مسئلے کا حل کیا ہے

902

آخر مسئلے کا کوئی تو حل ہوگا؟ ضرور کوئی حل ہوگا مگر سرا ہی ہاتھ نہیں مل رہا‘ مسئلہ ہے کیا؟ کیا ہمارے سیاست دان حریص ہیں کہ اقتدار سے الگ ہی نہیں ہونا چاہتے‘ کیا ہماری اشرافیہ کوئی مافوق الفطرت مخلوق ہے کہ انہیں خط ِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا علم ہی نہیں ہے۔ کیا ملک کی ایلیٹ کلاس اور غریبوں میں سانس لینے‘ کھانا کھانے کے الگ الگ راستے ہیں‘ ایسا نہیں ہے تو پھر ان کے مسائل ایک جیسے کیوں نہیں ہیں، ان کے دلوں میں پاکستان کے لیے محبت ایک جیسی کیوں نہیں ہے؟ دونوں میں ایک فرق ضرور ہے ایک کے پاس کھانے کو کچھ نہیں اور دوسرے کے پاس ٹیکس بچانے کے ہزار بہانے۔ نو مئی کو یہی ایلیٹ کلاس سڑکوں پر تھی‘ اس نے کیا گل کھلائے کوئی تصور کر سکتا ہے کہ ہم اپنے ہی شہداء کی یادگاروں کو نقصان پہنچائیں گے؟ کہا جارہا ہے کہ ان مظاہروں میں افغان مہاجرین بھی شامل تھے‘ اگر ایسا ہی ہے تو پھر انہیں ان کو کیمپوں تک محدود رکھنے کی ذمے داری کس کی تھی؟ اس ملک کے غریب کے پاس تو کوئی اختیار نہیں ہے یہ تو صرف بہکا اور ہانک کر استعمال کیے جانے کی مشین ہیں۔ ان سے ووٹ ڈلوا لیے جائیں، نعرے لگوالیے جائیں، جلسوں میں دریاں بچھاتے ہیں اور کرسیاں لگاتے اور راہنمائوں کی گاڑیوں کے آگے پیچھے دوڑنے والی مخلوق ہیں اور اسی کے لیے کئی نونہال انہی راہنمائوں کی گاڑیوں کے پہیے تلے آکر کچلے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ انہی غریبوں کے بچے جلسوں‘ مظاہروں اور احتجاجوں میں گولی کا بھی نشانہ بن جاتے ہیں‘ کوئی ایلیٹ ان کی فاتحہ خوانی کے لیے بھی آتا۔
راولپنڈی کی مری روڈ گواہ ہے یہاں بہت سے غریب بچے جلسوں‘ مظاہروں اور دھرنوں کی نذر ہوئے‘ کسی کو ان کے نام بھی یاد نہیں ہوں گے‘ کیا ہماری سیاسی اشرافیہ غریبوں کے بچوں کا خون لینے کے لیے پیدا ہوئی ہے؟ ابھی ہال ہی میں نو مئی کے واقعات ہوئے‘ اس دوران کیا کچھ نہیں ہوا؟ شرم آتی ہے ان لوگوں پر جنہوں نے ملزموں کی رہائی اور انہیں رعایت کے لیے سفارش کی‘ جناب وزیر اعظم بھی کسی ایک ایلیٹ کے لیے سفارشی تھے اگر آپ کو سفارش ہی کرنی ہے تو پھر نو مئی کے نقصان پر واویلا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جائیے منصب سے الگ ہو جائیے اور اس منصب پر کسی اہل کو موقع ملے جس کے دل میں واقعی اس ملک کے لیے درد ہو اور شہداء کی یادگاروں کو نقصان پہنچانے والوں کو کڑی سے کڑی سزا دینے کا حوصلہ ہو۔ یہ تو ایک وزیر اعظم کی بات ہے، نہ جانے اس ملک میں کتنے سیٹھی ہیں اور کتنے نجم ہیں‘ جن کے دل میں پاکستان کے لیے درد بھی ہے بلوائیوں کے لیے ہمدردی بھی یہ کیسی منافقت ہے کوئی ہمیں منافقت کے معنی ہی سمجھادے۔ جناب وزیر اعظم کسی بلوئی کے لیے سفارش آپ کے منصب کے خلاف ہی نہیں بلکہ اس منصب کی توہین ہے۔ یہ حکومت توہین پارلیمنٹ کا قانون قومی اسمبلی سے پاس کراچکی ہے کاش شہداء کی یادگاروں کی توہین کرنے والوں کے لیے سفارشی نہ بنتی۔
ان دنوں ملک کے ہر چوک چوراہے پر یہی ایک بحث ہورہی ہے کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ملک میں سیاسی افراتفری ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی‘ کیا یہ امریکا اور چین کی جنگ ہے جو دونوں ملکوں کی سرحدوں سے باہر لڑی جارہی ہے اور اگر ایسا ہی ہے تو ہم کیوں پرائی جنگ کا ایندھن بن رہے ہیں‘ ہمیں اپنی معیشت سنبھالنی ہے اور آئی ایم ایف سے نجات حاصل کرنی ہے لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات بھی دوبارہ وہیں آچکے ہیں جہاں سے شروع ہوئے تھے۔ آئی ایم ایف پیکیج کی مطلوبہ قسط اب تک ہمیں موصول نہیں ہوئی ہے۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے امداد ملنے کے باوجود پاکستان کی اقتصادی صورتحال ویسی ہی ہے جیسی ایک سال پہلے تھی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی معیشت سال 2022ء میں 6 فی صد سے کم ہوکر اب 0.5 فی صد سے بھی کم ہوگئی ہے۔ یہ ہماری معیشت کا حال ہے اور سڑکوں پر ہجوم ہے اور یادگاروں کو ہجوم نے توڑا۔ ظاہر ہے کہ ہمارے ڈیفنس ہیڈ کوارٹرز کی سیکورٹی کے حوالے سے ایس او پیز پر سوالیہ نشان کھڑے ہوتے ہیں۔ پاکستان دشمن قوتوں نے 9 مئی کے واقعات کو اپنی فتح قرار دیا کیونکہ انہیں تو موقع چاہیے کہ وہ بات کر سکے۔
اس ملک کی پون صدی کی محیط تاریخ کے دوران جو کام ہمارے بدترین دشمن بھی نہیں کرسکے وہ ایک سیاسی جماعت کے کارندوں نے کردیا اس سیاسی جماعت کی قیادت اس سب کے باوجود وہیں کھڑی ہے جہاں نو مئی سے قبل تھی‘ یومِ تکریم ِ شہداء کے موقع پر ہمیں نہ صرف اپنے شہیدوں اور غازیوں کی قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہیے بلکہ یہ عزم بھی دہرانا چاہیے کہ پاکستان کی حفاظت صرف افواجِ پاکستان ہی کی نہیں بلکہ ہم سب کی بھی ذمے داری ہے اور اس ذمے داری کا صحیح احساس اسی وقت پیدا ہوسکتا ہے جب ہم اس ملک کو اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت سمجھتے ہوئے اس کے لیے ہر قسم کی قربانی دینے کے تیار رہیں گے۔