سیاسی انجینئرنگ کی قربان گاہ

697

مشتاق احمد یوسفی کا جملہ چسپاں کیا جائے تو عمران خان کے چہرے پر اب دانائی کی وہ چھوٹ پڑنے لگی ہے جو عموماً دوالہ نکلنے کے بعد طلوع ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا تتا توا جھیلتے جن کی اگلی نسلیں جوان ہو گئی ہیں وہ انہیں مشورہ دے رہے ہیں ’’ن لیگ کو بھی آج ایک بات کہنا چاہتا ہوں اور پیپلز پارٹی کو بھی اور پی ڈی ایم کو بھی۔ دیکھیں یہ جو کچھ آج ہورہا ہے نا، اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ سے 27سال سے میرا واسطہ رہا ہے آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا جب بند کمرے میں یہ پلان اے سے پلان بی پر جائیں گے۔ تو آج جو آپ چپ کرکے دیکھ رہے ہیں یہ ظلم جو ہورہا ہے تو یہ جب چینج ہوگا‘‘۔ ستم یہ ہے کہ پلان اے سے پلان بی پر جانے کی بات وہ شخص کررہا ہے جو خود کبھی ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خاتمے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا پلان بی تھا۔ جنرل شجاع پاشا، جنرل ظہیر الاسلام جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ نے جسے پروان چڑھایا۔
عمران خان یہ ظاہر کرتے ہیں جیسے کہ وہ پہلے سیاست دان ہیں جس نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف علم بلند کیا ہے اور جسے قید وبند کی صعوبتوں کا سامنا ہے حالانکہ نواز شریف سے لے کر زرداری تک کون سا پاکستانی سیاست دان اور جماعت ہے سول ملٹری تعلقات کی قلابازیوں میں جو دیوار سے نہ لگائی گئی ہو اور جس نے اسٹیبلشمنٹ کے عتاب کا سامنانہ کیا ہو۔ اس کے باوجود کوئی اپنی سیاسی منزل کے بارے میں ابہام کا شکار ہوا اور نہ یوں ریاست وسیاست سے دست وگریباں۔ محترمہ بے نظیر اور نواز شریف دوران حکومت ایک دوسرے کے لیے اخلاقیات اور برداشت کا کوئی اعلیٰ مظاہرہ نہیں کرتے تھے لیکن اس کے باوجود حقائق کا ادراک کرتے ہوئے لندن میں یکجا ہوئے اور میثاق جمہوریت کے ذریعے سول بالادستی کی راہ تراشنے کی کوشش کی۔ آج بھی پی ڈی ایم کے سیاست دان مشرق ومغرب کی حدوں پر موجود ہونے کے باوجود یکجا اور ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ عمران خان کا معاملہ مگر دیگر ہے۔ آج پیپلزپارٹی، ن لیگ اور پی ڈی ایم کی جماعتوں کو وہ جس ظلم کی دہائی دے رہے ہیں اور چپ کرکے دیکھنے پر وارننگ دے رہے ہیں اپنے پونے چار سالہ دور حکومت میں اس سے کہیں بڑھ کر ظلم اور شقاوت کے ساتھ وہ اپنی مخالف سیاسی قیادت کی کھال کھینچنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ جس سادگی اور صفائی کے ساتھ وہ اپنی منتقم مزاجی، غرور وتکبر اور کرپشن کو الگ رکھ کر جھوٹ اور دروغ گوئی کی بلندیوں پر بیٹھ کر حالات کا تجزیہ کررہے ہیں اور اپنے سوا سب کو مورد الزام ٹھیرا رہے ہیں مستقل طور پر تباہ ہونے کے سوا اس کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔
پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ، طاقت ور اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرائو کی وہ قیمت ہے جو عمران خان ادا کررہے ہیں۔ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد انہوں نے جرنیلوں کے خلاف جو زبان استعمال کی، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اپنے کارکنوں کی جو ذہنی تربیت کی، اپنی عوامی قوت کو اقتداری کامرانی کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اس پر جس قدر انحصار کیا، فوج اور عدلیہ کے اندر نکالی گئی سرنگ اور لگائی گئی نقب کو فیصلہ کن قوت باور کیا، یہ غلط فیصلوں اور غلط اندازوں کی وہ فصل تھی جو انہیں 9مئی کی شیطانی اور خرق عادت قوت کے مظاہرے تک لے آئی۔ جس پر لوگ دو تین دن تو متعجب اور مرعوب رہے۔ اسے عمران خان کی غیر معمولی اہمیت اور طاقت سمجھا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ کے غیر معمولی کردار، طاقت اور سیاسی قوتوں اور جماعتوں کو زیروزبر کرنے کے ماضی کو فراموش کردیا گیا۔ جب اسٹیبلشمنٹ کے ردعمل کی قوت ظاہر ہونا شروع ہوئی تب لوگوں کو احساس ہوا کہ کیا ہوگیا ہے؟ نتیجہ! آج ہم ایک بار پھر ایک سیاسی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں ٹوٹتے پھوٹتے دیکھ رہے ہیں۔
آج جو کچھ پی ٹی آئی پر گزر رہی ہے، اس کے رہنما جس طرح اسے چھوڑ چھوڑ کر جارہے ہیں، جماعت پر پابندی اور عمران خان کی نااہلی دیوار پر لکھی نظر آرہی ہے۔ یہ درست ہے سیاسی پارٹیاں اس طرح ختم نہیں ہوتیں۔ ایم کیو ایم کی مثال موجود ہے۔ ایک عشرے سے زائد ہونے کو آرہا ہے جب الطاف حسین پر پابندی لگی تھی اس کے باوجود ایم کیو ایم آج بھی موجود ہے لیکن کیا اس کی طاقت اور وقعت اتنی ہی برقرار اور تابندہ ہے جتنی پہلے کبھی تھی؟ یقینا نہیں۔ اس بحران سے گزرنے کے بعد پی ٹی آئی تو کسی نہ کسی صورت اپنا وجود برقرار رکھ سکے گی، اس کا کھیل ختم نہیں ہوگا لیکن عمران خان کی سیاسی طاقت اور پاکستانی سیاست میں موجودہ سیاسی ساکھ جیسی آن بان باقی نہیں رہے گی اور نہ ہی وہ مرکزی قوت رہیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ پر تکیہ کرکے سیاسی جماعتوں سے ٹکرانے اور سیاسی رہنمائوں کو نشانہ بنانے سے عمران خان کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ آج وہ ایک ایسی بھیڑ ہیں جس کا کوئی ریوڑ ہے اور نہ رکھوالا اور بھیڑیے اس کے درپے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے سیاسی انجینئرنگ کا یہ کھیل نیا نہیں ہے جس میں کل کے ولن آج کے ہیرو ہیں اور آج کے ولن کل کے ہیرو۔ یہ کھیل اسٹیبلشمنٹ کے خون میں شامل ہے۔ سیاسی جماعتیں اس کھیل میں ایک جیسا کردار ادا کرتے کرتے تھکی نہیں ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے اس تماشے میں سیاسی کردار جیلوں میں نظر آئیں یا کرپشن اور انسداد ی قوانین کے تحت مقدمات بھگتتے یا راج سنگھاسن اور حکومتی ایوانوں میں لیکن اقتدار بہرحال فوج ہی کا رہتا ہے۔ ہر سیاسی جماعت خوشی خوشی اور برضا ورغبت کوئے یار اور سوئے دارکی ان راہوں کی مسافر رہی ہے۔ اس کھیل میں طاقت اسٹیبلشمنٹ کے پاس رہے اور وہ اپنا کنٹرول برقرار رکھے سیاسی جماعتوں کو عملی طور پر اس پر کبھی زیادہ اعتراض نہیں رہا۔ ملک براہ راست فوجی اقتدار کے قبضے میں چلا جائے تو سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما اس کے معاون کے طور پر شریک اقتدار ہوکر فرائض بجا لانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے اور اگر فوج پردے کے پیچھے سے احکامات جاری کرتی، سیاسی جماعتوں کو اپنے ماتحت رکھ کر اقتدار کے تخت پر بٹھادے تو اس پر بھی وہ جشن آرائی کرتے نظر آتے ہیں۔ جب کبھی عمران خان جیسے کردار ہیرو کے ایکٹ کو اپنے اوپر اس طرح طاری کر لیتے ہیں کہ خود کو حقیقی ہیرو سمجھنے لگتے ہیں تو اس کھیل کے ہدایت کار انہیں اوقات میں رکھنے کے لیے نہ صرف کھیل سے باہر کردیتے ہیں بلکہ کھیل کی دنیا کے دروازے بھی اس پر بند کردیتے ہیں۔ عمران خان کا عروج اسٹیبلشمنٹ کا عطا کردہ تھا وہ اسے اپنا ذاتی وصف اور خوبی سمجھ بیٹھے اور محرومی کی صورت میں محاذ آرائی اور تصادم پر اتر آئے۔ ایک مرتب نظام سے ٹکرانے کے لیے جتنی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اگر آپ اس کے بغیر ہی اس نظام سے ٹکرا جائیں گے تو پھر اگلی منزل کوئی کہکشاں نہیں بلیک ہول ہی ہوسکتا ہے۔
عمران خان کو ترک کرنے والے پی ٹی آئی کے سیاسی رہنما نئی منزلوں کی تلاش میں ہیں۔ ایک ہی اسکرپٹ سب کے ہاتھوں میں ہے، نو مئی کے واقعات کی مذمت اور فوج سے وفاداری۔ گرفتاری رہائی اور پریس کانفرنس سب اسی صراط مستقیم پر چلے جارہے ہیں۔ عدالتیں بھی اس عمل میں اپنا کردار ادا کرتی نظر آرہی ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد کو جس طرح عدالت سے بری کیا گیا ہے اس کے بعدان ہزاروں مرد وخواتین کو جیلوں میں رکھنے اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمات کا کوئی جواز نہیں رہتا جو ان جیسے سیاست دانوں کے بہکاوے میں آگئے تھے۔ ان لوگوں کے لیے بھی پریس کا نفرنس اور فوج سے وفاداری کے اظہار میں نجات کی کوئی صورت موجود ہونی چاہیے۔ پی ٹی آئی کی قیادت اور خود عمران خان بھی اب ان کے بوجھ سے چھٹکارے ہی میں نجات محسوس کررہے ہیں۔ تلوار اور جذبات کے کھیل میں جیت تلوار کی ہوتی اس کھیل کا ایندھن بننے والے کاش یہ سمجھ سکتے۔