حالات کے نام پر فرار نہیں، سر جوڑیں

918

وزیراعظم شہباز شریف نے حالات کا عذر پیش کرتے ہوئے انتخابات کو فی الحال ناممکن قرار دیا ہے۔ وزیراعظم نے پارٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم معیشت ٹھیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ بھی دن رات۔ ہم مہنگائی پر جلد قابو پالیں گے۔ اجلاس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ ہم تعمیری سیاست پر یقین رکھتے ہیں، تخریبی سیاست پر نہیں، یہ تخریبی سیاست کا وقت نہیں ہے لیکن اس کے بعد عدلیہ کے فل بنچ اور سہ رکنی بنچ وغیرہ کے موضوع پر بات کی گئی اور تخریبی سرگرمی یعنی فل بنچ کی درخواست مسترد ہونے پر اپیل میں جانے کے قانونی پہلوئوں پر مشاورت کی گئی۔ یہ بحث اپنی جگہ ہے کہ الیکشن کب ہوسکتے ہیں اور کب نہیں۔ اور حکومت کراسکتی ہے کہ نہیں لیکن پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی جو کچھ کہہ رہے ہیں ان کا عمل اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ ملک کا کوئی ادارہ اپنا کام نہیں کررہا۔ عدلیہ عدل سے، فوج دفاع سے، سیاست دان ملکی معاملات سے غافل ہیں۔ مسلم لیگ کے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ ہم ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کی دن رات کوشش کررہے ہیں جس کام پر حکومت دن رات لگی رہے وہ کیسے نہیں ٹھیک ہوگا۔ دراصل یہ پی ٹی آئی کو اور اپنے راستے کو ٹھیک کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے قانون بنارہے ہیں اس کے لیے سیاسی فیصلے کیے جاتے ہیں اسی کی روشنی میں جوڑ توڑ کیا جارہا ہے۔ یعنی ملکی معیشت کو ٹھیک کرنے کا کوئی کام نہیں ہورہا۔ بلکہ یہ سوال تو اُلٹا حکومت سے کیاجانا چاہیے کہ ملکی معیشت کا یہ حال کس نے کردیا کہ دن رات اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کے باوجود ٹھیک نہیں ہورہی بلکہ ہر آنے والے دن معیشت بگڑ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی بھی جمہوریت کی بات کرتی ہے لیکن کراچی اور بلدیاتی اداروں کے جمہور کے فیصلوں کو نہیں مان رہی۔ بلکہ وہ انتطار میں ہے کہ کب پی ڈی ایم کی کشتی ڈوبنے لگے اور کب وہ حکومت سے چھلانگ لگادے۔ پھر جمہوریت کے نام پر سارے کام ہوں گے۔ اسی طرح پی ٹی آئی سربراہ بے تحاشا مقدمات میڈیا ٹرائل اور سارے حربوں سے پریشان ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ ہر ایک سے بات کو تیار ہوں، فوج سے بھی جھگڑا نہیں ہے لیکن جوں ہی عدالتی آکسیجن ملنا شروع ہوئی حکومت کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات میں بیٹھنے سے انکار کردیا۔ چلیں یہ مان لیا جائے کہ وہ جس کو چور چور اور کرپٹ کہتے ہیں ان کے ساتھ نہیں بیٹھیں گے لیکن جس کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا تھا اسے اپنی پارٹی کا صدر بنالیا۔ فوج کے سیاسی رول کے خلاف ہیں لیکن اسے نیوٹرل نہیں رہنے دینا چاہیے۔ جنرل ضیا، جنرل پرویز جنرل اختر اور جنرل ایوب کی باقیات کو پارٹی میں شامل کرلیا ہے اور پھر بھی جمہوریت کی بات کررہے ہیں۔ پی ڈی ایم بلکہ مسلم لیگ تو آئین قانون اصول و ضوابط کسی چیز کو نہیں مانتی اس کا فیصلہ صرف میاں نواز شریف کا فیصلہ ہے پھر یہ کیونکر ممکن ہے کہ ملک کی سیاسی جماعتیں کسی ایک نکتے پر متفق ہوجائیں۔ اتفاق سے بھانت بھانت کی ان بولیوں کے درمیان دو توانا اور راست بازی پر مشتمل آوازیں اُٹھی ہیں۔ ایک مفتی اعظم پاکستان مفتی تقی عثمانی کی آواز ہے اور دوسری امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کی۔ دونوں نے اتفاق سے ایک ہی بات کی ہے کہ تمام جماعتیں اور ادارے دشمنی کے بجائے سرجوڑ کر ملک کو بچائیں۔ مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ فوج اور عدلیہ کو سیاست میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ موجودہ حالات میں تمام جماعتوں کو ساتھ بٹھانا ناگزیر ہوگیا ہے۔ اور غیر جانبداری سے قومی مفاد اور سلامتی کے لیے مسئلے کا حل نکالنا سب پر فرض ہے۔ اسی طرح سراج الحق نے مزید وضاحت کے ساتھ بات کی ہے اور مسئلے کی جڑ، انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ قومی انتخابات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے تمام پارلیمانی پارٹیوں سے رابطے کیے جائیں گے۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ ایک دوسرے کی نفی کرنے کے بجائے مشترکات کی طرف آئیں۔ عوام مثبت پیش رفت کے لیے ترس رہے ہیں۔ انہوں نے درست توجہ دلائی کہ سیاسی مسائل عدالتوں میں حل نہیں ہوں گے اور مارشل لاء کسی ٹیکنوکریٹ حکومت یا صدارتی نظام سے بھی بہتری نہیں ہوگی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ اب مارشل لا نہیں آئے گا۔ آیا تو لوگ ساتھ نہیں دیں گے۔ ویسے تو یہ الگ بحث ہے کہ لوگوں نے مارشل لا کا ساتھ کب دیا۔ ہمیشہ موقع پرست سیاستدانوں نے مارشل لا کی پزیرائی کی اور مفادات سمیٹے۔ مارشل لا تو جب آتا ہے اس کا ساتھ فوج ہی دیتی ہے اور کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ حالات کا حوالہ دے کر شہباز شریف انتخابات سے معذرت کررہے ہیں تو وہ حالات کی سنگینی کا ادراک کریں اور سب کو ایک جگہ بٹھائیں۔ اگر پنجاب اور کے پی کے میں الیکشن نہیں چاہتے تو پورے ملک میں کرادیں۔ کم از کم قوم کی یکجہتی تو متاثر نہیں ہوگی۔ پی ڈی ایم کب تک اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش رکھتی ہے۔ بات وہیں پہنچتی ہے کہ اگر یہ حکمراں طبقہ جو کہہ رہا ہے اس میں سنجیدہ ہوتے تو آج کسی نہ کسی سطح پر بات چیت ہورہی ہوتی۔ کچھ باتوں پر اتفاق ہوجاتا لیکن ایک دوسرے کی نفی کرنے کے چکر میں یہ اپنا اور ملک کا بڑا نقصان کرنے جارہے ہیں۔ حالات کا نام لے کر مسائل سے چشم پوشی یا فرار کے بجائے حالات کا سامنا کیا جائے۔ حالات کا تقاضا تو یہی ہے۔