دستک

562

کبھی کبھی تو یہ گمان حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے کہ پاکستان کا اقتدار درآمد ہدایات کا تابع ہے ورنہ۔۔۔ مقتدر طبقے اتنے بے حس اور بے خبر نہیں ہو سکتے کہ ایسے لوگوں کو ایوان اقتدار پر مسلط کر دیں جنہیں ملک و قوم سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی ان کے اقتدار کا مقصد ملکی وسائل پر قبضہ جمانا ہوتا ہے، ذاتی تحفظات اور مفادات کی حفاظت ہوتا ہے، وطن عزیز کی تاریخ اور سیاسی حالات پر غور کیا جائے تو یہ افسوسناک حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کسی بھی حکومت نے عوام کی فلاح اور ملکی بہتری کے لیے کوئی پالیسی وضع نہیں کی ان کی سیاست ذاتی مفادات اور ترجیحات تک محدود رہتی ہے بظاہر تو ارکان اسمبلی ، وزیر اعظم اور صدر مملکت کی تنخواہ دیگر شعبہ جات کے سربراہان کی نسبت کم ہوتی ہے لیکن ان کی مراعات اور سہولتیں انہیں امیر ترین لوگوں میں شامل کر دیتی ہیں چند ایک سیاستدانوں کو چھوڑ کر سیاسی شخصیات کے ماضی کا جائزہ لیا جائے تو یہ ہولناک حقیقت علم میں آتی ہے کہ ماضی میں ان کا شمار سفید پوشوں میں ہوتا تھا مگر یہاں ایسا کوئی میکنزم ہی نہیں جو ان کی امارت کے اسباب دریافت کر سکے۔
چند سال قبل چین ایک امیر ترین شخص کی تحقیق کی گئی کہ اس کے خاندان میں کوئی بھی شخص دولت مند نہیں ہے مگر وہ ملک کا امیر ترین شخص ہے اس نے یہ دولت کیسے حاصل کی جواب دیا گیا کہ یہ ایک تجارتی راز ہے جو بتایا نہیں جاسکتا تحقیق کاروں نے کہا کہ اگر آپ پچاس فی صد دولت قومی خزانے میں جمع کرادیں تو تحقیقات بند کی جاسکتی ہے اس نے اپنی دولت کا 50فی صد قومی خزانے میں جمع کرادیا تو تحقیقات بند کر دی گئیں، انڈیا نے کالے دھن کو اجلا بنانے کے لیے سرمایا داروں سے 40فی صد طلب کیے انہوں نے کہا ہم 45فی صد دینے کو راضی ہیں مگر ہمارے نام ظاہر نہ کیے جائیں، ان کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا مگر وطن عزیز میں عزیز انِ مصر ایسی تحقیق کو عدالتوں کے گرداب میں پھنسا دیتے ہیں اور معاملہ بے نتیجہ رہتا ہے سودی نظام کے خلاف شرعی عدالت نے فیصلہ دیا تو اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا دیا سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے خلاف سرِ محل کا مقدمہ چلا تو اسے بھی قانونی موشگافیوں کی بھینٹ چڑھا دیا گیاکیونکہ مقتدر طبقہ ایسی پالیسیاں وضع کرتا ہے جو ان کی کرپشن کو تحفظ فراہم کرتی ہیں ہمارا قانون غریب آدمی کو سزا دیتا ہے اور امیر آدمی کو جزا دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ عدلیہ بے توقیر ہوتی جارہی ہے۔
جعل سازی کے ایک مقدمہ میں ملزم کو ہتھکڑی لگائے بغیر پیش کیا گیا تو مدعی نے جج سے کہا دیکھیے جناب ملزم کتنا با اثر ہے کہ پولیس نے ہتھکڑی لگائے بغیر عدالت میں پیش کر دیا، تھانیدار نے کہا کہ ہتھکڑی دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے بغیر ہتھکڑی کے ملزم کو پیش کیا گیا ہے، مدعی نے کہا ملزم عام آدمی ہوتا تو آپ کسی بھینس کی زنجیر اُتار کر اس کے گلے میں ڈال دیتے، جج صاحب نے کہا کہ قانونی طور پر ہتھکڑی لگانا غلط ہے، سوچنے کی بات یہ ہے کہ جس ملک کی عدالتیں غیر قانونی کام کرتی ہوں وہاں قانون کا بول بالا کیسے ہو سکتا ہے، قانون کی برتری کیسے قائم ہو سکتی ہے، سوال یہ بھی ہے کہ جو عدالت اپنے احکامات کی تعمیل نہیں کرا سکتی اس کے قیام کا کیا جواز ہے عدالت ِ عظمیٰ نے اردو زبان کو قومی زبان قرار دے کر عدالتی اور دیگر محکموں کی ہدایات اور احکامات اردو زبان میں تحریر کرنے کا حکم دیا تھا مگر اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا، 2015 تک کے مقدمات کا فیصلہ ترجیحی بنیادوں پر نمٹانے کا حکم دیا گیا مگر اس پر بھی عملدرآمد نہ ہو سکا، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارا نظام عدل ایسے خطوط پراستوار کیا گیا ہے جو ترچھا ہے، اتنا آڑھا ہے جو انصاف کی راہ کے آڑے آتا رہتا ہے اور در انصاف پر دستک دینے والے کی انگلیاں لہو اگلنے لگتی ہیں اور وہ خون تھوکتے تھوکتے مر جاتا ہے۔
جماعت اسلامی کرپشن فری پاکستان بنانے کی جدوجہد کررہی ہے مگر تاحال عوام کو اپنا ہم نوا بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی، حالانکہ جماعت اسلامی نے ہر مشکل وقت میں عوام کا ساتھ دیا، قابل توجہ سوال یہ بھی ہے کہ عوام جماعت اسلامی کو نوٹ تو دیتے ہیں ووٹ کیوں نہیں دیتے، امیر جماعت اسلامی محترم سراج الحق نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ گھر گھر دستک دے کر اسلامی فلاحی پاکستان کا پیغام دیں، عوام پر باور کرائیں کہ ملک پر مسلط سیاسی ٹرائیکا قیامت تک بھی برسر اقتدار رہا تو کرپشن کی لعنت سے نجات نہیں مل سکتی، پاکستان کو زیر تسلط رکھنا عالمی ایجنڈا ہے اور اس یک نکاتی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے سودی نظام، آئی ایم ایف کی ہدایات پر معاشی نظام قائم رکھا گیا ہے، انہوں نے 9مئی کے واقعات کی شدید مذمت کی مگر فوجی عدالتوں میں مقدمات کی مخالفت کی ان کے کہنے کے مطابق فوجی عدالتیوں کا کسی سیاسی پارٹی پر پابندی جمہوریت کی نفی ہے، ان کا کہنا ہے کہ فوجی اور سول املاک کی توڑ پھوڑ ایک سنگین جرم ہے، ایسا سنگین جرم جس کی معافی ممکن نہیں۔کیونکہ یہ ذمے داری عدلیہ کی ہے۔