ترپ چال

540

معزول وزیر اعظم عمران خان نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ اگر انہیں نا اہل قرار دیا گیا تو ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی پارٹی کی قیادت کریں گی اور اب ان کا تازہ ترین بیان یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی ان کا متبادل ہیں، بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس بیان کو یو ٹرن نہیں کہا جاسکتا البتہ سیاسی بیان کہا جاسکتا ہے کچھ لوگ اسے سیاسی اسپیڈ بریکر بھی کہہ رہے ہیں ان کی دلیل کے مطابق یہ ترپ چال ہے خان صاحب کو یہ خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ دیگر رہنمائوں کی طرح شاہ محمود قریشی بھی تحریک انصاف کو خدا حافظ کہنے کی تیاری کررہے ہیں سو انہوں نے بڑھ کر رخت ِ سفر کھول دیا۔
میں نے جب جانے کی اجازت چاہی
اس نے بڑھ کر مرا سامان سفر کھول دیا
مگر یہ دلیل قابل قبول نہیں کیونکہ شاہ صاحب تحریک انصاف کی نا اہلی کا انتظار کررہے ہیں جب تک تحریک انصاف اور عمران خان کو نااہل قرار نہیں دیا جاتا وہ کہیں نہیں جاسکتے کیونکہ تحریک انصاف سے جڑا رہنا ان کی سیاسی ترجیحات میں شامل ہے۔
فیصل وائوڈا کے تجزیے کے مطابق تحریک انصاف ایم کیو ایم کے جیسے انجام سے دو چار ہونے والی ہے اور عمران خان الطاف حسین بننے والے ہیں مگر یہ کوئی انکشاف نہیں چبایا ہوا لقمہ ہے عمران خان کو وزارت عظمیٰ کی مسند پر براجمان کیا گیا تو انہیں کالموں میں کہا گیا تھا کہ مقتدر طاقتیں باری کے کھیل سے بدمزا ہو چکی ہیں اور ذائقہ بدلنے کے لیے تیسری سیاسی قوت کا تجربہ کیا جارہا ہے، ان کا خیال تھا کہ یہ تجربہ کامیاب ہو گیا تو جمہوریت مستحکم ہو جائے گی، حالانکہ دو سے زائد سیاسی پارٹیاں جمہوریت کے لیے خطرہ ہوتی ہیں۔
اگر وطن عزیز کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہو گی کہ یہاں کبھی جمہوریت قائم ہی نہیں ہوئی، کوئی بھی پارٹی کبھی تیس بتیس فی صد سے زائد ووٹ حاصل ہی نہ کر سکی حالانکہ جمہوریت میں 50فی صد ووٹ لینا ضروری ہوتا ہے، کہتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 50فی صد سے بھی زائد ووٹ حاصل کیے تھے مگر اسے اقتدار نہیں دیا گیا اور یوں سقوطِ ڈھاکا کا سانحہ ہوا اور مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا۔
گزشتہ دنوں ترکیہ میں اسی لیے دوبارہ الیکشن ہوئے کہ کوئی بھی پارٹی مطلوبہ ووٹ حاصل نہ کر سکی تھی، مگر پاکستان میں یہ ممکن نہیں کیونکہ یہاں تو سیاسی پارٹیوں کا جمعہ بازار لگا ہوا ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں سیکڑوں سیاسی پارٹیاں ہیں الیکشن میں بیسیوں سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار حصہ لیتے ہیں اگر ان جمعہ خانوں اور جمعہ گلوں پر پابندی لگا دی جائے تو جمہوریت پروان چڑھ سکتی ہے، یہ ایسا مشکل کام بھی نہیں کہ جس پر عمل نہ ہو سکے، کیونکہ الیکشن میں مطلوبہ ووٹ نہ لینے پر انتخابات پر پابندی لگا دی جائے تو بہت سی سیاسی جماعتیں ختم ہو جائیں گی اسی طرح جمعہ گل یعنی آزاد امیدواروں سے بھی نجات مل سکتی ہے کیونکہ یہ الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد جمہوریت کو ناکام بناتے ہیں حکومت کے لیے پریشر گروپ بن جاتے ہیں اور حکومت کی مجبوری سے مستفید ہونا ان کا مقصد بن جاتا ہے۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ چند فی صد ووٹ حاصل کرنے والا رکن اسمبلی بن جاتا ہے اور حیرت کی بات یہ بھی ہے بلدیاتی الیکشن میں 10فی صد ووٹ لینے والا کونسلر بن جاتا ہے اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ سات فی صد ووٹ لینے والا رکن اسمبلی بن جاتا ہے، اور پھر جمعہ خان اور جمعہ گل حکومت کو ناکوں چنے چبواتے رہتے ہیں، اس سیاسی تناظر میں جمہوریت اپنا وجود کیسے برقرار رکھ سکتی ہے جمہوریت کے قیام اور اس کی نشو نما کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جمہوری اصولوں پر عمل کیا جائے۔ 50فی صد سے کم ووٹ لینے والی جماعت کو حکومت بنانے نہ دی جائے۔ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے کسی سیاسی جماعت کی رکنیت کو ضروری قراردیا جائے تو پریشر گروپ کا خاتمہ ممکن ہے ورنہ سیاسی بحران قومی بحران بنتا رہے گا۔ پچاس فی صد ووٹ اسی صورت میں لیے جاسکتے ہیں جب آزاد امیدواروں پر اور دو سے زائد سیاسی جماعتوں پر پابندی کا اطلاق کیا جائے، لیکن پاکستان میں ایسا ممکن نہیں کیونکہ یہاں تو جس کی جیب میں پیسے ہیں اور چند افراد اس کے ہم نوا ہیں وہ سیاسی لیڈر بن جاتا ہے حالانکہ لیڈ کرنے والا ہر شخص لیڈر نہیں ہوتا، البتہ کرکٹ ٹیم کا لیڈر ہو سکتا ہے۔ کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ عمران خان جو خود کو پاکستان کا سب سے بڑا رہنما کہتے ہیں اور اپنی مقبولیت پر برتری کا اظہار کرنا کبھی نہیں بھولتے وہ یہ بات کیوں نہیں سمجھتے کہ ان کی نا اہلی بشریٰ بی بی کی بھی نا اہلی ہوگی، حیرت انگیز بات تو یہ بھی ہے کہ موصوف جانتے بوجھتے اپنی مقبولیت کے ووٹ بینک کی حقیقت سے چشم پوشی کرتے رہتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کی مقبولیت اور ان کے ووٹ بینک کی حیثیت کاغذی پھول سے زیادہ نہیں۔ اور کاغذی پھول کی خوشبو دیرپا نہیں ہوتی۔