجب القتل ہے۔

یہ بھی گزارش ہے: کئی لوگ شانِ نبوت میں یا دینی مقدسات کی اہانت پر مبنی آڈیو ویڈیو کلپس کو وائرل کرتے رہتے ہیں، ازراہِ کرم یہ ہرگز نہ کریں، ایک ہی جیسے مناظر بار بار دیکھنے اور دکھانے سے اُن کی سنگینی میں کمی واقع ہوتی ہے اور مسلمانوں میں بے حسی پیدا ہوتی ہے، جس کے بارے میں معلوم ہو اُسے قانون کے حوالے کرنا چاہیے۔ اب جبکہ 7جولائی کو اس مسئلے پر قومی جذبات کے اظہار اور پالیسی طے کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرلیا گیا ہے، تو پارلیمنٹ پر لازم ہے کہ وہ کم از کم اپنے ملک کے اندر دینی مقدسات کی اہانت پر مشتمل مواد کو فِلٹر کرنے کے لیے کوئی نظام وضع کرے اور ایسے لوگوں کے خلاف سخت اور سریع العمل کارروائی کے لیے سائبر کرائم میں نئی دفعات کا اضافہ کرے، آخر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قوم کی اشک شوئی کے لیے کوئی تو مؤثر کارروائی سامنے آنی چاہیے۔

موجودہ دور میں ہم دینی مقدسات کی توہین کے حوالے سے قانون کو ہاتھ میں لینے کی حمایت ہرگز نہیں کریں گے، بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کریں گے، کیونکہ اس کے منفی نتائج بھی ہوسکتے ہیں، لیکن جب ہمارا قانون صرف قانون کی کتابوں کی زینت بنا رہے گا اور ہمارے نظامِ عدل میں وہ پورے دینی اور ایمانی عزم کے ساتھ نافذ نہیں ہوگا تو اللہ تعالیٰ، رسولِ مکرّمؐ اور قرآنِ کریم کی تقدیس کے حوالے سے ہمارے نہ چاہتے ہوئے بھی بعض اشخاص ایسے ہوسکتے ہیں جو جذبات سے مغلوب ہوکر اقدام کر بیٹھیں، ایسے اقدامات کا سدِّباب صرف قانون کے شفاف اور سریع العمل نفاذ سے ہوسکتا ہے، اس کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔

آدابِ بارگاہِ نبوت کے بارے میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول پر سبقت نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سب کچھ سننے والا، خوب جاننے والا ہے، اے ایمان والو! اپنی آوازوں کو اس نبی کی آواز پر بلند نہ کرو اور تم ان سے اونچی آواز میں بات نہ کرو جیسے تم ایک دوسرے سے اونچی آواز میں بات کرتے ہو، ایسا نہ ہوکہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں اور تمہیں پتا بھی نہ چلے، بے شک جو لوگ رسول اللہؐ کے سامنے اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لیے پرکھ لیا ہے، اُن کے لیے مغفرت اور اجرِ عظیم ہے، (اے رسولِ مکرّم!) بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، اُن میں سے اکثر بے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے حتیٰ کہ آپ خود ان کے پاس تشریف لے آتے تو یہ اُن کے لیے بہتر ہوتا اور اللہ بہت بخشنے والا، نہایت مہربان ہے‘‘، (الحجرات: 1-5) نیز فرمایا: ’’تم رسول کے بلانے کو وہ حیثیت نہ دو جو تم ایک دوسرے کے بلانے کو دیتے ہو، بے شک اللہ تم میں سے ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو کسی چیز کی آڑ لے کر چپکے سے کھسک جاتے ہیں، پس جو لوگ رسول اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں، وہ اس بات سے ڈریں کہ انہیں (دنیا میں) کوئی مصیبت پہنچ جائے یا (آخرت میں) انہیں دردناک عذاب پہنچے‘‘۔ (النور: 63)
نیز فرمایا: ’’اگر منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (فسق) کی بیماری ہے اور جو مدینے میں جھوٹی افواہیں پھیلانے والے ہیں، باز نہ آئے تو ہم آپ کو ضرور ان پر مسلّط فرمادیں گے تو وہ آپ کے پاس مدینے میں زیادہ عرصے ٹھیر نہیں سکیں گے، یہ ملعون ہیں، یہ جہاں بھی پائے جائیں گے، انہیں چُن چُن کر قتل کردیا جائے گا، گزشتہ امتوں کے (نافرمانوں) کے بارے میں بھی اللہ کا دستور یہی تھا اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائیں گے‘‘۔ (الاحزاب: 60-61)