عوام اور اشرافیہ

1093

اشرافیہ (اسٹیبلشمنٹ) سے کیا مراد ہے؟ یہ کون ہوتے ہیں ان کی طاقت کیا ہوتی ہے؟ یہ سوالات آج کل بہت زیادہ پوچھے جانے لگے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس لفظ کا استعمال الیکٹرونک میڈیا، پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا اور انسانی میڈیا یعنی زبانوں پر بہت زیادہ کیا جارہا ہے۔ بہت دفعہ اس کے معنی سمجھے بغیر اس لفظ کی تکرار اس قدر زیادہ کی جاتی ہے کہ بچے اب گھروں میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں کبھی یہ ابا اماں ہوتے ہیں اور کبھی دادی پھپھو بھی ہوسکتی ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ یا اشرافیہ کہتے کس کو ہیں۔ یہ دراصل ریاست کی غیر اعلانیہ منظم اور طاقتور اکائی کا نام ہے جو تعداد میں تو اقلیت میں ہوتی ہے لیکن ریاستی نظام پر فیصلہ سازی کے وسیع ترین اختیارات اس کے پاس ہوتے ہیں۔ یہ اشرافیہ اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ سیاست دانوں کے لیے ناقابل تسخیر قوت بن جاتی ہے۔ ہم سب کو اس بارے میں بخوبی علم ہے کہ جمہوری ریاست کے تین اہم ستون ہوتے ہیں۔ مقننہ یعنی پارلیمنٹ، عدلیہ اور انتظامیہ۔ آج کل صحافت کی اہمیت اور اثر انگیزی کے باعث اسے چوتھے ستون کے طور پر مانا جاتا ہے۔ بہرحال بنیادی ستون تین ہی ہوتے ہیں۔ مقننہ سے مراد پارلیمنٹ یعنی سینیٹ اور قومی اسمبلی ہے۔ مقننہ کا کام قانون سازی ہے۔ عدلیہ سے مراد عدالت عظمیٰ اور اس کی ماتحت عدالتیں ہیں۔ عدلیہ کا کام قانون کی تشریح کرنا ہے۔ انتظامیہ سے مراد بیوروکریسی یا نوکر شاہی ہے۔ انتظامیہ کا کام قانون کا نفاذ ہے۔ دنیا میں تمام ممالک میں اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے جو اپنے ملک کے انتظام کے لیے سرگرم ہوتی ہے۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کا کام ہی انتظامیہ (مینجمنٹ) ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں اسٹیبلشمنٹ انتظام سے آگے بڑھ کر فیصلے کرنے کا فریضہ بھی سنبھال لیتی ہے۔ یعنی مینجمنٹ سے بڑھ کر ججمنٹ کرنے لگتی ہے اور ریاستی نظام سنبھالتے سنبھالتے سیاسی نظام سنبھالنے کا بیڑہ بھی اٹھا لیتی ہے جس سے معاملات قابو میں آنے مشکل ہوجاتے ہیں۔ یوں تو ریاست میں اشرافیہ کو جمہوریت کے لیے مددگار ہونا چاہیے لیکن پاکستان میں اس وقت یہ دونوں ایک دوسرے کے مدمقابل بنے ہوئے ہیں۔ اگرچہ جمہوریت کی تعریف ہی یہ ہے کہ ’’عوام کی حکومت عوام کے ذریعے اور عوام کے مفاد کے لیے‘‘ لیکن پاکستان میں عوام کے لیے کون سوچتا ہے اور نہ ہی عوام ایسے تربیت یافتہ ہیں کہ اپنے لیے اور اپنے مفاد کے لیے کام کرنے والوں کو چنیں۔ یہاں تو عوم کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے میں سیاسی لیڈر اتنے پُراعتماد ہوتے ہیں صبح و شام چوک چوراہوں پر نکلنے کی کال دیتے ہیں اور جب چاہیں عوام کو سڑکوں پر لاٹھیاں کھانے اور آنسو گیس سے نمٹنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں، خود اپنے محفوظ کنٹینروں اور پناہ گاہوں میں آرام فرماتے ہیں۔ عوام اس بات پر عقل کے ناخن لینا ہی نہیں چاہتے کہ اقتدار کے مزے چند خاندانوں کے لوگ ہی کیوں لوٹ رہے ہیں اور ہمارے پلے بریانی کی پلیٹ اور قیمے والے نان ہی ہیں وہ بھی برسوں میں کوئی ایک آدھ بار۔ اشرافیہ کے اولادیں باہر کی یونیورسٹیوں میں ہمارے ٹیکس کے پیسے سے پڑھ رہی ہیں، علاج کے لیے خاندان کے افراد باہر اسپتالوں میں آنیاں جانیاں کرتے ہیں، چھٹیوں پر دنیا کے ملکوں کی سیر کرتے ہیں، سرکاری دوروں پر ان خاندانوں کے چھوٹے بڑے جہاز بھر کر جاتے ہیں، یہاں تک کہ حج عمرے بھی سرکاری خرچ پر کرتے ہیں۔ عوام کے لیے سرکاری اسپتالوں کے دھکے ہوتے ہیں، روٹی اور آٹے کی لائنیں ہوتی ہیں، چھوٹی چھوٹی ملازمتوں کے لیے جوتیاں چٹخاتے ہیں، مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ماں باپ بچوں کے ساتھ خودکشی میں راستہ ڈھونڈتے ہیں۔ یہ ننانوے فی صد پاکستانی ہیں جو ایک فی صد اشرافیہ کی چالوں میں آکر اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیوں کو دائو پر لگادیتے ہیں۔ کیا یہ سوال لازم نہیں کہ پاکستان کے نوے فی صد غریب بچے اسکول نہیں جاتے، ان کے والدین تعلیم کے خواب بھی نہیں دیکھتے، وہ تو بس پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے روٹی کی تگ و دو میں خود زندگی بھر پستے ہیں اور پھر بچوں کو بھی اپنے ساتھ لگا لیتے ہیں۔ وہ روٹی کے خواب دیکھتے ہیں، پیٹ بھر کر روٹی کے خواب۔ اشرافیہ کے اخراجات نے پاکستان کو قرضوں کے چکر میں ڈالا۔ سود پر لیے ان قرضوں نے پاکستان کی آزادی کو بھی خطرے میں ڈال رکھا ہے۔ اب تو یہ حال ہے کہ اس سال سود کی مد میں 6500 ارب کی ادائیگی کرنی ہے۔ جب کہ خزانہ خالی ہے جس کا مطلب ہے کہ لیے گئے قرض کا سود دینے کے لیے بھی مزید قرض لینا ہوگا۔ یہ صورت حال آج کی نہیں ہے یہ عشروں کی منصوبہ بندی سے وجود میں آئی ہے۔ اس منصوبہ بندی میں عوام بھی پورے پورے شریک ہیں۔ کیونکہ اشرافیہ خواہ کتنی ہی طاقتور ہو عوام کے مقابلے میں کمزور ہے۔ ان کے پاس خواہ کتنے ہی اختیارات ہوں وہ عوام سے اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کی قدرت نہیں رکھتے۔ وہ طریقے ضرور اختیار کرتے ہیں چالیں ضرور چلتے ہیں لیکن بہرحال ان کے طریقوں اور چالوں میں عوام خود ہی آتے ہیں۔ جب تک عوام اس چکر سے نکلنے کا نہیں سوچیں گے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے۔