ملَّتِ ابراہیمی میں تحریف

705

سیدنا ابراہیمؑ نے کعبۃ اللہ کو اللہ تعالیٰ کی توحید وعبادت، رُشد وہدایت اور دینِ فطرت کا مرکزو منبع بنایا تھا، لیکن اُن کی آنے والی ناخلَف نسلوں نے اپنے جدِّ امجد کی تعلیمات کو فراموش کرکے خانہ خدا کو کفرو شرک اور بُت پرستی کا مرکز بناکر رکھ دیا تھا، اُنہوں نے بیت اللہ میں جابجا سیکڑوں بُت نصب کرکے اُن کی عبادت شروع کردی تھی۔ سیدنا ابراہیمؑ نے اپنی ذُرّیّت کو بیت اللہ کے پڑوس میں نماز کے اہتمام وقیام کی غرض سے آباد کیا تھا، قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور یاد کرو! جب ابراہیم نے دعا کی: اے پروردگار! اس شہر کو پُراَمن بنادے، مجھے اور میری اولاد کو بتوں کی پرستش سے محفوظ رکھ، اے پروردگار! اِنہوں نے بہتوں کو گمراہ کررکھا ہے، سو جو میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو تو بہت بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے، اے پروردگار! میں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو تیرے محترم گھر کے پاس ایک بے آب و گیاہ سرزمین میں ٹھیرایا ہے، اے پروردگار! تاکہ وہ نماز کا اہتمام کریں، پس تو لوگوں کے دلوں کو اِن کی طرف مائل فرما اور ان کو پھلوں سے روزی عطا فرماتا کہ یہ تیرے شکر گزار ہوں‘‘۔ (ابراہیم: 35-37) لیکن اُنہوں نے جس طرح بیت اللہ کو توحید کا مرکز بنانے کے بجائے بُت خانہ بنا کر رکھ دیا، اسی طرح انہوں نے نماز کی شکل نہ صرف بگاڑدی، بلکہ اسے کھیل تماشے میں تبدیل کردیا اور اس کی صورت کو مسخ کردیا، وہ بیت اللہ میں سیٹیاں اور تالیاں بجاتے، بھنگڑے اور دھمال ڈالتے اور اِن لغویات اور بیہودہ حرکتوں کو نماز قرار دیتے تھے، قرآنِ کریم میں ہے: ’’اور بیت اللہ کے سامنے ان کی نماز سیٹی بجانے اور تالی پیٹنے کے سوا کچھ نہ تھی‘‘۔ (الانفال:35)
اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر ابراہیم و اسماعیلؑ کوتاکید فرمائی تھی کہ وہ بیت اللہ شریف کو ظاہری وباطنی ہر طرح کی گندگیوں اور نجاستوں سے پاک صاف رکھیں، ارشاد فرمایا: ’’اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کو تاکید فرمائی کہ میرا گھر طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے خوب پاک صاف رکھو‘‘۔ (البقرۃ:125) لیکن مشرکینِ قریش جو سیدنا ابراہیم واسماعیل کی وراثت کا دم بھرتے اور اپنے آپ کو بیت اللہ کا وارث سمجھتے تھے، وہ اس وراثت کا حق ادا کرنے کے بجائے اُلٹا اسے پامال کرنے لگے، بتوں کی پرستش، عبادات کی بے حرمتی کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے بیت اللہ شریف کو غلاظتوں اور نجاستوں سے آلود کرنا شروع کردیا، وہ اپنے جانوروں کو بیت اللہ شریف میں ذبح کرتے، اُن کا خون بیت اللہ شریف کی دیواروں پر اُچھالتے، ملتے اور لتھیڑتے اور گوشت کا ڈھیر بیت اللہ کے دروازے پر ڈھیر کردیتے، اُن کا خیال یہ تھا کہ ہم جب قربانیاں دیتے ہیں تو ان قربانیوں کا خون اور ان کا گوشت اللہ کے حضور پیش کرنا ضروری ہے اور اسی کے نتیجے میں ہماری قربانی قبول ہوتی ہے اور اس کا اجر وثواب ملتا ہے، اس جاہلی نظریے کی تردید کرتے ہو ئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور اللہ کو نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے نہ ان کا خون بلکہ اس کو صرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘۔ (الحج: 37)
نیز اُنہوں نے سیدنا ابراہیمؑ کے مقرر کردہ حج کے طریقوں میں تحریفات اور پے درپے مختلف تبدیلیوں کے ذریعے اُس کی ہیئت وشکل کو بھی بگاڑ کر رکھ دیا تھا اور حج جیسی روح پرور عبادت کو کھیل تماشوں، میلے ٹھیلوں اور بے بنیاد رسوم ورواج کی شکل دے کر اس کی رُوحانیت ومقصدیت کو فنا کردیا تھا۔ چنانچہ حج کے ایام میں جزیرۂ عرب سے لوگ یہاں اکٹھے ہوتے، اُن میں بڑے بڑے شعرا بھی ہوتے تھے اور قدآور خطباء بھی، وہ لوگ بھی ہوتے تھے جنہیں اپنی جسمانی قوت پر ناز ہوتا تھا اور وہ بھی جو انواع واقسام کا مالِ تجارت لے کر یہاں آئے ہوئے ہوتے تھے، ان میں سے ہر گروہ اپنے اپنے ذوق کی تسکین اور تفریحِ طبع کے لیے مصروفیات پیدا کرلیتا تھا، شعر و شاعری اور مُفاخَرت کی بڑی بڑی مجلسیں منعقد ہوتیں، خاص کر قیام منیٰ کے ایام تو انہی چیزوں کے لیے خاص ہو کر رہ گئے تھے، اللہ تعالیٰ کی عظمت وکبریائی بیان کرنے کے بجائے شعرا اور خطباء کھل کر قبائلی فخر ومباہات کا اظہار کرتے اور اپنے قبیلوں اور آباو واجداد کے کارنامے نظم ونثرمیں بیان کرتے‘‘۔
زبان دانی اور طلاقتِ لسانی کے معرکے برپا ہوتے اور اپنے اپنے جوہر دکھائے جاتے۔ جسمانی توانائی کے حامل لوگ کشتی اور اس طرح کے دوسرے فنون کا اظہار کرتے، بڑے بڑے دنگل ہوتے، بڑے بڑے پہلوانوں کا ایک دوسرے سے سامنا ہوتا، جو ان معرکوں میں سرخرو ٹھیرتا پورے عرب میں اس کی شہرت پھیل جاتی۔ پھر انہی لوگوں میں سے طبقہ امرا سے تعلق رکھنے والے اپنے مال تجارت سے بازاروں کی صورت پیدا کردیتے اور ایک سے ایک بڑھ کر کاروباری منڈیاں وجود میں آجاتیں۔ ہر سال یہ ہنگامے، یہ رنگارنگی، یہ مصروفیات اور یہ تفریحِ طبع کا سامان اُن کی زندگی کا ایک جزو لاینفک بن چکا تھا اور اس کے اپنے فوائد بھی تھے۔ لیکن سوال تو یہ ہے کہ حج جس مقصد کے لیے فرض کیا گیا تھا اور بیت اللہ سے جو پیغام دیا جارہا تھا، احرام، تلبیہ اور قربانیاں جس کی یاد کے لیے کی جارہی تھیں، وہ تو سب کچھ اس ہنگامے کی نذر ہوگیا۔ ایک دوسرے پر فوقیت لے جانے کی کوشش کرتے اور اپنے مدِّ مقابل کی ہجو میں زورِ بیان صرف کرتے، مختلف سرداروں کی طرف سے اپنی فیاضی اور سخاوت کے اظہار کے لیے کئی کئی اُونٹ ذبح کیے جاتے۔ اسلام کے ظہور کے بعد اس قبائلی مسابقت اور باہمی محاذ آرائی کی فضا کو ختم کردیا گیا اور اس پر پابندی عائد کردی گئی، چنانچہ قرآنِ کریم نے اس لغویات کی بھی اصلاح کی اور اس کی جگہ اس سے زیادہ اہتمام اور اس سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کی ہدایت کی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’پس تم اللہ تعالیٰ کو اس طرح یاد کرو جس طرح تم (زمانۂ جاہلیت میں) اپنے آباء و اجداد کو یاد کرتے ہو، بلکہ اس سے بھی زیادہ اللہ کو یاد کرو‘‘، (البقرۃ: 200) نبیؐ نے فرمایا: ’’تمہارا عہدِ جاہلیت کا تفاخر اور اپنے آباء واجداد کی نسبت سے احساسِ برتری کو میں اپنے پائوں تلے روند رہا ہوں‘‘۔ (مسلم)
عرب جاہلیت کے دور میں حج کرنے والوں میں سے بیش تر افراد بیت اللہ کا طواف برہنہ حالت میں کرتے تھے، عورتیں ایک معمولی سی لنگوٹی باندھتی تھیں، جبکہ مرد بالکل برہنہ ہوتے تھے اور ان کی دلیل وہی ہوتی تھی جو آج کل مغرب زَدہ آوارہ مزاج پیش کرتے ہیں کہ ہم دنیا میں چونکہ برہنہ آئے ہیں، اس لیے ہماری نیچرل کیفیت وہی ہے اور ہم اسی کیفیت میں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہونا پسند کرتے ہیں، سیدنا عبداللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: زمانہ جاہلیت میں عرب برہنہ ہوکر بیت اللہ کے طواف کو افضل سمجھتے تھے، وہ کہتے تھے کہ جن کپڑوں میں ہم گناہ کرتے ہیں اُن میں ہم بیت اللہ کا طواف نہیں کریں گے، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’اے لوگو! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباس پہنا کرو‘‘، (الاعراف: 31) لیکن نبی کریمؐ نے اس پر پابندی لگا دی، چنانچہ سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں: ’’مجھے سیدنا ابوبکر نے حج کے موقع پر دس ذی الحجہ کے دن اعلان کرنے والوں کے ساتھ بھیجا، ہم منیٰ میں یہ اعلان کر رہے تھے کہ اِس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور کوئی شخص برہنہ حالت میں بیت اللہ کا طواف نہیں کرے گا، پھر رسول اللہؐ نے سیدنا علی کو سیدنا ابوبکر کے پیچھے برأت کے اعلان کے ساتھ بھیجا، پس ہمارے ساتھ سیدنا علی نے اہلِ منیٰ میں یوم النحر کے دن اعلان کیا کہ اب اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا اور بیت اللہ کا برہنہ ہوکر کوئی طواف نہیں کرے گا‘‘، (بخاری) چنانچہ جہاں کافروں اور مشرکوں کو حج بیت اللہ کے لیے حرم کعبہ میں آنے سے روک دیا گیا، وہیں برہنہ حالت میں بیت اللہ شریف کے طواف پر بھی پابندی عائد کردی گئی۔
حج کا ایک مقصد تمام انسانوں میں مساوات قائم کرنا تھا، اس لیے تمام عرب بلکہ تمام دنیا کو اس کی دعوتِ عام دی گئی اور سب کو وضع ولباس میں متحد کر دیا گیا، لیکن قریش کے غرور وفضیلت نے اپنے لیے بعض خاص امتیازات قائم کر لیے تھے جو اُصولِ مساوات کے بالکل منافی تھے، چنانچہ وہ اپنے آپ کو حُمس کہا کرتے تھے، اس کا لفظی ترجمہ اگرچہ بہادر ہے، لیکن اگرآج کے دور میں اس کا ترجمہ ’’وی آئی پی یا اَشرافیہ‘‘ کر لیا جائے تو زیادہ بہتر طور پر اس کا مفہوم سمجھ میں آسکتا ہے، اَحْمَسْ اُس شخص کو کہا جاتا ہے جو اپنے دین کے معاملے میں بہت متصلّب ومتشدّد ہو اور کسی معاملے میں شدت اختیار کرنے کو ’’حَمَاسَہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ قریش اور وہ قبائل جن میں قریش نے اپنی عورتوں کو بیاہا ہوا تھا اور جو اُن کے حلیف ومددگار تھے،
مثلاً: بنی ثقیف، بنی لیث، بنی بکر، بنی کنانہ، بنی جدیلہ، بنی خزاعہ، بنی عامر وغیرہ، اِنہیں الْحُمْس کہا جاتا تھا۔ ان لوگوں کو الْحُمْس اس لیے کہا جاتا تھا کہ اُنہوں نے اپنے اوپر کچھ بے جا پابندیاں عائد کررکھی تھیں اور اُنہیں دینی شعائر کا درجہ دے رکھا تھا، چنانچہ یہ لوگ احرام باندھنے کے بعد اپنے لیے گوشت، گھی اور پنیر کو حرام سمجھتے تھے، جب تک احرام میں ہوتے تو صرف چمڑے کے بنے خیمے میں داخل ہوتے تھے اور اُون سے بنے خیموں میں داخل ہونے کو حرام سمجھتے تھے اور احرام باندھنے کے بعد اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہونے کے بجائے دیوار پھلانگ کر آتے تھے اور حرم کے باہر سے حج یا عمرہ کرنے والے اپنے ساتھ جو غلہ واناج لاتے اور جو کپڑے پہن کرآتے تو اُنہیں نہ تو اُس غلے اور اناج کو استعمال کرنے کی اجازت ہوتی تھی اور نہ اُن کپڑوں میں بیت اللہ شریف کے طواف کی اجازت ہوتی تھی، انہوں نے یہ پابندی عائد کررکھی تھی کہ سب سے پہلا طواف حُمْس کے دیے ہوئے کپڑوں میں ہی کیا جائے گا اور اگر یہ کپڑے دینے سے انکار کردیتے تو اُنہیں برہنہ طواف کرنا پڑتا تھا، اِسی طرح قریش کے لوگ حج کے دوران دیگر حجاج کی طرح عرفات میں وقوف کرنے کے بجائے مُزدَلِفہ میں وقوف کرتے تھے، کیونکہ عرفات حدودِ حرم سے باہر ہے جبکہ مزدلفہ حدودِ حرم میں ہے اور یہ لوگ اپنے آپ کو قَطِیْنُ اللّٰہ یعنی حرم خداوندی کے رہائشی اور مجاور کہتے تھے اور حدودِ حرم سے باہر نکلنے کو اپنے لیے ناجائز سمجھتے تھے، چنانچہ باقی تمام لوگ تو عرفات جاتے اور وہاں وقوف کرتے جبکہ یہ مزدلفہ سے ہی واپس آجاتے تھے، پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’پھر تم وہیں (عرفات) سے واپس آئو جہاں سے تمام لوگ واپس آتے ہیں‘‘، (البقرۃ: 191) یعنی تم کوئی انوکھے اور لاڈلے نہیں ہو کہ باقی تمام لوگ عرفات میں وقوف کریں اور تم مزدلفہ میں رہو، باقی لوگوں کی طرح تمہارا وقوف بھی عرفات میں ہونا چاہیے، پھر وقوفِ عرفہ کے بعد تم مُزدلفہ آئو۔