رجب طیب اردوان کامیابی کی دہلیز پر

685

14 مئی 2023 کو ہونے والے ترکیہ کے انتخابات سے پہلے مغربی طاقتوں نے سروے کمپنیوں کے ذریعے اردوان کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا کیا اور یہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ اردوان عوامی مقبولیت کھو چکے ہیں اور وہ اپنی عوام کی نظروں میں کسی ڈکٹیٹر سے کم نہیں ہیں۔ ان سروے کمپنیوں نے عوامی رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی بھرپور کوشش کی۔ یہ درحقیقت ففتھ جنریشن وار کا حصہ تھا جس کے تحت انفارمیشن وار ان کے خلاف لڑی جاتی ہے جو مغربی طاقتوں کو پسند نہیں۔ ترکیہ میں اردوان ایک مضبوط لیڈر ہیں جو مغربی طاقتوں کو ناپسند ہیں اس کی بنیادی وجہ ترکیہ کو بلندی اور ترقی کی جانب لے کر چلنا ہے۔ ترکیہ نے حال ہی میں ہونے والی آذربائیجان کی جنگ کا پانسہ پلٹ دیا ہے، جو ویسٹ کو قطعاً ناقابل قبول ہے۔ لہٰذا انفارمیشن وار کے تحت سروے کمپنیوں کو بیک ڈور فنڈنگ کی گئی تاکہ لوگوں کا مائنڈ سیٹ تبدیل کیا جاسکے۔
سروے کمپنیوں نے پیش گوئیاں کی تھیں کہ کلیچدار اوغلو کو 56فی صد ووٹ ملیں گے اور طیب اردوان کو 42فی صد ووٹ ملیں گے۔ جس کی وجوہات مہنگائی، قدامت پسندی، غیر ملکیوں کی ترکیہ میں آبادکاری اور پچھلی دو دہائیوں سے طیب اردوان کی مسلسل حکومت۔ سروے باقاعدہ ایجنڈا سیٹنگ کے تحت ان علاقوں میں ہوئے جہاں پر طیب اردوان کی مخالفت تھی۔ چند ہزار لوگ سات کروڑ افراد کی نمائندگی نہیں کرتے۔ چند ہزار مخصوص لوگوں کی رائے سوشل میڈیا پر دکھانے سے صرف مغربی طاقتوں کا ایجنڈا سامنے آیا اور 14 مئی کے الیکشن میں ان سروے کمپنیوں نے منہ کی کھائی ہے۔ ترک گورنمنٹ کو چاہیے کہ وہ سروے کمپنیوں پر پابندی لگا دے کیونکہ انہوں نے بیک چینل فنڈز لیے اور ملین ڈالرز کمائے ہیں۔
پوری دنیا میں جب مغربی طاقتیں کسی مسلمان ملک میں پروپیگنڈا کرتی ہیں تو عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جیسے عراق اور لیبیا میں دیکھا گیا۔ لیکن ترکیہ میں اس کے برعکس ہوا۔ سروے کمپنیوں کی اردوان مخالف مہم کا اثر الٹا پڑا اور لوگوں نے اردوان کو لانے کے لیے بھرپور ووٹنگ کی۔ 28 مئی کو ہونے والے دوسرے مرحلے کے انتخابات میں 80 فی صد امید ہے کہ طیب اردوان ہی جیتیں گے۔
سینان اوعان کی حمایت: اس وقت سینان اوعان کی حمایت کی طرف بین الاقوامی میڈیا کی آنکھیں لگی ہوئی ہیں۔ سینان اوعان نے ایک پریس کانفرنس میں طیب اردوان کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ ان کی اس حمایت سے طیب اردوان کی جیت یقینی ہوگئی ہے۔ سینان اوعان وہ شخصیت ہیں جن کی سوچ ’’پاکستان‘‘ کے حق میں ہے۔ جس وقت سعودی عرب میں ایک حادثہ پیش آیا تھا تو ترکیہ نے سرکاری سطح پر سوگ کا اعلان کیا تھا۔ سینان اوعان نے اس وقت اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ پاکستان میں ایک ٹرین کے حادثے میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں اور پاکستان ہمارا سب سے قریبی اور ہر مشکل میں ساتھ دینے والا ملک ہے، میں طیب اردوان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ پاکستان کے لیے بھی سرکاری سطح پر سوگ کا اعلان کریں۔ سینان اوعان جنہوں نے ماسکو سے ڈاکٹریٹ کیا ہے وہ اسلامی ممالک کے ساتھ الائنس کے حق میں ہیں۔ طیب اردوان بھی اسلامی ممالک کے الائنس کی حمایت کرتے ہیں۔ سینان اوعان نے آذربائیجان میں جا کر یہ بیان دیا تھا کہ ہم ایک قوم اور دو ملک ہیں۔ (آذر بائیجان اور ترکیہ) اسی طرح انہوں نے طیب اردوان کے متعلق بھی یہ بیان دیا تھا کہ میں طیب اردوان کو بہت پسند کرتا ہوں کیونکہ وہ فیصلہ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں اور میں کسی ایسے لیڈر کو پسند نہیں کرتا جو سب کی سنتا ہو۔ سینان اوعان کو کمال کلیچدار اوغلو کی جانب سے آٹھواں وائس پریزیڈنٹ بنانے کی پیشکش تھی۔
یہاں پر دلچسپ بات یہ ہے کہ سینان اوعان کی شدید ضرورت کلیچدار اوغلو کو تھی، جبکہ سینان اوعان کو طیب اردوان کی ضرورت ہے۔ سینان اوعان وائس پریزیڈنٹ کا عہدہ لینے کے ساتھ ساتھ امیگریشن کی منسٹری کے بھی خواہاں ہیں اور ان کے عزائم بہت واضح ہیں۔ انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں یہ واضح طور پر عوام سے وعدہ کر رکھا ہے کہ ہمیں ترکیہ میں غیر ملکی منظور نہیں اسی لیے وہ امیگریشن کی منسٹری پر نگاہ لگائے ہوئے ہیں۔ سینان اوعان کی حمایت کے بعد طیب اردوان کی جیت بہت قریب ہے بلکہ یقینی ہے۔ انہیں صرف 0.5فی صد ووٹوں کی ضرورت ہے۔
طیب اردوان کو 0.5فی صد ووٹ حاصل کرنے کا مطلب پونے تین لاکھ مزید ووٹ لینا ہے اور جیتنے کے لیے یہ کوئی بہت بڑا ووٹ بینک نہیں۔ جس بندے نے دو کروڑ 70 لاکھ ووٹ لے لیے اس کے لیے پونے تین لاکھ ووٹ لینا کوئی مسئلہ نہیں۔ 14مئی کو کینسل شدہ ووٹوں کی تعداد 13 لاکھ ہے یہ اگر دوسرے راؤنڈ میں سارے کے سارے ووٹ کلیچدار اوغلو کو مل بھی جائیں تو بھی کلیچدار اوغلو کے ووٹ 47فی صد بنیں گے۔ لہٰذا وہ پھر بھی نہیں جیتیں گے۔ اس وقت طیب اردوان کو جیت کے لیے صرف 0.5فی صد ووٹ چاہیے، لہٰذا طیب اردوان تو پہلے ہی کامیابی کی دہلیز پر کھڑے ہیں بس ان کا 28 مئی کو اس دروازے سے اندر داخل ہونا باقی ہے۔ اس وقت دنیا کی نظریں اور کان ترکیہ سے آنے والی خبروں پر جمے ہیں۔ ترکیہ میں ہونے والے 28 مئی 2023 کے انتخابات کی لمحہ بہ لمحہ عالمی میڈیا نے تازہ ترین صورتحال پر توجہ مرکوز رکھی ہوئی ہے۔ بہت سے اخبارات اور ٹیلی ویژن جو الیکشن کی نبض پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں 2023 کے اہم ترین واقعات میں سے ترکیہ کے الیکشن کو ان میں سے ایک واقعے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ وہ لمحہ بہ لمحہ پیش رفت اپنے قارئین اور ناظرین کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔
جرمنی کہ اخبار ویلٹ (Welt) نے ترکی کے انتخابات کے ’’حقیقی فاتح‘‘ کے طور پر طیب اردوان کا اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ 28 مئی کو ہونے والے رن آف الیکشن طے کر دیں گے کہ جمہوریہ ترکیہ کے تیرویں صدر کون ہوں گے۔ دی اگنامک ٹائمز نے اردوان کو اتا ترک کے بعد ترکی کے سب سے اہم رہنما کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے یہ ہیڈ لائن لگائی کہ ’’اردوان الیکشن کے تاریخی دوسرے راؤنڈ میں اقتدار کی تیسری دہائی کو دیکھیں گے‘‘۔ برطانیہ میں قائم مڈل ایسٹ آئی نے لکھا ہے کہ بیرون ملک ووٹنگ کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ انتخابات میں زیادہ ٹرن آؤٹ کی طرف اخبار نے توجہ مبذول کروائی ہے۔ فرنچ اخبار لی مونڈے (Le Monde) نے کلیچدار اوغلو کی حکمت عملی میں تبدیلی کو اپنے قارئین کے سامنے ہیڈ لائن کے طور پر پیش کیا ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ ’’اپوزیشن خطرناک طریقے سے دائیں طرف منتقل ہو رہی ہے‘‘۔ یوریشیا گروپ آف کنسلٹنسی نے اتوار 28 مئی کو اردوان کے جیتنے کے امکانات کو 80 فی صد قرار دیا ہے، خبر میں بتایا گیا ہے کہ روم میں بارش کے باوجود ترک سفارت خانے کے سامنے لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں اور بیرون ملک مقیم 3.4 ملین ترک شہری 24 مئی تک ووٹ ڈال سکتے ہیں۔
العربیہ نے خبر میں سینان اوعان کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے جو 5.17فی صد ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر آئے ہیں۔ خبر میں کہا گیا ہے کہ دوسرے راؤنڈ میں دونوں امیدواروں میں سے کسی ایک کی حمایت کا فیصلہ ممکن طور پر فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ جو سینان اوعان، طیب اردوان کی حمایت کرکے انتخابات کو فیصلہ کن راؤنڈ میں پہنچا چکے ہیں۔ یونانی اخبار ERT نے خبر کا عنوان دیا ’’کلیچدار اوغلو کے لیے آخری جنگ‘‘ اخبار کا لکھنا ہے کہ کلیچدار اوغلو کا قوم پرستانہ گفتگو کا رجحان اس کی حمایت کرنے والی کرد نواز پارٹی کو بے حد پریشان کرتا ہے۔
نیوز بامب News bomb نے خبر میں لکھا ہے کہ پہلے راؤنڈ کے نتائج نے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں شدید پھوٹ پیدا کر دی ہے لیکن اس کے باوجود اکشنر نے کمال کلیچدار کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ہندوستان کے دی اکنامک ٹائمز نے اردوان کو ترکی کی ’’ناقابل تردید طاقت‘‘ قرار دیتے ہوئے ہیڈ لائن لگائی ہے کہ ’’اتا ترک کے بعد سب سے اہم رہنما صدر طیب اردوان ہیں‘‘۔ اخبار لکھتا ہے کہ 69 سالہ اردوان ترکیہ کے سب سے اہم رہنما مصطفی کمال اتاترک کے بعد جمہوریہ عثمانیہ کے بعد کے قابل احترام بانی کے طور پر ہیں۔