رمضان المبارک‘ قرآن و جہاد کا مہینہ

588

خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جنہیں ایک بار پھر رمضان المبارک سے استفادہ کا موقع ملا ہے‘ رمضان جو گناہوں کو مٹانے اور ربّ کی بارگاہ میں انسان کو مقبول بنانے کا ذریعہ ہے۔ جس ماہ مقدس میں ایک نفل عبادت کا ثواب فرض کی ادائیگی کے حساب سے دیا جا تا ہے۔ اس ماہ مبارک کی جس قدر خصوصیات اور فضائل ہیں اُن سب کی بنیاد وہ کتاب ھدیٰ ہے کہ جس کے آغازِ نزول کے لیے ماہِ رمضان ہی کی ایک شب ِ مقدس کا انتخاب کیا گیا تھا فرمایا: بے شک ہم نے اسے (قرآن کو) شب ِ قدر میں اتارا ہے۔ یہ قرآن، جو ام الکتاب بھی ہے، فرقان بھی ہے، کتاب ہدایت و انقلاب بھی ہے، انسان کے لیے دستور حیات بھی ہے۔
غور فرمائیے! پچھلی ساری سماوی کتب اور الہامی صحائف سے لیکرتادم آخرین ساری کتابوں سے افضل و اکمل کتاب کے نزول کے لیے اس بستی کا انتخاب ہوا جو اُم القریٰ ہے جہاں اللہ کا پہلا گھر قائم ہوا یعنی وہ بستی جو دنیا کی ساری بستیوں سے افضل ہے، جس مہینہ کو منتخب کیا گیا وہ سارے مہینوں کا سر دار… رات کے نصیبے میں یہ سعادت آئی وہ ایک رات ساری راتوں سے افضل کہ ’’ایک رات کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادت و ریاضت سے بہتر ہے‘‘۔ جس فرشتے سیدنا جبرئیل ؑ کو اللہ نے وحی پہنچانے کی ذمے دار ی سونپی، وہ فرشتہ بھی آسمان کے سارے فرشتوں کا سر دار۔ یہ قرآن مقدس، کائنات کے جس شخص کے قلب ِ اطہر پر نازل ہوا، جو صاحب ِ قرآن بنا، وہ بھی ساری کائنات میں افضل الخلائق، سید البشر ہی نہیں، سید ولد آدم بھی وہی، امام الا نبیاء ہی نہیں نوید مسیحا بھی وہی رحمت للعالمین ہی نہیں محبوب ِ کبریا بھی وہی۔
رمضان المبارک کا سب سے بڑا تاریخی واقعہ… جس سے رمضان کی فضیلت و اہمیت کو چار چاند لگے یہی نزولِ قرآن کا واقعہ ہے، نزولِ قرآن اور بعثت ِ مصطفیؐ کو اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر بطورِ احسان کے بیان فرمایا ہے۔
ایک مقام پر ارشاد فرمایا ’’کہ تحقیق اللہ نے مومنوں پر بہت بڑا احسان کیا کہ اُن میں اُن ہی میں سے ایک رسولؐ مبعوث کیا جو اُن پر آیات پڑھتا ہے‘ انہیں پاک کرتا ہے اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور ا س سے قبل یہ لوگ کھلی اور واضح گمراہی میں پڑ ے ہوئے تھے‘‘۔
اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
افسوس! آج بحیثیت مجموعی مسلمانانِ عالم اس نسخہ ٔ کیمیا (قرآنِ مقدس) کے ساتھ نا قدری کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب سے لیکر ترکمانستان تک اور نائیجریا سے لیکر البانیہ تک 65 سے زائد اسلامی ریاستیں، مملکتیں اور حکومتیں اپنے تمام تر مالی، اقتصادی اور سائنسی وسائل کے باوجود عالم کفر کے دست نگر ہیں۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا تھا کہ: ’’بے شک اللہ اسی قرآن کو تھامنے کی وجہ سے قوموں کو عزت و شرف اور عروج عطا کرتا ہے اور جن قوموں کو پست اور ذلیل و رسوا کرتا ہے انہیں قرآن چھوڑنے کے جرم میں یہ سزا بھگتنی پڑتی ہے‘‘۔ ( مفہوم)
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
آج قرآن، دساتیر عالم کے آگے مغلوبیت سے دو چار ہے وہ قرآن جو ساری دنیا کا امام ہے آج متروک ہے، آج مسلمانوں نے قرآن کو محض مردے بخشوانے کا ذریعہ بنا لیا ہے، کتنے ہی مسلمان ہیں جو قرآن کریم پڑھتے ہی نہیں اور جو پڑھتے ہیں ان کی بھی اکثریت محض حصولِ ثواب کی خاطر اور بس! قرآن کا کیا پیغام ہے کیا مطلوب ہے؟ یہ اپنے پڑھنے والوں سے کیا چاہتا ہے؟ اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ۵۰ سالہ بزرگ بھی احیائے اسلام کے لیے قرآن ہاتھ میں لیکر میدان میں نہیں نکلتے کہ اگر انہوں نے قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہوتا تو وہ جانتے کہ قرآن غالب ہونے کے لیے آیا ہے‘ مغلوب رہنے کے لیے نہیں اس کا مقام گھر کی رحل اور مسجد کی الماریاں ہی نہیں بلکہ اس کا اصل مقام عدالت اور پارلیمنٹ ہے جہاں صرف اس کا حکم چلے اور یہ ہر قانون سے بالا تر ہو۔ سورۃ الصف کی یہ آیت چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اللہ نے قرآن بھیجا ہی اس لیے ہے کہ اُسے غالب کر دیا جائے ’’اللہ وہ ذات ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق دیکر بھیجا تاکہ وہ اسے تمام ادیانِ باطلہ پر ظاہر، غالب کر دے اگر چہ یہ مشرکوں کو کتنا ہی نا گوار کیوں نہ ہو‘‘۔
نبی کریمؐ، مکہ کے تپتے ہوئے شہر میں دشمنان دین کے گھیرے میں ہوں، یا طائف کے میدان میں آوارہ چھوکروں کے حصار میں، شعب ابی طالب میں محصور کیے جائیں یا آپؐ کے جانثاروں کو بیڑیوں میں جکڑ کر کوڑوں سے مار پیٹ کر دہکتے ہوئے کوئلوں پر لٹکایا جائے، آل یاسرؓ پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹیں یا سمیہ ؓ کو وحشیانہ انداز میں شہید کر دیا جائے۔ آقا ؑ مصائب سے گھبرا کر اپنا مشن نہیں بدلتے… بلکہ غلبہ دین کی جدوجہد کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھتے ہیں۔ جب سر زمین مکہ کے مشرکوں نے عرصہ حیات تنگ کر دیا اور آپؐ کو اللہ کے حکم پر مکہ چھوڑنا پڑا تو مکہ پر الوداعی نگاہ ڈالتے ہوئے فرمایا تھا کہ اے مکہ ! تو تو مجھے بڑا محبوب ہے لیکن کیا کروں تیرے باسی مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔
مدینہ منورہ تشریف لاتے ہی آقاؑ نے شریعت ِ اسلامیہ کا نفاذ کیا اور اس طرح ساری دنیا میں ایک چھوٹی سی بستی مدینہ میں اللہ کا دین غالب ہوا، کفار و مشرکین کو یہ کیسے گوارا ہو تا چنانچہ یہی رمضان المبارک تھا جب عالم کفر ہر طرح کے کیل کانٹے سے لیس ہو کر تجربہ کار جنگجوئوں اور ماہرین حرب سپہ سالاروں کے ساتھ اسلام کو مٹانے کے لیے مدینہ پر لشکر انداز ہوا‘ ربّ تعالیٰ نے صفر ۲ ہجری میں مظلوم مسلمانوں کو اپنا آپ بچانے اور دین کی مدافعت کے لیے قتال کی اجازت تو دے ہی دی تھی، لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ لڑیں تو کیسے لڑیں؟ کفر، ایک ہزار کا لشکر لیکر آیا ہے، رؤ سائے قریش سرخ اونٹوں پر سوار، 700 اونٹ، 700 زرہ بکتر پہنے جنگجو، ہر قسم کا سامان … ! اور دوسری طرف رب ِ واحد کے غلاموں کا حال یہ ہے کہ جوانوں کو شمار کیا گیا تو 300 سے بھی کم نکلے، چھوٹے چھوٹے بچے پیر کے پنجوں پر کھڑے ہوئے التجا کر رہے ہیں، یا رسول اللہ! ہمیں بھی لے جائیے ہم بھی ربّ کی راہ میں مر کے امر ہونا چاہتے ہیں۔ اللہ کے نبیؐ مسکراتے ہوئے جانثاران بدر میں شمولیت کی اجازت دیتے ہیں چنانچہ بچوں اور بوڑھوں کو شمار کیا گیا تو تب جاکر تعداد 313 بنی، آٹھ تلواریں اور چھے زر ہیں۔ اقبال ؒ نے کہا تھا کہ
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
ہاں یہی توکل تھا کہ آقاؑ اپنے تین سو تیرہ جانبازوں کو بے سرو سامانی کے عالم میں بدر کے میدان کا ر زار میں نکال لائے، اسی رمضان کی اٹھارویں تاریخ (۱۷۔ رمضان المبارک بمطابق ۱۳ مارچ ۶۲۴ھ) کو شب ِ جمعہ کھلے آسمان تلے ربّ کے آگے سجدہ ریز ہو گئے عرب کی گری، جھلسی ہوئی ریت، ننگی زمین پر آقا ؑ نے اپنی پیشانی مبارک رکھ دی۔ عرض کیا: ا ے اللہ! گیارہ اور چودہ سال کے بچوں، جھکی ہوئی کمروں والے بوڑھوں، ہجرتوں کے ستائے ہوئوں ۳۱۳ بے سرو سامان بندوں کو لے کر تیرا دین بچانے کے لیے آگیا ہوں، میری کل پونجی اور کل سرمایہ یہی ہے جو تیری بارگاہ میں لا کر رکھ دیا ہے، اللہ اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہو گئی تو قیامت تک زمین تیرے عبادت گزار بندوں کی راہ تکتی رہے گی۔ پھر چشم فلک نے وہ مناظر بھی دیکھے جب آسمان سے فرشتوں نے اُتر کر مسلمانوں کی مدد کی حفیظ جالندھری مرحوم نے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے کہ ؎
ترے پیغام کی آیات ہیں ان کی زبانوں پر
مدارِ قسمت توحید ہے ان چند جانوں پر
اگر اغیار نے ان کو جہاں سے محو کر ڈالا
قیامت تک نہیں پھر کوئی تجھ کو ماننے والا
الٰہی اب وہ عہد لیلۃ المعراج پورا کر
محمدؐ سے جو وعدہ ہو چکا ہے آج پورا کر
چنانچہ وہ مٹھی بھر ۳۱۳ جیت گئے، اسلام کو فتح حاصل ہوئی، شرک و کفر کے دلدادہ ذلیل و خوار ہو گئے …
آج بھی وہی رمضان ہے! وہی اسلام، وہی ربّ اور اسلام کو مٹانے کے لیے بے چین و بے قرار اُن ہی کفار کی روحانی اولاد ! لیکن ہائے افسوس کہ ۳۱۳ نفوسِ قدسیہ کی سنت دہرانے والے نہیں ہیں، معاذ ؓ اور معوذ ؓ کے جانشین نہیں ہیں۔ درحقیقت وہ ایمان، وہ اسلام، وہ تو کل اور حسن عمل نہیں ہے جس کا شاہد میدانِ بدر بنا تھا، اقبال ؒ نے کہا تھا ؎
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اُتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
افسوس! آج وہ مسلمان کہاں سے لائیں جو ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کو بچانے کے لیے اپنا سارا سرمایہ حیات ہتھیلی پہ سجا کے سر پہ کفن باندھ کر نکل آتے تھے۔ جو ایک بنت ِ اسلام کے دوپٹے کی حرمت کے لیے بصرہ سے سندھ کے ریگستانوں کو چل پڑتے تھے۔ وہ مسلمان کہاں ہیں جو رمضان المبارک کو جہاد اور اسلام کے غلبے کی جدوجہد میں گزارتے تھے۔ یہ کیسے مسلمان؟ یہ کیسے رمضان اور کیسے روزے ہیں؟ روزہ رکھ کر، تراویح پڑھ کر، گویا اللہ پر احسان ہو رہا ہے (نعوذ باللہ) اب روزے کی حالت میں دین کے لیے کام! توبہ کیجیے اتنی گرمی اتنی دھوپ‘‘۔
کاش ہمیں رمضان المبارک کی حیثیت کا علم ہو تاکہ یہ کیسے مسلمان کو کندن بنانے کے لیے آتا ہے جسے سو کر گزار دیا جا تا ہے اے کاش ہم چشم تصور سے صحابہ کرام ؓ کے اُن روز و شب کا نظارہ کر سکیں جو وہ رمضان المبارک میں گزارا کر تے تھے!