یوم تکریم

438

عزیز و اقارب سے محبت انسانی فطرت ہے اسی طرح ملک و قوم کی خاطر جاں نثار کرنے والوں سے محبت کرنا بھی انسان کی فطرت ہے، دنیا بھر میں شہیدوں، ان کے پسماندگان اور لواحقین سے محبت کرنا انسان کی فطرت ہے، عزیز و اقارب سے ناراض ہونا بھی انسان کی جبلت ہے، شاید کوئی ایسا انسان ہو گا جو اپنے شہیدوں سے اظہار ناراضی کرتا ہو مگر وطن عزیز کی بد نصیبی یہ ہے کہ یہاں ایسے انسان بھی پائے جاتے ہیں۔

آرمی قیادت نے یوم تکریم کے موقع پر شہیدانِ وطن کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ قوم کے دل کی آواز ہے، شہید کا تعلق کسی بھی برادری، کسی بھی فرقے سے ہو وہ قوم کے ہر فرد کے لیے باعث ِ فخر ہوتا ہے، اس کے پسماندگان اور لواحقین واجب الاحترام ہو تے ہیں، مگر 9مئی کو شہیدوں کی یادگاروں کے ساتھ جو کیا گیا وہ باعث ِ ندامت ہے، جو شخص اہل خانہ سے محبت نہیں کرتا اس کی نظر میں اہل محلہ کی کوئی محبت نہیں ہوتی، جسے اپنے محلے سے محبت نہیں ہوتی اسے اپنے شہر سے بھی کوئی لگائو نہیں ہوتا اور شہر سے لگائو نہ ہونے کا مطلب اپنے ملک سے لاتعلق ہونے کے مترادف ہوتا ہے، گویا شہیدوں، ان کے پسماندگان اور لواحقین سے محبت کرنا حب الوطنی کا بنیادی تقاضا ہے، اس ضمن میں یہ کہنا قطعاً غیر مناسب نہ ہوگا کہ فوج کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، مگر یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ دشمن کی پہلی گولی رینجرز کے جوان کے سینے پر لگتی ہے، اس حقیقت سے بھی انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جہاں دوران جنگ سرحدی محافظ سینہ سپر ہوتے ہوں کیونکہ جب دشمن حملہ آور ہوتا ہے تو سرحدی محافظ کی جگہ فوج سنبھال لیتی ہے مگر پاکستان کی فوج سرحدی رکھوالوں کو اس لیے آگے رکھتی ہے کہ وہ اس علاقے سے واقف ہوتے ہیں، معاملہ اسی حد تک رہتا تو کوئی بات نہ تھی مگر المیہ یہ ہے کہ بھارتی علاقے پر قبضہ کر لے تو جھنڈا فوج ہی کا لہرایا جاتا ہے اعزازات سے بھی فوج ہی کو نوازا جاتا ہے کیونکہ فوج کی نظر میں رینجرز کے جوان سول ہوتے ہیں اور کسی سولین کو فوجی اعزاز سے نہیں نوازا جاتا، اس تناظر میں بعض لوگوں کا یہ کہنا قابل توجہ ہے کہ جب کسی سول شخص کو فوجی اعزاز سے نہیں نوازا جا سکتا تو اس پر فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلانے اور سزا دینے کا کیا جواز ہے، مگر ہم اس رائے سے متفق نہیں کیونکہ اگر

ڈبو دیا ہے تو اب اس کا کیا گلا کیجیے
یہی بہائو سفینے رواں بھی رکھتا تھا

شہید صرف شہید ہوتا ہے کسی شہید کو فوجی اور رینجرز کے خانوں میں بانٹنا قابل ِ مذمت سوچ ہے، پاکستان کے ہر آرمی چیف نے رینجرز کو پاکستان کی پہلی دفاعی لائن قرار دیا ہے مگر اس کی خدمات کو کبھی نہیں سراہا گیا، یہ کیسا المیہ ہے کہ سیکورٹی اسٹاف کی ضرورت پڑتی ہے تو سابق فوجی ہونا ضروری قرار دیا جاتا ہے البتہ اسلامیہ یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ سابق رینجرز ملازمین کو بھی فوقیت دیتی ہے پنشن بھی دیتی ہے، خواہ سال سے کم عرصہ کی ملازمت ہی کیوں کہ ہو۔ یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ کسی آرمی چیف نے بے روزگاری کے اسباب پر غور کرنا گوارا نہ کیا ورنہ یہ حقیقت ضرور واضح ہو جاتی کہ ملک کے مختلف محکموں میں سابق فوجیوں کا جو کوٹا ہے وہ بے روزگاری کا سب سے بڑا سبب ہے، افسوسناک صورتحال یہ بھی ہے کہ جنگ میں زخمی ہونے والے رینجرز کو فوجی مراعات نہیں دی جاتی کیونکہ سولین کو اس کا مستحق قرار نہیں دیا جاتا، ہماری بات پر کوئی توجہ دے یا نہ دے مگر وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کی بات پر ضرور سوچنا چاہیے کہ پاکستان کے مسلح جتھوں کے وکیلوں اور ٹھیکیداروں کو امریکا میں کیپٹل ہِل پر حملے کے سرغنہ اور کارندوں کی سزائوں پر غور کرنا چاہیے تاکہ احتجاج اور ریاست پر حملے کا فرق محسوس کر سکیں، امریکا میں کیپٹل ہِل پر حملہ کرنے والوںکو دی جانے والی سزائیں اس حقیقت کا اظہار ہیں کہ قومی املاک کو نقصان پہنچانے والے محب ِ وطن نہیں ہوتے، اور ملک سے غداری کرنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں ہوتے۔