ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی رہائی،قوم پرقرض

614

ہماری سگی بہن یا بیٹی کسی درندے کی قید میں ہو تو کیا ہمیں نیند آتی ہے یہ حکمران کیسے قوم کے باپ ہیں پاکستان کی بیٹی امریکی جیل میں ہردن نئی اذیت کا سامنا کرتی ہے لیکن مسند اقتدار پر بیٹھنے والے وزرائے اعظم نوازشریف، عمران خان، پرویز اشرف، شاہد خاقان عباسی، شہباز شریف عافیہ کی رہائی کے لیے کوئی موثر اقدام نہیں کرتے۔ سیاسی مقاصد، اپنی کھال اور مال بچانے کے لیے تو یہ سب ملکی وعالمی دروازے پر دستک دیتے ہیں مختلف اداروں کو ہائر کرکے عالمی ایوانوں تک
اپنی مظلومیت کی داستان پہنچاتے ہیں، لیکن کبھی ایسا ہوا کہ نوازلیگ، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی نے اتنی توانا آواز ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے لیے بلندکی ہو، جتنی اپنی ذات اور مفادات کے لیے ا ٹھاتے ہیں، سینیٹ میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر مشتاق احمد خان نے قوم کی جانب سے فرض کفایہ ادا کیا ہے اس سے قبل جماعت اسلامی کے قائدین قاضی حسین احمد، سیدمنورحسن اور سراج الحق نے اپنے دائرہ کار میں ہر ممکن کوشش کی، ہم جماعت اسلامی کے ایک ایسے گمنام بزرگ کو بھی دیکھتے ہیں جو سالہا سال سے میڈیاکے محاذ پر ڈاکٹرعافیہ صدیقی کا کیس لڑتے ہیں، کبھی کسی عدالت، سیمینار، ہر احتجاج میں ہرلمحہ پرعزم یہ بزرگ نوجوان شاہد شمسی کوآرڈینیشن کرتے نظرآتے ہیں۔
ڈاکٹر فوزیہ، سینیٹر مشتاق احمد خان اور کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ گزشتہ دنوں امریکا پہنچے، ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے ملاقاتوں کا آغاز ہوگیا ہے، عافیہ کی ہرلمحہ اذیت کی کہانی کے چند اوراق ہی ہم تک پہنچے جو پوری قوم کے لیے اذیتناک ہیں، سینیٹر مشتاق احمد خان جیسا گرجنے والا شیر رات دھاڑیں مارکر رویا، عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کے قوانین کسی مسلمان کے لیے کم ہی حرکت
میں آتے ہیں، اپنے مفادات کے لیے چائے کی پیالی میں طوفان برپاکرنے والی عالمی برداری ڈاکٹرعافیہ صدیقی پر جھوٹے اور لغو مقدمے پر خاموش تماشائی ہے، کوئی عالمی زنجیر عدل کیوں نہیں ہلتی۔
کوئی اور ڈاکٹرعافیہ کی رہائی کے لیے کوشش نہیں کرے گا، پاکستان کے ہر باشعور شہری کو اپنی ذمے داری پوری کرنی ہوگی لیکن محض چند آنسو بہا لینے سے یہ ذمے داری پوری نہیں ہوگی، عملی اقدامات کی طرف جانا ہوگا، پاکستانی حکمرانوں کو ہر لمحہ ان کی ذمے داریاں یاد دلانا ہوں گی کہ وہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے امریکا سے سنجیدہ اور قابل عمل مذاکرات کریں، پاکستانی شہریوں کو عالمی زنجیر عدل پر دستک دینا ہوگی، دنیا بھر کے ممالک، انسانی حقوق کی تنظیموں تک اپنا کیس پہنچانا ہوگا، نوجوانوں کو ایک موثر سوشل میڈیا مہم کے ذریعے حکمرانوں اور عالمی برادری کو متوجہ کرکے د باؤ بڑھانا ہوگا، کوئی لمحہ ضائع نہ کیجیے، اہل قلم سمیت ہر درد دل رکھنے والا انسان اس کاز میں لازمی اپنا حصہ ڈالے۔