’’دیدہ ور‘‘

1043

سید مودودیؒ کی تربیت اور لٹریچر کے نتیجے میں بے شمار ہیرے تیار ہوئے جن کی حیات و خدمات امانت دیانت اخلاص اور اعلیٰ معیار کا تقویٰ دیکھ، سن اور پڑھ کر رشک اور ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ جنہوں نہ صرف اپنی دنیا و آخرت سنواری بلکہ کئی لوگوں کے دلوں کی دنیا بھی بدل دی۔ مولانا مودودیؒ کے تراشے گئے بے شمار قیمتی ہیروں میں سے آج سے 25سال قبل انتقال کر جانے والے سابق امیر حلقہ کراچی اور سابق ایم این اے پروفیسر محمد عثمان رمز بھی انہی میں سے ایک تھے۔ گوکہ میرا ان سے زیادہ تعلق نہیں رہا۔ البتہ یاد پڑتا ہے کہ_95 1996ء میں جب میری ذمے داری صوبائی دفتر میں لگی تو ایک دن شام کو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بزرگ بڑے چودھریوں اور رعبدار چہرے کے ساتھ موٹر سائیکل پر کسی نوجوان کے ساتھ دفتر تشریف لائے ہمارے دفتر کے دیرینہ ساتھی محمد ہارون الرشید سے کچھ علیک سلیک کی پھر صوبائی شوریٰ کے اجلاس میں چل دیے۔ ہارون بھائی نے بتایا کہ یہ محمد عثمان رمز سابق امیر حلقہ کراچی اور قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے ہیں۔ میں حیران ہوا کہ جو شخص کراچی کا امیر اور سابق ایم این اے رہا ہو وہ ایک اجلاس میں شرکت کے لیے موٹر سائیکل پر تشریف لائے ہیں اور لانے والا بھی ان کے صاحبزادے ڈاکٹر طلحہ سلمان تھے۔ پھر مجھے شوریٰ کے اجلاس میں ان کا دو ٹوک اور دلائل کے ساتھ بات چیت کا انداز بھی بہت پسند آیا۔ قومی اسمبلی میں بطور پارلیمانی لیڈر پارلیمنٹ سمیت تنظیم کے ہر فورم پر علم، حالات کا فہم اور مدلل نقطہ نظرکے ساتھ چیزوں کو تجزیے کے ساتھ پیش کرنا ان کا بڑاخاصا تھا۔ شوریٰ میں بھی جب وہ اظہارخیال کرتے تو کسی پروفیسر و دانشور کا اندز لگتا اور ان کی گفتگو کے دوران سبھی لوگ پروفیسر صاحب کی طرف متوجہ ہوتے۔ پھر گاہے گاہے ان سے ملاقات کا بہانہ مل ہی جاتا۔ میرے مربی و محسن سابق امیر جماعت اسلامی جیکب آباد احمد نور مغل مرحوم جب بھی تشریف لاتے تو عثمان رمز، مصاحب علی خان سابق امیر ضلع نواب شاہ، حکیم نور الدین سابق امیر جیکب آباد کے گھر ضرور چکر لگاتے اور مجھے بھی ساتھ لے جایا کرتے تھے اور کہتے کہ ایسے بزرگوں اور احباب سے مل کر روح کو راحت و سکون ملتا ہے حالانکہ صوبائی دفتر کے قریب موسیٰ کالونی میں ان کی صاحبزادی کا اور ڈرگ روڈ پر بیٹا رہائش پزیر تھا مگر وہ قیام کے لیے ترجیح جماعت کے دفتر ہی کو دیتے تھے۔
پروفیسر عثمان رمز مرحوم جب بھی اپنے گھر پر دعوت رکھتے تو اس موقع پر محفل مشاعرہ کا اہتمام بھی کیا کرتے تھے کیونکہ وہ شاعر بھی تھے اور زخم تنہائی کے نام۔۔۔ احمد نور مغل صاحب سے مشاعرے کی صدارت کرواتے پھر رات گئے تک گپ شپ کرتے اس دوران پان اور چائے کا دور بھی خوب چلتا۔ مشاعرے کے آخر میں مہمانوں کی آمد کا شکریہ ادا کرتے۔ ساتھ ہی فرماتے کہ ارے میاں! مشاعرہ تو بس ایک بہانہ ہوتا ہے اصل بات تو یہ ہے کہ اسی بہانے احباب سے ملاقات اور ان کی خدمت کرنے کا موقع ملتا ہے۔ ایک بات یہ جو وہ ہمیشہ دفتر آمد کے ساتھ ہمارے دفتر کے ساتھی کو مخاطب ہوکر کہتے ارے بھائی! ہارون میاں ذرا ایسی گرما گرم چائے پلادو جیسے جہنم کی آگ ہو۔ ہم اس جملے سے بڑا محظوظ ہوتے۔ تحریک کا ہر کارکن ہمارے لیے قیمتی سرمایہ ہوتا ہے مگر پروفیسر عثمان رمز جیسے قائدین کا کردار قابل فخر ہے۔ انہوں نے کس طرح مشرقی پاکستان میں اتحاد و یکجہتی کے فروغ اور جماعت کی دعوت و پیغام کو آگے بڑھایا۔ ان حالات پر مبنی ’’مسلم بنگلا کا ماضی حال اور مستقبل‘‘ کے عنوان سے جو کتاب لکھی وہ بنگال کا جغرافیائی محل وقوع کے ساتھ ایمان افروز واقعات سے بھری پڑی ہے۔
پروفیسرعثمان رمز کی حیات وخدمات کے حوالے سے گزشتہ اتوار 4جون کوجماعت اسلامی سندھ کے تحت قباء آڈیٹوریم میں تعزیتی یادگاری نشست منعقد کی گئی جس میں مختلف سیاسی وسماجی رہنما، ادیب دانشور، خاندان کے لوگ سمیت احباب نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ مرکزی نائب امیر لیاقت بلوچ نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ پروفیسر عثمان رمز ایک درویش صفت انسان تھے اْن کی فکر کی بنیاد اسلامی ونظریاتی تھی جنہوں نے اقامت دین کے لیے مشرقی پاکستان میں بھی بے مثال قربانیاں اور جدوجہد کی۔ 85ء میں وہ ہمارے قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر تھے اور میں سب سے کم عمر رکن تھا، بطورسیکرٹری ان کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، اسمبلی میں انتہائی شفقت اور بہتر انداز میں رہنمائی فرماتے بہت کچھ ان سے سیکھنے کا موقع ملا۔ اسمبلی فلور پر بھی وہ ملکی وعالمی حالات سمیت اپنے حلقے کے مسائل پر دبنگ انداز میں بات کرتے۔ صوبائی امیر محمد حسین محنتی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ پروفیسر عثمان رمز شرافت امانت ودیانت کا پیکر تھے۔ جن کی تحریکی حیات وخدمات تحریک اسلامی کے کارکنان کے لیے مشعل راہ ہیں۔ وہ ایک مستقل مزاج شخصیت تھے اپنے نصب العین وفکر کے ساتھ آخری دم تک جڑے رہے۔ حقیقت میں مرحوم مولانا مودودیؒ کی فکر کی روشنی میں ایک معیاری کارکن تھے، جماعت اور دیگر سیاسی کارکنوں کے لیے ان کی شخصیت ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی تھی۔ پروفیسر محمد عثمان رمز ولد محمد سلطان انصاری 26 جولائی 1929ء میں الہ آباد یوپی انڈیا میں پیدا ہوئے، وہ 77 میں جماعت اسلامی حلقہ کراچی کے امیر، 85 میں نارتھ ناظم آباد سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، تعلیم ایم اے (فلسفہ) ڈھاکہ یونیورسٹی جبکہ پانچ بیٹے طلحہ عدنان، طلحہ عرفان، ڈاکٹر طلحہ سلمان، طلحہ نعمان اور طلحہ عمران شامل ہیں 4 بیٹیوں سمیت ماشاء اللہ پورا خاندان تحریک سے جڑا ہوا ہے بڑا بیٹا طلحہ عدنان شادمان حلقہ کا ناظم ہے۔ ڈاکٹر طلحہ سلمان شباب ملی سندھ کے جنرل سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ پروفیسر عثمان ہر اعتبار سے ایک مخلص مربی، معیاری کارکن ادیب و شاعر اور صائب رائے شخصیت تھے۔ تصنیف میں زخم تنہائی کے عنوان سے شعری مجموعہ بھی شامل ہے۔ 9 مئی 1998 کو انتقال کر گئے۔ رمز منزل کو تصور تمہیں ایک مدت سے۔۔ گد گداتا ہے شب وروز رلاتا تو نہیں!
موت ایک حقیقت ہے جس کا مزہ ہر نفس کو چکھنا ہے لوگوں کے ذاتی مسائل تک دلچسپی کے ساتھ حل کرنے کی کوشش سے لیکرکارکنان سے والہانہ محبت کرنے والے پروفیسر عثمان رمز جیسے لوگ اس دنیا سے تو اپنے رب کے حضور پیش ہو جاتیں ہیں مگر کارکنوں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں ان کی یاد میں ہونے والی تقریب میں دور دور سے احباب کی شرکت مرحوم سے عقیدت و محبت کا بھرپور اظہار ہے۔ ایسے بزرگوں کے کام وکردار سے نہ صرف جماعت اسلامی کے قافلے میں نئے شامل ہونے والوں بلکہ اپنی نوجوان نسل کو بھی آگاہ کیا جانا چاہیے۔ سابق امیر حلقہ وسابق ایم این اے پروفیسر محمد عثمان رمز کی حیات وخدمات کے حوالے سے جماعت اسلامی سندھ کے تحت یہ پروگرام قابل تحسین ہے، ساتھ ہی یہ امید بھی کرتے ہیںکہ اس حوالے سے یہ پہلا اور آخری پروگرام نہیں ہوگا بلکہ مولانا جان محمد عباسی، مولانا جان محمد بھٹو، چودھری غلام محمد، میاں شوکت علی، مولانا میاں جی لاشاری، احمد نور مغل، مولانا امیر الدین مہر، مولانا عبداللہ کھوسہ، مولانا شفیع محمد نظامانی، مفتی دائم الدین، مولانا یوسف آفندی، مولانا اسماعیل عودوی، قاری نثار احمد منگی سمیت دیگر مرحوم اکابرین کی یاد میں بھی اسی طرح کے پروگرامات کا انعقاد کیا جاتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ مرحوم عثمان رمز کی کامل مغفرت درجات بلند اور حسنات کو قبول و مقبول فرمائے۔ آمین ثم آمین