’’شہر اقتدار میں، شیر کی دھاڑ‘‘

656

’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ ایسا کہنا ہے سیاسی دائو پیج کے ماہر جناب آصف علی زرداری کا۔ اور کراچی کے میئر الیکشن میں انہوں نے یہ بات سچ کر دکھائی۔ قارئین کرام! کراچی کے میئر کا الیکشن جمہوریت کا سب سے بڑا معجزہ تھا جب 193 ووٹ والے ہار گئے اور 173 ووٹ والے جیت گئے۔ اس جمہوری انتقام میں تین لاکھ ووٹ کے مقابلے میں نو لاکھ عوامی ووٹ کی کوئی وقعت نہ رہی۔ آخر یہ چمتکار ہوا کیسے؟ جب پی پی کی صوبائی حکومت کو بادل نخواستہ ہی سہی، بلدیاتی الیکشن کروانے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تو ان کی پچپن سالہ انتخابی دھاندلیوں کا ماضی رکھنے والی تجربہ کار ٹیم نے پورا گیم پلان تیار کرلیا۔ حلقہ بندیوں سے لیکر میئر الیکشن والے دن تک کا لے آئوٹ۔ کراچی کے جن علاقوں میں پی پی کا کچھ حلقہ اثر تھا وہاں محض دس سے پندرہ ہزار ووٹ پر حلقہ بنادیا اور باقی علاقوں میں پچاس سے ساٹھ ہزار کی آبادی پر حلقہ بندی کی گئی۔ اپنی مرضی کے آر اوز اور ڈی آر اوز افسران کی تعیناتی کی گئی۔ الیکشن ڈے پر پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے کرکے جعلی ووٹ بھگتائے گئے۔ فارم گیارہ اور بارہ دینے میں ٹال مٹول کی گئی۔ اس کے باوجود بھی جب نتیجہ اپنے خلاف جاتا دیکھا تو ریٹرننگ افسران کے دفاتر میں راتوں رات نتائج تبدیل کیے گئے۔ یہ تماشا بھی اسی الیکشن میں ہوا کہ بلدیہ کے مقامی الیکشن کے حتمی نتائج دو دن بعد جاری کیے گئے اور دھاندلی اور انجینئرنگ کرکے پیپلز پارٹی کو زیادہ یونین کونسلوں میں کامیاب قرار دیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بچہ بچہ جانتا ہے کہ کراچی میں پی پی کی کیا اوقات ہے۔ کراچی کے باشعور عوام کو معلوم ہے کہ پچھلے پندرہ سالہ قبضے کے دوران پی پی نے کس بے دردی سے ان کے شہر کو برباد کیا ہے۔ شہر میں تمام مافیائیں پیپلز پارٹی یا پھر ایم کیو ایم کی سرپرستی میں کام کرتی ہیں۔ لوگوں نے جماعت اسلامی کی موثر مہم کے نتیجے میں اور ماضی میں اس کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے جماعت اسلامی کے نامزد امیدواروں کو اپنا ووٹ دیا۔ حافظ نعیم نے اپنی ولولہ انگیز تقریروں اور شہر بھر کے طوفانی دوروں سے فضاء مکمل طور پر اپنے حق میں ہموار کرلی۔ یہ حافظ نعیم الرحمن اور جماعت اسلامی کراچی ہی تھی جو پچھلے کئی سال سے ہر مافیا کے مقابلہ پر کراچی کے عوام کے حق کے لیے ڈٹ کر کھڑے رہے۔ تمام غیر جانبدارانہ سروے نشاندہی کررہے تھے کہ حافظ نعیم اپنے مخالفین سے آگے نہیں بلکہ بہت آگے ہیں۔ لیکن عوامی امنگوں کے برخلاف نتیجہ جاری ہوا تو حافظ نعیم الرحمن نے ہر فورم پر کراچی کے شہریوں کے مینڈیٹ کا تحفظ کرنے کا اعلان کیا۔ جماعت اسلامی کراچی نے عدالتوں سے رجوع کیا۔ الیکشن کمیشن میں انتخابی عذرداری کے کیس داخل کیے۔ عوام کے تعاون سے بڑے بڑے اجتماعات منعقد کیے۔ عدالتوں نے الیکشن کمیشن کو انصاف کے مطابق فیصلے کرنے کی ہدایت کی لیکن الیکشن کمیشن نے کیا کیا؟ دو ماہ انتخابی عذرداری کے کیس لٹکائے رکھنے کے بعد پیپلز پارٹی کا لکھا ہوا فیصلہ جاری کیا اور تمام متنازع یوسیز کو پی پی کی جھولی میں ڈال دیا۔

اسی دوران حافظ نعیم الرحمن سے ملاقات کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کراچی کے میئر کے لیے غیرمشروط طور پر حافظ نعیم کی حمایت کا اعلان کیا تو اس بات کا قوی امکان پیدا ہوگیا کہ تحریک انصاف کی حمایت سے حافظ صاحب باآسانی میئر کراچی منتخب ہوجائیں گے۔ میئر کے انتخاب کے لیے 15 جون کی تاریخ اعلان کی گئی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی پی پی نے انسانوں کی منڈی لگالی۔ خریدو فروخت شروع کردی۔ جو نہ بک سکا اسے غائب کروادیا گیا۔ ڈرا دھمکا کر پولنگ ڈے پر غیر حاضر رہنے کی ہدایت کی گئی۔ بدقسمتی سے تحریک انصاف آج تک اپنی تنظیم کا ڈھانچہ نظریاتی بنیادوں پر استوار نہیں کرسکی جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی میں نظریہ کے ساتھ ڈٹے رہنے والے کارکنان کا فقدان ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ ہوا کہ انتخاب والے دن تحریک انصاف کے اکتیس نمائندے اجلاس سے غیر حاضر رہے۔ ادھر حافظ نعیم آرٹس کونسل میں ہونے والے اجلاس میں ڈٹ گئے کہ جب تک تمام ارکان کی حاضری یقینی نہیں بنائی جاتی، میئر الیکشن روک دیا جائے۔ اس ہنگامے کے دوران کسی نہ کسی طرح پندرہ کے قریب پی ٹی آئی ارکان آرٹس کونسل پہنچ گئے لیکن فسطائیت کی انتہا دیکھیں کہ گیٹ پر تالے ڈال کر انہیں اندر جانے اور اپنا جمہوری حق استعمال کرنے سے بزور روک دیا گیا۔ اس پورے عمل میں الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا رہا اور چیف الیکشن کمشنر نے انتخاب کے عمل کو شفاف بنانے کے لیے اپنا آئینی کردار ادا نہیں کیا۔

آج اس جدید دور میں بھی پیپلز پارٹی والے سمجھتے ہیں کہ جس طرح ماضی میں انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کا مینڈیٹ چراکر ایک آمر کی گود میں ڈال دیا تھا جس کے نتیجے میں آج تک جمہوریت اس ملک میں ایک تماشا بنی ہوئی ہے۔ یا پھر 1970 کے انتخاب میں انہوں نے عوامی لیگ کا مینڈیٹ تسلیم نہ کرکے مشرقی پاکستان کے عوام کو علٰیحدگی پر اکسانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جب عوامی لیگ کو 160 نشستیں اور پی پی کو 81 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ اسی طرح آج کراچی میں بھی یہ مینڈیٹ پر آسانی سے قبضہ کرلیں گے۔ لیکن یہ چوری ان کے گلے میں چھچھوندر کی طرح اٹک گئی ہے۔ عوام، صحافی، تجزیہ نگار اور انصاف پسند سیاستدان سب کی نظر میں پیپلز پارٹی نے اپنے منہ پر کالک ملی ہے۔

حافظ نعیم الرحمن جو آج تک کراچی کے ایک مقامی رہنما تھے، پی پی کی دھاندلی کو سب کے سامنے لانے کے بعد اب پورے ملک میں ایک ہیرو کی حیثیت سے جانے جارہے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان نے امیر محترم سراج الحق صاحب کی ہدایت پر پورے ملک میں کراچی کے مینڈیٹ کی چوری کے خلاف احتجاج شروع کردیا ہے۔ اسی سلسلے میں 23 جون کو اسلام آباد میں ایک تاریخی جلسہ عام ہوا۔ روایتی طور پر اسلام آباد میں بہت بڑے اجتماعات نہیں ہوپاتے لیکن اس جلسے کی خاص بات یہ تھی کہ شدید گرمی اور حبس کے باوجود بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ جوش وخروش کا یہ عالم تھا کہ اسلام آباد کی فضاء حافظ، حافظ کے نعروں سے گونج اٹھی۔ کچھ لوگوں کا یہ تاثر سامنے آیا کہ حافظ نعیم کے استقبال اور پرجوش نعروں نے قاضی صاحب کی یادتازہ کردی۔ جلسے میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق، حافظ نعیم الرحمن، سیکرٹری جنرل امیرالعظیم سمیت مرکزی اور پنجاب کی قیادت نے شرکت کی۔ جناب سراج الحق نے کہا کہ ’’کراچی کے مینڈیٹ پر ڈاکا پڑا اور الیکشن کمیشن خاموش تماشائی بنا رہا۔ الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کروانے میں مکمل ناکام رہا‘‘۔

حافظ نعیم الرحمن نے اپنے دھواں دار خطاب میں پی پی کا کچا چٹھہ کھول کر رکھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’پروجیکٹ بلاول بنانے والے دیکھ لیں، کراچی پر قبضہ قبول نہیں۔ ڈاکوؤں، چوروں سے کراچی کو آزاد کروائیں گے۔ پہلے ایک عرصہ تک تعصب، لسانیت اور فرقہ واریت کے ذریعے کراچی کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی۔ لوگوں کو لڑوایا گیا۔ لیکن الحمدللہ کراچی کے لوگ اس بات کو جان گئے۔ آج کراچی میں رہنے والے ہر قوم اور ہر زبان بولنے والے مل کر کراچی کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔ کراچی کی ترقی پورے پاکستان کی ترقی ہے۔ جماعت اسلامی نے کراچی میں لسانیت اور فرقہ واریت کے بتوں کو پاش پاش کرکے عوام کو منظم کیا۔ کراچی کے حقوق کی تحریک چلائی۔ کے الیکٹرک مافیا کا مقابلہ کیا۔ نادرا کا قبلہ درست کیا۔ بحریہ ٹاؤن والوں سے لوگوں کے اربوں روپے واپس دلوائے۔ کراچی کے لوگوں کا حق ہے کہ انہیں بہترین تعلیم اور روزگار دیا جائے۔ صحت کی سہولتیں اور کھیل کے میدان دیے جائیں۔ سڑکوں کی تعمیر اور سیوریج نظام بہتر ہو۔ ان ہی سب حقوق کے لیے کراچی والوں نے جماعت اسلامی کو ووٹ دیا۔ آج جماعت اسلامی کراچی کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ لوگوں نے سب سے زیادہ ووٹ اور سب سے زیادہ سیٹیں دیں۔ ہم اپنے حق پر ڈاکا نہیں ڈالنے دیں گے۔ مافیاوں نے سوچا کہ جماعت کا میئر آگیا تو ان کے کالے دھندے بند ہوجائیں گے۔ اسی لیے قبضہ میئر بناکر بٹھایا گیا ہے۔ ان کے حربے ناکام ہوئے تو لوگوں کی خریدوفروخت شروع کردی۔ پولیس کے ذریعے غائب کروادیا۔ یہ نادان اسے کامیابی سمجھتے ہیں۔

حافظ نعیم نے پی پی قیادت کو مخاطب کرکے کہا کہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں سعید غنی اور مرتضی وہاب جیسے نادان لوگوں نے پیپلز پارٹی کے چہرے پر جو کالک ملی ہے تو یاد رکھیں، سیاہی کا یہ داغ مستقبل میں بلاول زرداری کو آگے لانے کا جو منصوبہ ہے اسے ناکام کردے گا۔ اس جلسے کی شروع سے آخر تک کی کارروائی میں ایسا لگا گویا۔ شہر اقتدار شیروں کی دھاڑ سے لرزرہا ہو۔ ان شاء اللہ، وہ وقت اب دور نہیں جب ٹوٹ گریں گی زنجیریں اور باطل خون نہائے گا۔